دشمنانِ اسلام رمضان المبارک کے موقع پر مسلمانوں پر کسی
نہ کسی طرح ظلم و زیادتی کرنے اور اسلام کے تشخص کو نقصان پہنچانے کی کوشش
کرتے رہے ہیں۔ قبلۂ اول بیت المقدس سے لے کر دنیا کا عظیم جمہوری ملک
ہندوستان میں اس وقت مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہاہے۔ ایک طرف یہودی
صیہونی فورسس اور انتہاء پسند یہودی گروپوں کی جانب سے ہر سال قبلۂ اول
مسجد قدس میں مسلمانوں کو صحیح طرح سے خشوع و خضوع کے ساتھ ماہِ صیام میں
عبادت کرنے سے روکتے ہیں تو دوسری جانب ان ہی مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے
قبضہ کئے ہوئے علاقوں میں اسرائیلی فوج کی بربریت عروج پر ہوتی ہے۔ یروشلم
اور دیگر فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فوج کے حملوں میں درجن سے زائد
فلسطینی ہلاک اور لاتعداد زخمی بتائے جارہے ہیں۔معصوم ، بے قصور نہتے
فلسطینیوں پر گولیاں چلائی جاتی ہیں یا انہیں حراست میں لے کر سخت سے سخت
اذیتیں دی جاتی ہیں ۔مقبوضہ بیت المقدس میں ماہ ِ صیام میں اسرائیلی فوج کی
درندگی کے خلاف عالمِ اسلام کے ممالک نے آواز اٹھائی اوراسرائیلی بربریت کو
روکنے پر زور دیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردغان نے اپنے اسرائیلی ہم منصب سے
ٹیلی فونک رابطہ کرکے بات چیت کی ۔ ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر رجب طیب
اردغان نے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعہ بات چیت کا احوال بتاتے ہوئے کہا ہے کہ
’’ہمارے لئے یہ ایک نہایت تکلیف دہ حقیقت ہیکہ ماہ رمضان کے آغاز سے مغربی
کنارے اور مسجد اقصیٰ میں پیش آنے والے واقعات میں 400سے زائد فلسطینی زخمی
اور بچوں سمیت 18افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹے ہیں‘‘۔گذشتہ کئی دنوں
سے مشتعل گروہوں کی جانب سے مسجد اقصیٰ پر صبح سویرے کئے گئے حملوں پر
افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صدر اردغان نے سخت الفاظ میں مطالبہ کیا کہ ہر
ایک اس بابرکت مقام کی روحانیت اور تقدس کے تحفظ کیلئے بھرپور کوشش کرے۔
انہوں نے کہاکہ عید کی خوشیوں کے موقع پر ہر سال کچھ شدت پسندوں کی وجہ سے
بیت المقدس سے آنے والی دردناک تصاویر خوشیوں کو غم میں بدل دیتی ہیں اور
پوری مسلم دنیا سے سخت اور جائز ردّعمل کا سبب بنتی ہیں۔ صدر نے مزید کہاکہ
اس حساس صورتحال میں ایک بار پھر مسجد اقصیٰ کی حیثیت اور روحانیت کے خلاف
اشتعال انگیزی اور دھمکیوں کی اجازت نہ دینے کی ضرورت پر زور دینا چاہونگا۔
پاکستان نے بھی اسرائیلی زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں حالیہ صورتحال پر
شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دفترِ خارجہ سے جمعہ کو ایک بیان جاری کیا
ہے جس کے مطابق کہاگیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے ماہ رمضان میں مسجد
اقصیٰ پر دھاوا انسانی اقدار اور انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ کو
افسوسناک قرار دیتے ہوئے پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہیکہ
’’فوری اقدامات اٹھاتے ہوئے فلسطینیوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جائے اور
بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر پرعمل درآمد
کیاجائے‘‘۔پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اسرائیلی فوج کے مسجد اقصیٰ پر
دھاوے اور تشدد میں اضافے کی مذمت کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق اور انسانی
قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ پاکستان نے فلسطینیوں کی مسلسل
جدوجہد کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ بھی کیا۔ وزارتِ خارجہ کے بیان میں
مزید کہا گیا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قرار دادوں کے تحت
فلسطینی عوام کے حقوق اور حق خودارادیت کے حصول کے علاوہ 1967کی سرحدوں کے
اندر آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کی حمایت کرتا ہے جس کا دارالحکومت
