ملک بھر میں قومی انتخابات کے درمیان صوبائی اور ضمنی
الیکشن منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں کبھی بی جے پی فتح سے ہمکنار ہوجاتی ہے
تو کبھی اس کو شکست سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ایسے میں ذرائع ابلاغ کا رویہ
بہت دلچسپ بلکہ متضاد ہوتا ہے۔ بی جے پی اگر جیت جائے تو قومی میڈیا میں
انتخابی تنائج کے سواکچھ نظر ہی نہیں آتا اور ہار جائے تو انتخابی نتائج
دکھائی ہی نہیں دیتے یعنی خبر دینے کی رسم ادا کردینے کے بعد چپیّ سادھ لی
جاتی ہے ۔ عظیم تر(مالی) مصالح کے پیش نظر ان پر کوئی تبصرہ اور مباحثہ
وغیرہ کرنے جرأت نہیں کرتا ۔ اس کی تازہ مثال گزشتہ ماہ پانچ صوبوں کی
انتخابی نتائج اور اس ماہ سامنے آنے والے چار صوبوں کے پانچ نتیجے ہیں ۔
پچھلے مہینے جن پانچ ریاستوں میں ریاستی انتخاب ہوئے ان میں منی پور اور
گوا کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے ۔ باقی تین میں سے دو ریاستوں میں بی جے پی
جیت گئی اور ایک میں بری طرح ہار گئی۔ اس کے باوجود وہ ذرائع ابلاغ پر چھا
گئی۔
پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں بی جے پی کی کراری شکست کے مقابلے اتر
پردیش کی فتح بھی پھیکی تھی کیونکہ یوپی میں بی جے پی اپنی گزشتہ کامیابی
سے بہت پیچھے رہ گئی تھی ۔ اتراکھنڈ کی جیت پر وزیر اعلیٰ کی شکست کا کلنک
لگا ہوا تھا اور اس ہارے ہوئے کھلاڑی کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بناکر بی جے پی
نے تسلیم کرلیا کہ اس کے پاس ریاست کا نظم و نسق چلانے کی خاطر پشکر سنگھ
دھامی سے بہتر رہنما موجود نہیں ہے۔ اترپردیش میں الیکشن ہارنے والے کیشو
پرشاد موریہ کو نائب وزیر اعلیٰ بنانے کا پیغام بھی قحط الرجال ہی ہے۔ اس
کے باوجود بی جے پی کو ناقابلِ تسخیر سیاسی جماعت کے طور پر پیش کیا گیا۔
ایک ایسا ماحول بنایا گیا کہ گویا بی جے پی نے اگلا قومی انتخاب جیت لیا ہو
حالانکہ دلی ابھی دور ہے بقول شاعر ؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اسمبلی انتخابات کے بعد ایک مہینے کے اندر ملک کے چار صوبوں میں منعقد ہونے
والے انتخابات نے بی جے پی کو دن دہاڑے تارے دکھا دیئے اور اس کی نیند اڑا
دی ۔ بی جے پی کو یہ اندازہ تو ہر گز نہیں رہا ہوگا کہ اس طرح اس کا سوپڑا
صاف ہوجائے گا ۔ اس بار رام نومی کے بہانے ملک میں خوب نفرت انگیزی کی گئی
مگر وہ تیر بہ ہدف بھی نشانہ چوک گیا ۔ یہ انتخابات چار ریاستوں میں پانچ
سیٹوں پر ہوئے ۔ ان میں سے ایک لوک سبھا سیٹ تھی اور چار اسمبلی کی نشستیں
تھیں۔ پارلیمانی نشست آسنسول کی تھی جو بی جے پی کے سابق وزیر بابل سپریو
کے استعفیٰ سے خالی ہوئی تھی۔ مغربی بنگال میں بی جے پی کے لیے اس نشست کی
تاریخی حیثیت ہے۔ 2014کے قومی انتخاب سے قبل اس ریاست میں بی جے پی کا نام
و نشان نہیں تھا ۔ اس وقت پہلی مرتبہ بی جے پی کو دو پارلیمانی نشستوں پر
کامیابی حاصل ہوئی تھی ان میں سے ایک دارجلنگ کی سیٹ اس نے اپنی حلیف
