رام نومی کے نام پرمسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کے ماحول
میں بہار کے اندر دو افطار پارٹیوں نے سیاسی کہرام مچا دیا ۔ پہلی افطار کی
دعوت سابق نائب وزیر اعلیٰ سشیل مودی کی طرف سے دی گئی ۔ وہ گزشتہ تیس
سالوں سے بہار میں افطار کا اہتمام کر رہے ہیں لیکن اس میں وزیر اعلیٰ نتیش
کمار سمیت ان کی کابینہ کے بیشتر ساتھی اور روی شنکر پرساد کے ساتھ بی جے
پی کے کئی سینئررہنماوں کی موجودگی نے مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کےرحجان
دھچکا دیا۔ شاہنواز حسین نےاس موقع پر کہا کہ یہ دعوت انجمن اسلامیہ میں
ہوئی جہاں مولانا آزاد سمیت کئی بڑے لیڈر آچکےہیں ۔ وہ بولے جیسی فضا بہار
میں وزیر اعلیٰ نے بنائی ویسی ملک بھر میں کہیں اور نہیں ہے۔یہ تو تھا
چھوٹا دھماکہ مگر جب تیجسوی یادو نے دو دن بعد افطار پارٹی کا اہتمام کیاتو
اس میں بھی نتیش کمار سمیت چراغ پاسوان اور سید شاہنواز حسین وغیرہ موجود
تھے۔ 2017 کے بعد پہلی بار نتیش کمار لالو پرساد یادو کے گھر آئے تو سیاسی
اٹکلیں تیز ہوگئیں۔ بی جے پی کے چانکیہ نے اسی دن جگنیش میوانی کو گرفتار
کرکے آسام بھیجا اور بلا واسطہ نتیش کو دھمکی دی کہ یہ کسی کے ساتھ بھی
ہوسکتا ہے لیکن کیا وزیر اعلیٰ اس سے ڈر جائیں گے اور کوئی اقدام کرنے سے
ہچکچائیں گے؟ 2024میں جب قومی انتخاب ہوں گے تو بہار میں کس کی سرکار ہوگی
؟ اس وقت سیاسی حاشیے پر کھڑے سشیل مودی کس خیمہ میں ہوں گے؟ یہ سوالات
اچانک اہم ہو گئے ہیں۔
بہار کے اندر بی جے پی کو اقتدار کا خمار اترپردیش اور گجرات سے بھی زیادہ
ہے ۔ وہاں پر اس کی حالت شیشے کی دوکان میں آوارہ سانڈ کی مانند ہے جو بے
دریغ تباہی و بربادی میں مچاتاہے۔ان افطار پارٹیوں میں موجود بی جے پی
شرکاء کو دیکھیں کہ کس کو اعلیٰ کمان نے رسوا نہیں کیا سشیل مودی آج بھی
بہار بی جے پی کے سب سے قدآور رہنما ہیں مگر ان کو ریاستی سیاست کے اندر
سے دودھ کی مکھی کی مانند نکال کر باہر پھینک دیا گیا ۔ مرکزی وزارت کی
ساری توقعات ماند پڑ چکی ہیں ۔ اٹل جی کے زمانے میں شاہنواز حسین مرکزی
وزیر تھے۔ ان کو صوبے میں بھیجا تو کم ازکم دو میں سے ایک نائب وزیر اعلیٰ
بناتے لیکن نہیں ایک غیر اہم قلمدان پکڑا دیا ۔ روی شنکر پرشاد ایک زمانے
تک بی جے پی کے شعلہ بیان ترجمان رہے ۔ مرکز میں اہم ترین وزارتوں پر فائز
رہنے والے پرشادکو ٹوئیٹر جیسا معمولی بہانہ کر سیاسی افق سے غائب کردیا
گیا۔ چراغ پاسوان کو ٹیشو پیپر کی مانند نتیش کمار کے خلاف استعمال کیا اور
پھر ان کے چچا کا استعمال کرکے سیاسی طور بھی یتیم اور این ڈی اے سے بھگا
دیا گیا ۔وکاس شیل پارٹی کے سارے ارکان اسمبلی کو صدر مکیش ساہنی سے الگ
کرکے اپنے ساتھ کرلیا گیا ۔ تصور کریں کہ اگر نتیش کمار سمیت یہ سب زخم
خوردہ نفوس تیجسوی یادو کے ساتھ ہوجائیں تو کیا ہوگا ؟
حالیہ ضمنی انتخاب میں بہارکے اندر بی جے پی کو اپنی دبنگائی اور نمک حرامی
کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑی۔ این ڈی اے کی ایک حلیف وکاس شیل پارٹی ہے۔ اس
کے رہنما مکیش ساہنی نے جب آر جے ڈی کے کچھ لوگوں سے ملاقات کی تو بی جے
