امریکہ میں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے نمائندگان
سے کامیاب مذاکرات کے بعد میڈیا کو کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں نومنتخب
حکومت کے نومنتخب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اعتراف کیا ہے کہ عالمی
مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ملاقاتوں کے بعد واپسی پر وہ اپنے ساتھ عوام
کے لیے کوئی ریلیف لے کر نہیں جارہے۔ ان کے بقول آئی ایم ایف کے پاس آنے کا
مطلب ہی یہ ہے کہ عوام کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کرسکیں گے۔اس وقت قوم کو
کڑوی گولی کھانا پڑے گی جس کے بعد صورتِ حال بہتر ہوگی اور ہم اپنی معیشت
کو دھارے پر ڈال سکیں گے۔ میڈیا کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ
ان کے واشنگٹن آنے کا مقصد پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے پروگرام کو بحال
کرانا ہے جو کچھ عرصے سے رکا ہوا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پیٹرول پر
سبسڈی ختم کرنے کی شرط پر عمل کیا جائے گا۔معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کی سابق حکومت نے
اقتدار میں آنے کے بعد عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس جانے میں
6ماہ لگائے اور بہت ہی زیادہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اور مذاکرات کے باوجود
ایک خراب اور سخت ڈیل کرسکی۔ تاہم وزیراعظم شہباز شریف کی موجودہ حکومت نے
آئی ایم ایف سے رابطہ کرنے میں صرف 7دن لگائے اور پاکستان کیلئے بہترین ڈیل
کی جس سے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے پاکستان کے لئے سپورٹ
پروگرام پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ معاشی تجزیہ نگاروں کا مزید کہنا تھا
کہ تجربہ کاری اور معاشی امور میں سنجیدگی سے معیشت پر مثبت اثر پڑتا ہے۔
بہرحال ایک بات تو طے شدہ ہے کہ عمران خان حکومت کی بدولت پاکستانی معیشت
کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ پاکستانی تاریخ کے 71 سالوں کا قرضہ ایک طرف جبکہ
عمران خان حکومت کی جانب سے لئے گئے غیر ملکی قرضے ایک طرف۔ عمران حکومت کی
سب سے بڑی ناکامی امریکی ڈالر کو کنٹرول نہ کرنا تھا، اگست 2018 میں عمران
خان کی نومنتخب حکومت کو ڈالر 123 روپے میں ملا جبکہ انکی حکومت کے خاتمہ
کے وقت ڈالر 189 روپے تک پہنچ چکا تھا۔ عمران خان حکومت کا زیادہ تر زور
اپوزیشن قائدین کو پابند سلاسل کرنے ہی میں گزرا۔ ماضی قریب میں جوہوا سو
ہوا۔ یاد رہے پاکستان مسلم لیگ ن نے عمران نیازی حکومت کے خلاف آخری احتجاج
''مہنگائی مکاؤ مارچ'' کے نام سے کیا تھا۔ اب اگر آپ نے (حصول اقتدار کے
لئے) اُڑتے ہوئے تیر کو پکڑ ہی لیا ہے تو مزید مہنگائی کی صورت میں عوام
الناس عمران نیازی دور کو بھول جائے گی اور تمام تر تنقید کا رخ شہباز شریف
حکومت کی طرف ہوگا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومتوں کا یہ خاصہ رہا ہے
کہ انکی جماعت کی زیادہ تر توانیاں ملک میں میگا پراجیکٹس کی طرف صرف ہوتی
رہی ہیں اور ان میگا پراجیکٹس کی بدولت ملکی معیشت پر انتہائی مثبت اثرات
مرتب ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اس وقت صورتحال یکسر مختلف ہے کیونکہ شہباز شریف
کی زیرقیادت حکومت انتہائی مخلوط اور چند ماہ کے لئے عبوری حکومت ہے۔
موجودہ حکومت کو میگا پراجیکٹس کے حصول پر توانیاں صرف کرنے کی بجائے
مہنگائی کی دلدل میں پھنسی ہوئی عوام الناس کو باہر نکالنے کی طرف توجہ
کرنے کی اشد ضرورت ہوگی۔ اور سب سے بڑھ کر امریکی ڈالر کو نتھ ڈالنے کی اشد
ضرورت ہے۔ کیونکہ پاکستان کی تمام تر معاشی سرگرمیاں امریکی ڈالر پر منحصر
ہوتی ہیں۔ عوام الناس کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوگا کہ عمران نیازی
حکومت نے توشہ خانہ سے کتنے تحفے ہڑپ کئے اور عمران نیازی کا بنی گالہ سے
وزیراعظم ہاؤس تک سفر کتنے کڑوروں میں پڑا۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ
عوام الناس کی بنیادی ضروریات زندگی بجلی، گیس، آٹا، گھی، پٹرول وغیرہ سستے
داموں مہیا کیا جائے، اور جس طرح وزیر خزانہ صاحب نے کہا کہ عوام کو کڑوی
گولی کھانی پڑے گی۔ کیوں جناب وزیر خزانہ صاحب! کڑوی گولی ہمیشہ عوام الناس
ہی کیوں کھائے؟ عوام الناس دن رات محنت مزدوری کرے، ہر شے پر ٹیکس بھی ادا
کرے، ہسپتال جائے تو بھی اپنے خرچے پر علاج کروائے۔ انصاف کے حصول کے عدالت
جائے تو اپنے خرچے پر۔ اسکول میں بچوں کر داخل کروائے تو اپنے خرچے پر۔ سڑک
پر سفر کرنے کے لئے نکلے تو پٹرول پر بھاری بھر کم ٹیکس ادا کرے۔ سڑکوں پر
جگہ جگہ ٹال ٹیکس ادا کرے۔ پاکستان میں ایسی کونسی اشیاء ہیں جن پر عوام
الناس پہلے ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ وزیر خزانہ صاحب بس بہت ہوچکا۔ کوئی روٹی
کپڑا اور مکان کے دلفریب نعروں سے کوئی تبدیلی کے نام پر عوام کو بے وقوف
بنا کر رفوچکر ہوگیا۔ وزیر خزانہ صاحب اب کڑوی گولی کھانے کی آپ کی باری
ہے۔ ڈالر کر کنٹرول کریں، حکومتی شہ خرچیوں کو کم کریں، سادگی اپنائیں،
کڑوروں روپے کے حکومتی ٹی اے ڈی اے ختم کریں، کڑوروں اربوں کے حکومتی اللے
تللوں پر خرچ کرنا بند کرنے ہونگے۔ یاد رہے اگر موجودہ حکومت ڈالر کر
کنٹرول کرنے میں ناکام رہی اور تمام تر زور عوام الناس کو نچورنے میں رہا
تو عمران نیازی حکومت کے پونے چار سال کا گند بھی پاکستان مسلم لیگ ن کو
اپنے کندھوں پر اُٹھانا پڑے گا۔ اور آنے والے عام انتخابات میں پاکستان
مسلم لیگ ن کی سیاست منہ کے بل گر پڑے گی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان
مسلم لیگ ن ماہ جون میں ایک بہترین فلاحی سالانہ بجٹ دیکر نئے انتخابات کی
طرف جائے اور بھاری بھر کم مینڈیٹ لیکر دوبارہ اسمبلیوں میں آئے۔
|