مدینہ کی اسلامی ریاست کا ایک واقعہ ہے کہ ایک صاحب کو
رسول ؐاﷲ زکوٰۃ و صدقات کی وصولی پر لگایا تھا۔ جب وہ شخص مدینہ کی اسلامی
ریاست کے لیے زکوٰۃ و صدقات وصول کر کے رسولؐ اﷲ کے پاس پہنچا تو کہا کہ یہ
مال ریاست مدینہ کے بیت المال کی زکوٰۃ اور صدقات کے پیسے ہیں اور یہ مال
مجھے تحفہ کے طور پر ملے ہیں۔ یہ بات سننے کے بعدرسولؐ اﷲ نے ان صاحب سے
کہا کہ اگر تم کو ریاست مدینہ کی طرف زکوٰۃ و صدقات وصولی کے عہدہ پر نہ
لگایا گیا تو کیا پھر بھی تمھیں یہ تحفے ملتے؟۔پھر وہ تحفے مدینہ کی اسلامی
ریاست کے بیت ا لمال میں جمع کرا دیے گئے تھے۔ اب ہمارے سابق وزیر اعظم
عمران خان جو مدینہ کی اسلامی ریاست جیسا پاکستان کو بنانے کے عزم کے ساتھ
اقتدار میں آئے تھے۔جن کو حسن اتفاق کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ
سے صادق اور امین کا سرٹیفیکیٹ بھی دیا تھا۔ اس سرٹیفیکیٹ کو وہ عوام میں
کیش بھی کراتے رہے ہیں۔ مگر پاکستان کے وزیر اعظم ہونے کے ناطے انہیں جو
تحفے ملے تھے ان کو سستے داموں خرید کر مہنگے داموں فروخت کر دینے کی وجہ
سے اپوزیش اور عوام میں اپنا مقام خود ہی گرا دیا۔ اپوزیشن کی طرف سے، جسے
وہ چور اور ڈاکو کہتے تھے اور اب بھی کہتے ہیں، نے گرفت کی گئی تو کہا کہ’’
میرا تحفہ میری مرضی‘‘۔ کیا کہنے عمران خان صاحب اگر آپ وزیر اعظم پاکستان
نہ ہوتے تو آپ کو کوئی مملکت ایسے تحائف دیتی؟ کیا آپ نے کبھی تاریخ اسلام
میں مدینہ کی اسلامی ریاست میں اس ملتا جلتا واقعہ نہیں پڑھا جو ہم نے اوپر
بیان کیا ہے؟
اقتدار سے جمہوری طریقے سے عدم اعتماد کی وو ٹنگ کے ذریعے آپ کو بے دخل کر
دیا گیا تو آپ نے ملک کی سپریم کورٹ کے معزز جج صاحب سے شاکی ہو گئے۔ امیر
جماعت اسلامی کے مطابق قومی وحدت کی علامت ملکی آئین مظلوم بن چکا۔صدر
مملکت پارلیمنٹ کو تسلیم کرنے سے انکاری، گورنر پنجاب وزیر اعلیٰ کو ماننے
کے لیے تیار نہیں۔ ملک کو درپیش مسائل کا واحد حل سیاسی پارٹیوں کے درمیان
انتخابی اصلاحات اور متناسب نمایندگی کی بنیاد پر جوری انتخابات ہیں۔ جماعت
اسلامی نے ا نتخابی اصلاحات پر سیاسی جماعتوں سے ڈائیلاک کے کمیٹی تشکیل دے
دی ہے۔
عمران خان کہتے ہیں کہ عدلیہ نے رات بارہ بجے عدالت کھولی ۔میں نے کیا جرم
کیا تھا۔ اس کی وضاعت معززچیف جسٹس صاحب نے کر دی کہ آئین کی پاسداری کے
لیے عدالت چوبیس گھنٹے کام کرتی ہے ۔ کسی کے حق میں فیصلہ ہو تو خوش اور
برخلاف آئے تو نا خوش!۔عمران خان مذیدکہہ رہے ہیں کہ فوجیوں کو پلاٹ ملتے
رہے ہیں۔ ان کی مرضی جو چائیں کریں ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ فوج کو
قانون اور قاعدے کے مطابق پلاٹ ملتے ہیں۔فوج کے لیے کہا کہ وہ تین اُپشن لے
کر میرے پاس آئے تھے۔ فوج کے ترجمان نے بھی پریس کانفرنس میں واضع کر دیا
کہ آپ کے بلانے پر آپ کے پاس آئے تھے۔تین پلان آپ کے تھے فوج کے نہیں؟۔ فوج
نے ازخود کوئی بھی پلان پیش نہیں کیا۔فوج کو خوامخوہ سیاست میں نہ گھسیٹا
جائے۔
عمران خان آپ کو یا کسی بھی وزیر اعظم پاکستان کو جو تحائف ملتے ہیں وہ
حکومت کے بیت المال میں جمع ہونا چاہییں۔ آپ جو صادق و امین ہیں آپ میں اور
دوسرے وزیر اعظموں میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے تھا؟ اس سے قبل پیپلز پارٹی