پی نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کران سے وزارت چھین لی۔ اس سے آگے بڑھ کر
وی آئی پی کے چاروں ارکان اسمبلی کو توڑ کر اپنے سے جوڑ لیا۔ 2020 میں
وکاسیل انسان پارٹی کے ٹکٹ پر بو چاہان سے مسفر پاسوان ایم ایل اے منتخب
ہوئے تھے ۔اس بار مکیش ساہنی کو انتقام لینے کا موقع ملا تو انہوں نے بی جے
پی کو دھول چٹا کر سبق سکھا دیا۔ وہاں سے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے
امرپاسوان نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کو 35,000 سے زیادہ ووٹوں کے
فرق سے شکست دے دی۔ آر جے ڈی امیدوار کو 82,116 ووٹ ملے، جب کہ بی جے پی کی
بے بی کماری کو صرف 45,353 ووٹ پر مطمئن ہونا پڑا ۔ یہاں پر آر جے ڈی کے
49 فیصد ووٹ کے مقابلے بی جے پی کے صرف 27 فیصد ووٹ ہیں اوریہ کوئی معمولی
فرق نہیں ہے۔
اسی ماہ ایم ایل اسی انتخاب میں بھومی ہاروں کو ساتھ لے کر آر جے ڈی نے
اپنے ارکان کی تعداد کو 2 سے بڑھا کر 6 تک پہنچا دیا تھا ۔ ان میں سے تین
بھومی ہار تھے ۔ اس حکمت عملی میں مزید پیش رفت ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ
امرپاسوان کو اپنے والد کے تئیں ہمدرد ی کا فائدہ ملا۔ ان کی نوعمری کام
آئی ۔ تیجسوی یادو نے اپنی مہم میں انوکھے انداز سے نوجوانوں کو قریب کرکے
بہار کے مستقل کو روشن کرنے پر زور دیا۔ امرپاسوان پر بدعنوانی کا کوئی
الزام نہیں تھا اس کے برعکس بی جے پی کی امیدوار بےبی کماری کا خاوند پر
رشوت خوری کے لیے بدنام ہے۔ پچھلی مرتب بے بی کامیاب ہوئی تھیں مگر ان کی
کارکردگی ناقص تھی۔ عوام کے اندران کے تئیں ناراضی تھی ۔ بہا ر میں اس بار
جے ڈی یو اور بی جے پی کے درمیان تال میل کا فقدان تھا ۔ بی جے پی نے نتیش
کو حقیر سمجھ کر نظر انداز کیا ۔ وزیر اعلیٰ نے بھی اپنی عدم دلچسپی سے یہ
دکھا دیا کہ ان کے بغیربہار میں بی جے پی کی دال نہیں گلے گی ۔
بہار سے قریب چھتیس گڑھ کی خیر اگڑھ سیٹ پر کانگریس کی امیدوار یشودا ورما
نے بی جے پی امیدوا ر کو مل سنگھ کو 20ہزار سے زیادہ ووٹ سے شکست دے دی۔
یہاں پر بی جے پی نے بہت محنت کرکے 41 فیصد ووٹ حاصل کیے جو کسی بھی
امیدوار کی کامیابی کے لیے کافی ہوتے ہیں مگر کانگریس نے 53 فیصد ووٹ لے کر
اسے چت کردیا ۔ بھوپیش بگھیل نے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ چوتھا ضمنی
انتخاب جیتا ہے ۔ اب تو لوگ ان کا مکھوٹا پہن کر ’بگھیل ہے تو بھروسہ ہے ‘
کے نعرے لگانے لگے ہیں۔ اس سے پہلے والا ضمنی انتخاب میں کانگریس نے اجیت
جوگی کے علاقہ میں سیندھ لگا کر ان کی پارٹی کو شکست دے دی تھی مگر خیرا
گڑھ تو سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر رمن سنگھ کا آبائی وطن ہے۔ انہوں نے اپنی
مٹی کی دہائی دے کر انتخابی مہم چلائی تھی اس لیے یہاں پر بی جے پی کو شکست
دینا بہت مشکل کام تھا۔
وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل خیرا گڑھ کے لوگوں کے ضلع بنانے کو لے کر پرانے
مطالبہ کو پورا کرنے کا اعلان کرکے عوام کامن موہ لیا۔ ویسے بھی بگھیل نے
ایک عام کسان کی جو شبیہ بنائی ہے اس سے عوام قربت محسوس کرتے ہیں ۔ عوام