القدس ہو۔فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج اور انتہاء پسند یہودیوں کی جانب سے
تشدد کرنے کے بعد فلسطینی مسلمان اپنی جان بچانے اور حملوں کو صیہونی حملوں
کو روکنے کیلئے دفاع کرتے ہیں تو انکے خلاف مزید کارروائی کی جاتی ہے اور
انہیں ہی بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی سلسلہ میں امریکہ نے اسرائیل
اور فلسطین پر زور دیا ہیکہ وہ تشدد کے سلسلہ کو روک دیں۔ امریکی وزیر
خارجہ انٹونی بلنکن نے اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ
’تشدد کے سلسلے کا خاتمہ‘‘ کریں۔ امریکہ کو چاہیے تھاکہ وہ سب سے پہلے
اسرائیلی فوج اور انتہاء پسند یہودی گروپوں کے خلاف کہتا۔ برخلاف اسکے
دونوں فریقوں کے درمیان تشدد کو روکنے کی بات کی ہے۔ گذشتہ دنوں دونوں
فریقوں کے درمیان کشیدگی میں تیزی سے اضافے کو دیکھتے ہوئے امریکی وزیر
خارجہ نے فلسطینی صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم یائر لاپڈ سے الگ
الگ ٹیلی فون کالس کئے۔ بتایاجاتا ہیکہ بات چیت کے دوران انہو ں نے دونوں
قائدین پر زور دیا کہ اسرائیلی اور فلسطینیوں کے لئے تشدد کے سلسلے کے
خاتمے کیلئے کام کرنا نہایت اہم ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے سینکڑوں
مسلمانوں کو شدت پسندقرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ تشدد اور غلط
معلومات پھیلانے میں ملوث ہیں جس سے کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ ٹوئٹر پر اسرائیلی
وزیر اعظم نے لکھا کہ ’میں نے وزیر خارجہ بلنکن کو بتایا کہ تشدد کی حمایت
کو برداشت نہیں کریں گے، اور میں نے یروشلم میں امن واپس لانے کے لئے عالمی
حمایت کی ضرورت پر زور دیا‘۔ دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی
وزیر خارجہ بلنکن کو بتایا کہ اسرائیلی فورسز اور شہریوں کی جانب سے مسجد
اقصیٰ پر ’’ظالمانہ حملے‘‘ اور فلسطینی دیہات اور قصبوں پر اسرائیلی قبضے
حالات کو تباہ کن اور ناقابلِ برداشت نتائج کی طرف لے جائیں گے۔ صدر محمود
عباس کے بیان سے واضح ہوتاہیکہ اسرائیلی آج بھی فلسطینی مسلمانوں کی
جائیدادوں پر قبضے کرتے جارہے ہیں اور اسکا بھرپور ساتھ اسرایلی حکومت اور
فوج دے رہی ہے۔
ہندوستان کی بعض ریاستوں میں مسلمان نشانہ پر
ہندوستان میں ملک کو ہندوراشٹر بنانے کے خواب دیکھنے والے شرپسند اپنے
مذہبی تہوار کو خوش اسلوبی سے انجام دینے کے بجائے مسلمانوں کے علاقوں میں
جاکر مساجد کے سامنے شرپسند نعرے بازی کرتے ہیں اور ہتھیار سے لیس ہوکر
مسلمانوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلمان صبر و تحمل کا ہر
ممکنہ سطح تک مظاہرہ کرتے ہیں لیکن جب ایک طرف سے تعصب پرست تشدد پر اتر
آتے ہیں تو پھر مسلم نوجوان جو صبر وتحمل کا دامن تھامے ہوئے ہوتے ہیں
انہیں بھی غصہ آنا لازمی بات ہے اور جب صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے
تو حالات دونوں طرف سنگین نوعیت اختیارکرجاتے ہیں۔ یہ بات دعوے کے ساتھ کہی
جاسکتی ہیکہ مسلمانوں کی جانب سے کہیں پر بھی تشدد کی کارروائی نہیں کی گئی
، جلوسیوں پر پتھر بازی کیوں کی گئی اس سلسلہ میں حکومت اور پولیس کو پوری
ذمہ داری کے ساتھ تحقیقات کرنا ہونگی ۔ بعض میڈیا چینل کے ہندواینکرس کا
کہنا ہیکہ ہم کو ہمارے ملک میں اپنے مذہبی تہوار منانے کا اختیار نہیں ہے ۔
جبکہ ان چینل کے اینکرس و ذمہ داروں کو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہیکہ
مسلمانوں نے کب اور کیوں جلوسیوں پر پتھراؤ کیا ۔ مسلمانوں کو ایسے ایسے
نعروں کے ذریعہ اشتعال دلایا جاتا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ
مسلمان اس ملک کے محب وطن نہیں ہے۔ مسلمانوں نے اس ملک کی آزادی کے لئے جو
قربانیاں دی ہیں اور ملک کی ترقی و خوشحالی میں جو کردار ادا کیا ہے اس کا
اندازہ شاید ان ٹیلی ویژن اینکرس کو نہیں ہے یا ہے بھی تو وہ تعصب پرست
ذہنیت کے حامل ہیں ۔ اگر واقعی یہ اینکرس اور نمائندے تعلیم یافتہ اور
مذہبی معلومات رکھتے تو شاید ملک میں حالات سنگین نوعیت اختیار نہ کرتے۔