کے وزیر اعظم یوسف رضا جیلانی نے ترکی کی خاتون اوّل کی طرف سے قیمتی ہار
جو سیلاب زدگان کے فنڈ کے لیے ملاتھا۔یوسف رضا گیلانی نے وہ قیمتی ہار اپنی
بیوی کودے دیا۔ تو عدالت تک کیس گیا تھا۔ اب آپ کو بھی اپوزیشن کی طرف سے
ویسی ہی پوزیشن کو فیس کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔آپ اپنے دور میں بچکانہ
انداز میں منہ پرہاتھ پر پھیر کر نوازشریف کو مخاطب کر کے کہتے تھے۔ تم
واپس آؤ تم سے جیل کی فلاں فلاں سہولتیں واپس لے لوں گا ۔کرپشن میں عدالتوں
کے فیصلوں کے آنے سے پہلے ہی بھڑکیں مارتے رہے تھے ۔ اپوزیشن سے کہتے تھے
تم کو جیلوں میں ڈالوں گا۔ یہ کردوں گا وہ کر دوں گا۔ آپ کو کم از کم اتنا
تو معلوم ہونا چاہیے تھاکہ جیل کے مینول کے اندر جن قیدیوں کو جو جو
سہلوتیں آئین کے مطابق حاصل ہے وہ کسی کو بھی روکنے کی اجازت نہیں ہے۔ آپ
کے دور حکومت میں شاید سپریم کورٹ نے بھی کسی کیس میں ریماکس دیے تھے کہ
نیب قانون کو غلط طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
عمران خان نے سستی شہرت کے لیے اپنا کیرئیر خود خراب کیا۔یہ سب سیاست میں
ناپختگی ، بچگانہ عادت،ناکامیاب گھریلو زندگی، جلد بازی، جذباتی رویہ، ضد و
تکبر، ساتھیوں سے مشاورت کی کمی کی وجہ سے ہوا۔ گو کہ اب پاکستان کی عوام
کی عمران کے ساتھ ہے۔ عمران خان کرپشن فری ہونے اپنی ان کمزوریوں پر قابو
پا کر پھر بھی اقتدار میں آ سکتے ہیں۔ عمران کی یہ خوبی ہے کہ عوام کو
کرپشن کے بارے آگاہی دی۔ اگر اس سے قبل نواز شریف نے ملک کی مایا ناز فوج
اور معزز عدلیہ کے خلاف مہم چلا کر تاریخی غلطی کی تھی۔تو آج آپ بھی یہی
کام کر کے غلط کر رہے ہیں۔ عمران خان نے فوج اور حکومت کے ایک پیج پر ہونے
کی خوشگوار پوزیشن کو بھی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے موقعہ پر خراب کیا۔
فوج کا اپنا ایک طریقہ ہے۔آپ نے اس میں دخل دے کر فوج سے تعلقات خراب کر
لیے۔
ویسے تو میڈیا میں لسٹ جاری ہوئی ہے کہ نواز شریف، مریم صفدر،شوکت عزیز،
زرداری،پرویز مشرف،یوسف رضاگیلانی بھی سستے داموں توشہ خانے چیزیں لے جاتے
رہے مگرسپریم کورٹ نے تو آپ کو آپ کی کرپشن فری ہونے کی وجہ سے صادق اور
امین کا جو سرٹیفیکیٹ دیا تھا۔ اس کی آپ قدر نہ کر سکے۔ توشہ خانے کے تحفوں
کوسستے داموں خریدکرمہنگے داموں فروخت کر کے اپنے لیے مشکلات خود پیدا کر
لیں۔جہاں تک امریکا کی مداخلت سے عمران خان کی حکومت گرانے کی بات ہے تو اس
میں بات میں تو شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔امریکا پاکستان اسلامی دنیا بلکہ
ساری دنیا میں مداخلت کرتا رہتا ہے۔ عدلیہ سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ کے حل
کے لیے ایک یوڈیشنل کمیشن بنا کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دینا
چاہیے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان جن کوکسی کیس کے دوران ریکاکس دیتے ہوئے سپریم
کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے کہا تھا کہ پاکستان کے سیاستدانوں کو اگر آئین
پاکستان کی دفعہ63.62 پرکھا جائے تو پاکستان میں صرف جماعت اسلامی کے امیر
سراج الحق ہی پورے اُتر سکتے ہیں۔ اس موقعہ سراج الحق امیر جماعت اسلامی نے