کا اعتماد حاصل کرنے میں ان کی فلاح وبہبود کی اسکیموں نے اہم کردار ادا
کیا ہے۔ بڑے سرمایہ داروں سے زمین واپس لے کر عوام تقسیم کرکے انہوں نے
اچھا تاثر قائم کیا ہے ۔ کسانوں سے اچھی قیمت پر ان کا مال خریدا جارہا ہے۔
قانون کی بالا دستی کے معاملے میں کافی سخت ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے رمن
سنگھ کے بیٹے ابھشیک سنگھ پرنفرت انگیزی کی ایف آئی آر درج کرکے بی جے پی
کو پیغام دیا کہ وہ ریاست میں فرقہ واریت پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے ۔
ایک کانگریسی رہنما کو پولس اسٹیشن میں ہنگامہ کرنے کے الزام میں جیل بھیج
دیا اور اپنے والد کے خلاف بھی کارروائی کرنے سے نہیں چوکے ۔ یہ انتخابی
نتیجہ ان کی مقبولیت میں اضافہ کا ثبوت ہے۔
مندرجہ بالا مشرقی صوبوں کے علاوہ مغرب کے مہاراشٹر میں بھی ایک ضمنی
انتخاب ہوا ۔ کولہاپور نارتھ کی سیٹ کانگریس کے رکن اسمبلی چندرکانت جادھو
کے کورونا میں انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ برسراقتدار مہا وکاس اگھاڑی
نے یہاں سے آنجہانی چندرکانت کی اہلیہ جے شری جادھو کو ٹکٹ دیا۔ انہوں نے
بی جے پی کے حمایت یافتہ امیدوار ستیہ جیت کدم کو تقریباً 19 ہزار ووٹوں کے
فرق سے شکست دے دی۔اس انتخاب میں جے شری کو96 ہزار 226 ووٹ ملے جبکہ کدم
کو77 ہزار 426 ووٹ حاصل ہوئے۔ جے شری کو ہمدردی کی امید تو تھی لیکن یہ
خطرہ بھی تھا کہ کہیں پنڈھرپور کی مانند ہندوتوا کے نام پر فرقہ واریت
پھیلا کر بی جے پی یہ سیٹ نہ نکال لے۔ 2014 میں اس نشست پر ستیہ جیت کدم کو
شیوسینا کے راجیش شیر ساگر نے ہرایا تھا۔ اس لیے بی جے پی والے سوچ رہے تھے
کہ اس بار شیوسینا کا ووٹ ان کی جھولی میں آجائے گا لیکن وہ خواب شرمندۂ
تعبیر نہیں ہوسکا ۔ کانگریس کا یہ اعتماد رنگ لایا کہ اس مرتبہ شیو سینک اس
کو ووٹ کریں گے۔
بی جے پی نے اس نشست پر کامیابی کو اپنے وقار کا مسئلہ بنالیا تھا ۔ اپنے
امیدوار کو کامیاب کرنے کی خاطر اس نے سابق وزیر اعلیٰ فردنویس سمیت پارٹی
کے صدر اور کولہاپور کے رہنے والے چندرکانت پاٹل کو بھی انتخابی مہم میں
جھونک دیا۔ بعد میں جب اس کو کافی نہیں سمجھا گیا تو قانون ساز کونسل میں
حزب اختلاف کے رہنما پروین دریکر،پنکجا منڈے اور ممبئی سے آشیش شیلار کی
خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ راج ٹھاکرے متوازی طور پر اپنا کام کرہی رہے تھے
لیکن یہ ساری کوششیں رائیگاں چلی گئیں۔ مہا وکاس اگھاڑی کے رہنماوں نے جے
شری جادھو کی جیت پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کولہا پور کے لوگوں نے
صوبائی حکومت کے تمام طبقات کی ترقی کے لیے کیے جانے والے کاموں پر اعتماد
ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی کی ہندوتوانواز تقسیم کاری اور نفرت انگیز سیاست
کو خارج کر دیا ہے۔سینا رہنما سنجے راوت نے راج ٹھاکرے کی جانب اشارہ کرتے
ہوئے کہا کہ ہنومان چالیسا کی سیاست کتنی بھی ہو لیکن رام دھنش اور ہنومان
کی گداایم وی اے کے پاس ہے۔کولہا پور کے عوام نے بھونگا کو ٹھینگا دکھا
دیا۔ ضمنی انتخاب کا پیغام یہی ٹھینگا ہے۔
|