گورکھا جن مکتی پارٹی کی مدد سے جیتی تھی اس لیے اپنے بل بوتے پر گویا
آسنسول سے ہی کھاتہ کھلا تھا۔وہاں سے بابل سپریو کامیاب و کامران ہوکر
ایوان پارلیمان میں پہنچے تھے ۔بی جے پی نے بابل سپریو کو اس کامیابی کا
انعام دے کر مرکزی وزارت سے نواز دیا۔
مغربی بنگال میں بی جے پی کی کامیابی کے پسِ پشت رام نومی کا اہم کردار رہا
ہے۔ مارچ 2017 میں مغربی بنگال کے اندر پہلی مرتبہ آر ایس ایس نے ریاست کے
تمام اضلاع میں رام نومی کی تقریبات کو بڑے پیمانے پر منعقد کرنے کا فیصلہ
کیا ۔آر ایس ایس کے ترجمان جسنو بوس نے اس ضرورت بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ان
تقریبات کا انعقاد تمام اضلاع میں ہوگا تاکہ اس کے ذریعہ وہ لوگوں تک
پہنچنے کی کوشش کریں اور ہندتو کے تئیں بیداری لائیں ۔ اس کے معنیٰ یہ ہوئے
کہ رام نومی کا تعلق مذہبی عقیدت سے نہیں بلکہ رابطہ عامہ کی ایک مشق کے
طور پرکیا جائے ۔پہلا سال تو امن و امان سے گزر گیا مگر اگلے سال رام نومی
کے موقع پرمغربی بنگال کے ضلع پرولیا میں بجرنگ دل نے بغیر اجازت ہتھیار
بند شوبھا یاترا نکالی۔ پولیس نے روکنے کی کوشش کی تو تشد د پھوٹ پڑا جس
میں ایک شخص کی جان گئی اور چارلوگ شدید طور پر زخمی ہوگئے ۔ بردھوان ضلع
میں بھی بی جے پی کے پنڈال پر کچھ نامعلوم افراد نے حملہ کردیا اس کا الزام
ترنمول پر لگا ۔
اس سے متاثر ہوکر کلکتہ سمیت پوری ریاست میں ترنمول کانگریس نے بھی بی جے
پی کی طرح رام نومی کے جلوس نکالے اور اس کے جال میں پھنس گئی۔ ٹی ایم سی
کی رام بھگتی کا بڑافائدہ بی جے پی کو2019 کے قومی انتخاب میں ہوا ۔ اس نے
اپنے ارکان کی تعداد کو 2 سے بڑھا کر 18 تک پہنچا دیا ۔ ان نئی کامیابیوں
میں 12 ٹی ایم سی سے آئی تھیں اور 2، 2سی پی ایم اور کانگریس سے اس طرح
35سالوں تک مغربی بنگال میں حکومت کرنے والی سی پی ایم اپنا کھاتہ بھی نہیں
کھول سکی ۔ یہ مودی سے زیادہ رام کا چمتکار تھاکیونکہ مودی تو 2014 میں بھی
تھے مگر رام کے بغیر بات نہیں بنی۔ امسال پھر مغربی بنگال میں وی ایچ پی نے
رام نومی کے موقع پر ایک ہزار جلوس کا انعقاد کا اعلان کیا ۔ بی جے پی کے
ریاستی صدر شکانتو مجمدار نے اس مہم کی کامیابی کے لئے ہر طرح کی مدد کا
یقین دلایا ۔ انہیں امید رہی ہوگی کہ اس فائدہ پارلیمانی اور صوبائی اسمبلی
کے انتخاب میں ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ دونوں سطح پر بی جے پی کا سوپڑا
صاف ہوگیا ۔
2019 کے انتخاب میں بابل سپریو نے دوبارہ آسنسول میں زبردست کامیابی درج
کرائی لیکن چونکہ اس بار بی جے پی 18؍نشستیں جیت چکی تھی اس لیے فتح کے
غرور میں اس نے احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بابل سپریو سے وزارت
چھین لی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بی جے پی کی رکنیت کو لات مار کے
ترنمول کانگریس میں شامل ہوگئے۔ اس طرح آسنسول کی نشست پر انتخاب کی نوبت
آن پڑی ۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ممتا بنرجی ان کو پھر سے وہی