عدلیہ سے درخواست کی ہے کہ گذشتہ تیس سالوں میں پاکستان کوبیرون ملک سے جو
جو تحائف بھی ملے ہیں ان کی لسٹ جاری کر کے جانچ پڑتال کی جائے۔ تاکہ کسی
ایک فرد کے بجائے سب کو انصاف کے کہڑے میں لایا جائے۔ ․عوام کی اطلاع کے
لیے اس موقعہ پرجماعت اسلامی کے کچھ رہنماؤں کو ملنے والے تحائف کے روداد
بھی سنا دیتے ہیں۔عبدالستار افغانی ؒ جو دو دفعہ کراچی میٹرو پولیٹن شہر کے
میئر رہیں ۔ کراچی میں بلدیہ کے پر آرائش بنگلے میں رہائیش نہیں رکھی۔ اپنے
80 گز کے فلیٹ میں رہائیش رکھی۔ ایک دفعہ ممبر قومی اسمبلی بھی رہے ہیں۔ ان
کی قومی اسمبلی کی مہم چلانے کے لیے جماعت اسلامی ضلع کراچی جنوبی کے امیر
محترم نور محمد لاکھانی (مرحوم) نے راقم کے ذمے لگائی تھی ۔ راقم کی قیادت
میں این اے250 میں عبدالستار افغانی نے ایم کیو ایم کی نسرین جلیل صاحبہ کو
ایم کیو ایم کے دہشت گردانہ عروج کے دور میں شکست دی تھی۔ راقم عبدالستار
افغانی کے ذاتی حالات سے باخبر ہیں۔وہ لیاری کے اپنے خاندانی ایک80 ؍ گز کے
فلیٹ کے مالک تھا۔دو دفعہ کراچی کے میئر اور ایک دفعہ قومی اسمبلی کے ممبر
کے بعد جب فوت ہوئے تو اسی80 ؍ گز کے فلیٹ سے ان کا جنازہ نکلا تھا۔
ڈکٹیٹرضیاء الحق کے دور میں قومی اسمبلی کے ممبران کو پلاٹ دیے گئے تھے ۔
جماعت اسلامی کے ممبران قومی اسمبلی نے انکار کر دیا تھا۔ عبدالستار افغانی
نے ڈی جی کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے پلاٹ لینے سے نہ صرف انکار کیا تھا,
بلکہ بلدیہ کی قیادت کو بھی نہیں لینے دیا۔ بلدیہ کراچی کے بجٹ میں کررڑوں
کا اضافہ کیا۔جب ان سے معلوم کا گیا کہ بغیر ٹیکس لگائے یہ کیسے ممکن ہوا۔
تو جواب دیا کہ کرپش کو روک کر ایسا کرنے میں کامیاب ہوا۔ امیر جماعت
اسلامی سراج الحق خیبر پختونخواہ کی حکومت کے سینئر وزیر؍ وزیر خزانہ تھے۔
سرکاری دوروں میں فضول خرچی ختم کر کے دکھائی۔ جس دورے کے سابق وزیر
خزانہ80؍ لاکھ وصول کر کے گئے تھے وہ انہوں نے12 ؍ سو روپے میں کیا۔ سید
منور حسن سابق امیر جماعت اسلامی نے اپنے بیٹی کی شادی میں ملنے والے بیش
بہا تحائف جماعت اسلامی کے بیت المال میں یہ کہہ کر داخل کر دیے کہ بیٹی یہ
تحائف تیرے باپ کو امیر جماعت اسلانے ہونے کی وجہ سے ملے ہیں۔لندن میں ملنے
والی گھڑی بھی جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرائی۔ نعمت اﷲ خان سابق
کراچی سیٹی ناظم نے بھی کوئی ذاتی منعفت حاصل نہیں کی۔جماعت اسلامی کے
ممبران قومی اسمبلی سے ملنے والی تنخواہ جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع
کراتے رہے۔
صاحبو!بنیادی چیز ایمان داری ہے۔ بیرون ملک سے ملنے والے تحائف عمران خان
کے نہیں تھے کہ ان کی مرضی چلنی تھی۔یہ جھگڑے اسی لیے ہو رہے ہیں کہ نیتیوں
کا مسئلہ ہے۔ ہم سب کی نیت ٹھیک ہونی چاہیے۔ جماعت اسلامی کے لوگوں اور
دوسرے لوگوں میں فرق صاف نظر آ رہا ہے۔ اس لیے قوم کو اب اپنے فیصلوں کے
وقت اس پر بھی بھی غور کرنا ہو گا۔ اقتدار اور حکمرانی اﷲ کی طرف سے امانت
ہے۔ طاقت اﷲ کا سایہ ہے۔ جس نے اِس کی توہیں کی۔ اﷲ نے اُس کی توہین کی۔ اس
طاقت کو اﷲ کی مرضی کے تابع ہونا چاہیے۔ اس لیے عمران خان کا بیانیہ کہ
’’میرا تحفہ میری مرضی‘‘ نہیں چلے گا۔
|