ملک کے تمام میڈیا خصوصاً الکٹرانک میڈیا کو چاہیے کہ وہ تعصب پرست اور
فرقہ وارانہ عناصر کی ہمت افزائی کرنے کے بجائے ملک کے حالات کو سدھارنے
اور بھائی چارگی کی فضاء کو بنائے رکھنے کے لئے کوشش کریں کیونکہ کسی بھی
ملک میں اگر اقلیتوں پر ظلم و زیادتی کی جائے گی تو اسکا خمیازہ اکثریت کو
بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔ ظلم و زیادتی کی جب انتہاء ہوجاتی ہے تو پھر حالات
کسی کو چین و سکون سے رہنے نہیں دیتے۔ اسی لئے ملک میں ہر تعلیم یافتہ اور
مذہبی ذمہ دار شہری اپنی ذمہ داری کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے فرقہ پرستوں
کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ مسلمانوں کو ہمت و حوصلے کے ساتھ جینا ہوگا ۔ اپنے
اور اپنے خاندان و ملک کے دیگر مذاہب کے شہریوں کے دفاع کیلئیاورملک میں
امن و سلامتی کی بحالی کیلئے ایک مضبوط اور طاقتورہندوستانی شہری کا کردار
ادا کرنا ہوگا۔جن ریاستوں میں فرقہ وارانہ تشدد ہوئے ہیں اس کی صحیح طرح سے
تحقیقات ہونی چاہیے اور مرکزی و ریاستی حکومتوں اور پولیس کو چاہیے کہ وہ
ملک میں ہم آہنگی اور بھائی چارہ کی فضاء کو بنانے کیلئے فرقہ پرستوں کا
ساتھ نہ دیں اور جھوٹے الزامات کے تحت مسلمانوں کو حراست میں لے کر زدوکوب
نہ کیا جائے۔ جن بے قصور اور مظلوم مسلمانوں کو حراست میں لیا گیا ہے انہیں
رہا کیا جائے اور ذمہ دار فرقہ پرست عناصر کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی
جائے۔ ماہ ِصیام میں مسلمانوں کے گھروں کو زمین دوز کردیا گیا ،انکی املاک
کو تباہ و تاراج کیا گیا اور کئی مسلم بے قصور افراد کے خلاف کارروائیاں کی
جارہی ہیں ۔اگر انصاف سے کام نہ لیا گیا تو اسکے نتائج مستقبل میں خطرناک
نکل سکتے ہیں۔ مسلمانوں کی املاک تباہ و برباد کرنے کی وجہ سے انتقامی
کارروائیاں زور پکڑ سکتی ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ تعصب پرستی کی گئی تو یہی
مسلمان جو آج چھوٹے چھوٹے کاروبار کررہے ہیں وہ کل مجرمانہ سرگرمیوں میں
ملوث ہوسکتے ہیں اور اسکے ذمہ دار آج کی مرکزی و ریاستی حکومتیں ہونگی۰۰۰
الحمد ﷲ آج تلنگانہ ریاستی حکومت جس طرح ریاست کے تمام عوام کی خوشحالی اور
سلامتی کیلئے خدمات انجام دے رہی ہے یہ قابلِ قدر ہے ، ملک کی دیگر ریاستوں
میں بھی اسی طرح کا ماحول فراہم کیاجانا چاہیے تاکہ ملک میں امن و آمان کی
فضاء قائم رہے اور ملک کی ترقی و خوشحالی بھی اسی میں مضمر ہے۔
پاکستان میں نئی اتحادی حکومت
پاکستان میں نئی اتحادی حکومت کے وزیر اعظم کی حیثیت سے شہباز شریف نے
گذشتہ دنوں صدر مملکت عارف علوی کے بجائے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی سے
اپنے عہدے کا حلف لیا۔ 19؍ اپریل کو نئی اتحادی حکومت کی 34رکنی وفاقی
کابینہ نے بھی حلف اٹھالیا ہے۔ واضح رہیکہ صدر کے بجائے چیئر مین سینٹ نے
ان وزراء کو حلف دلایا۔ یہ تقریب منگل کو ایوان صدر میں منعقد ہوئی تھی ۔
وفاقی کابینہ مجموعی طور پر 34اراکین پر مشتمل ہے جس میں 30وفاقی وزراء ،
4وزرائے مملکت اور تین مشیر شامل ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف
متحدہ اپوزیشن اور منحرف اراکین نے تحریک عدم اعتماد داخل کی تھی جس کے بعد
شہباز شریف 274ووٹوں کے حصول سے وزارتِ عظمٰی کے لئے منتخب ہوئے۔ اب دیکھنا
ہے کہ عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے نکالنے کے لئے جس طرح متحدہ اپوزیشن نے
اہم رول ادا کیا ، انکی حکومت کس طرح ملک کی معیشت کو مستحکم بناسکتی ہے۔
عمران خان نے انکے خلاف کی گئی بیرونی سازش کو عوام کے سامنے لانے اور عوام
کی تائید و حمایت حاصل کرنیکے لئے بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد عمل میں لایا
ہے۔ کراچی کا تاریخ ساز جلسہ عمران خان کے اعتماد کو مزید تقویت دیتا ہیکہ
مستقبل میں وہی ملک کے اگلے وزیر اعظم ہونگے ۔ اب دیکھنا ہیکہ شبہاز شریف
اپنے کابینی رفقاء کے ساتھ مل کر ملک کی معیشت اورسیاست کو کس مقام پر لے
جاتے ہیں۔
**********
|