نشست پر لڑاتیں لیکن جو شخص گزشتہ دو مرتبہ ٹی ایم سی کے بخیہ ادھیڑ چکا
تھا رائے دہندگان کواسے ووٹ دینا مشکل ہوسکتا تھا اس لیے ممتا نے ایک بالکل
نیا چہرا ’شتروگھن سنہا‘ کو میدان میں اتارا ۔
شتروگھن سنہا کا سیاسی کارواں بی جے پی سے شروع کر کانگریس سے ہوتے ہوئے ٹی
ایم سی میں پہنچا لیکن انہوں نے کبھی بھی فرقہ واریت کو ہوا نہیں دی۔ ممتا
کا یہ داوں کامیاب رہا اورشترو گھن سنہا نے تین لاکھ سے زیادہ کےفرق سے بی
جے پی امیدوار کو ہرا کر غیر معمولی کامیابی درج کرائی ۔ یہاں پر ترنمول کے
ووٹ کا تناسب 57 فیصد تھا جبکہ بی جے پی کو صرف 36 فیصد پر اکتفاء کرنا پڑا
۔ بی جے پی کی اس کراری شکست کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اب مغربی بنگال کے
رائے دہندگان اس سے بیزار ہو چکے ہیں اور سوڈاو واٹر کے جھاگ کی مانند کمل
کے اثرات زائل ہورہے ہیں ۔ ممتا بنرجی نے بی جے پی کو اس کے گڑھ میں زندہ
دفن کرکے بتادیا ہے کہ اب بنگال میں اس کے دن لد گئے ۔
شتروگھن سنہا اپنے بول بچن کے لیے مشہور ہیں ۔ ان کے سیاسی مکالمہ بھی بڑی
آسانی سے چھا جاتے ہیں اس لیے ایوان پارلیمان میں سنہا کی تقاریر سے نہ
صرف ممتا اور ٹی ایم سی کا فائدہ ہوگا بلکہ بی جے پی کے لیے مسائل پیدا ہوں
گے ۔ مہوا مترا پہلے ہی سرخیوں میں بنی رہتی ہیں اب اس میں ایک بہترین
اضافہ ہوجائے گا ۔بابل سپریو جیسے آرزو مند رہنماکو اگر ممتا یوں ہی چھوڑ
دیتیں تو وہ بہت جلد کہیں اور نکل جاتے اور بعید نہیں کہ بی جے پی میں لوٹ
جاتے۔ ان کو پارٹی سے باندھے رکھنے کی خاطر بالی گنج اسمبلی سیٹ سے الیکشن
لڑایا گیا ۔ یہ شہری حلقۂ انتخاب ہے جہاں بی جے پی کے کافی اثرات ہوا کرتے
تھے ۔ پچھلے انتخاب سے قبل اشتراکیوں نے ممتا کے مظالم سے تنگ آکر ’پہلے
رام پھر بام (بایاں بازو)‘ کا نعرہ لگایا۔ اس کے نتیجے میں اس کا ووٹ بنک
بی جے پی کی جانب چلا گیا اور شاہ جی ہوا میں اڑنے لگے ۔
اسمبلی انتخاب میں ناکامی کے بعد اشتراکیوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو ا تو
انہوں نے بابل سپریو کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور سی پی آئی (ایم) دوسرے نمبر
پر آگئی نیز بی جے پی کو تیسرے مقام پرڈھکیل دیا گیا ۔ یہ اس بات کا ثبوت
ہے کہ جو اشتراکی ووٹ بی جے پی کی جھولی میں گیا تھا اب لوٹ رہا ہے اور یہ
زعفرانیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ بابل سپریو نے بائیں بازو کی رہنما
سائرہ شاہ حلیم کو 20,228 ووٹوں کے فرق سے شکست دی جبکہ بی جے پی کے کیا
گھوش کو محض 13,220 ووٹ پر اکتفاء کرنا پڑا۔ ترنمول کے 50 فیصد کے مقابلےبی
جے پی کو صرف 13 فیصد ووٹ ملے جبکہ سی پی ایم نے 30فیصد ووٹ حاصل کیے۔ شہر
میں جہاں ہندی بولنے والوں کی کثیر تعداد رہتی ہے بی جے پی کا یہ حال ہے تو
گاوں میں کیا ہوگا؟ کسی صوبے میں بی جے پی نے اتنا تیز عروج اور زوال نہیں
دیکھا ہوگا۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|