عام آدمی پارٹی کی خاص فرقہ پرستی

بھارتیہ جنتا پارٹی کو نہات مکار سیاسی جماعت کے طور پر جانا جاتا ہے اس لیے کہ وہ ہر موقع کا انتخابی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے ۔ گودھرا کی آگ سے لے کر سہراب الدین کے انکاونٹرتک سبھی کے سہارے ووٹ بٹورے جاتے ہیں۔ کوئی چائے والا وزیراعظم کہہ دے یا باپ کون تھا ؟ جیسا سوال کردے اس جملہ سے فائدہ اٹھا کر اپنا سیاسی الو سیدھا کرلیاجاتاہے لیکن اس معاملے میں عام آدمی پارٹی بھی کم نہیں ہے۔ وہ جئے شری رام کا مقابلہ کرنے کے لیے ہنومان چالیسا پڑھنے لگتی ہے۔ دہلی کےبزرگ ہندووں کی مفت ایودھیا یاترا کا اعلان کرکے دوسرے کی آگ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکتی ہے ۔ عآپ غریبوں کے لیے مفت بجلی ، خواتین کی خاطر مفت سفر کی باتیں کرکے رائے دہندگان کو خوش کرتی ہے۔ اچھے اسکول اور محلہ کلینک وغیرہ کی سہولت کو بنیاد بناکر عوام کا اعتماد بحال رکھنے کی کوشش کرتی ہے لیکن فرقہ پرستی کے معاملے میں عآپ بی جے پی کی باپ بن جاتی ہے۔ کشمیر کا معاملہ ہو مرکز نظام الدین کا مسئلہ یہ بی جے پی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہے۔ دہلی کے گزشتہ فساد میں پر اسرار خاموشی اختیار کرلیتی ہے اور اس بار بولتی بھی ہے تو درمیان میں بی جے پی کا لب ولہجہ اختیار کرلیتی ہے کیونکہ دونوں کے اندر ابن الوقت جمہوری دیو استبداد چھپا بیٹھا ہے؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

جہانگیر پوری میں اس بار فساد ہوا تو ابتداء میں عام آدمی پارٹی نے اس کا الزام بی جے پی کے سر ڈال دیا ۔ اس کا دعویٰ تھا کہ سارے غنڈے موالی اس پارٹی میں جمع ہوگئے ہیں اور دہلی حکومت کے پاس پولس دستہ نہیں ہے اس لیے وہ اپنے کارکنان کی مدد سے فساد نہیں رکوا سکتی۔ یہ موقف جزوری طور پر معقول موقف ہے لیکن اگراسدالدین اویسی یا اجئے ماکن کی مانند خود اروند کیجریوال جائے وقوع پر پہنچ جاتے تو عوام کا اعتماد بحال ہوتا اور امن و امان کے قیام میں مدد ملتی ۔ پچھلے فساد میں انہوں نے گاندھی سمادھی پر ستیہ گرہ کا ناٹک کیا تھا لیکن اس بار وہ ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ عام آدمی پارٹی برندا کرات کی طرح منیش سسودیہ کو سپریم کورٹ کے حکمنامہ کی نقل لے کر جہانگیر پوری روانہ کردیتی تو بلڈوزر کے ذریعہ ہونے والی تباہ کاری تھم سکتی تھی لیکن اس کو ہمیشہ اپنے فرقہ پرست رائے دہندگان کی ناراضی کا ڈر ستاتا رہتا ہےاس لیے وہ بیان بازی سے آگے نہیں بڑھتی۔ بدقسمتی سے اس بار وہ بیانات بھی حق گوئی و بیباکی کے بجائے بی جے پی کے ساتھ توتو میں میں بدل گئے ۔
بی جے پی نے محمد انصار نامی فرد پر تشدد کے ماسٹر مائنڈ ہونے کا بے بنیاد الزام لگا دیا جس نے ایک چاقو بردار فسادی کو سمجھا بجھا کر چھوڑ دیا تھا ۔اتفاق سے اس کی ویڈیو کو سب نے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔ عام آدمی پارٹی نے انصار پر لگنے والی تہمت کی تردید کرنے کے بجائے بی جے پی سے اس کا رشتہ جوڑ دیا ۔ عآپ کی رکن اسمبلی آتشی نے ٹوئٹر پر تصویریں شیئر کرکے اپنا الزام ثابت کرنے کی کوشش کی اور دعوی کردیا کہ ’’جہانگیرپوری فسادات کا مرکزی ملزم انصار ایک بی جے پی لیڈر ہےنیز اس(انصار) نے بی جے پی کی امیدوار سنگیتا بجاج کو الیکشن لڑانے میں اہم کردار ادا کیا تھا‘‘ اس الزام کے بعد بی جے پی سے فسادات کروانے کے لیے دہلی والوں سے معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا ۔ اس طرح بی جے پی کو غنڈوں کی پارٹی کہنے کے باوجود تشدد کا الزام جلوس کے بجائے ایک بے قصور مسلمان کے سر منڈھ دیا گیا ۔ اس سے ایک معنیٰ میں بی جے پی کےموقف کی توثیق ہوگئی۔

دہلی بی جے پی کے ترجمان پروین شنکر کپور نے اس کے جواب میں کیجریوال سے انصار کو پارٹی سے نکالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے عآپ رہنماوں کے ساتھ اس کی تصویر شائع کردی۔ کپور نے اپنے خط میں لکھا کہ دہلی والے عام آدمی پارٹی کی قیادت سے جہانگیرپوری فسادات میں نوجوانوں کی شمولیت پر جواب چاہتے ہیں، جو بظاہر عآپ کا ایک کارکن ہے۔شما ل مشرقی دہلی کے بی جے پی رکن پارلیمان منوج تیواری نے انصار اور طاہر حسین کے عآپ سے تعلق کو ظاہر کرکے پوچھا کیا وہ فسادات کی فیکٹری چلا رہی ہے؟ اس طرح فساد کا الزام گھوم کر عآپ پر آگیا ۔ ایوان پارلیمان کے گزشتہ اجلاس میں دہلی کے الگ الگ میونسپل کارپوریشن کو مودی سرکار نے آپس میں ضم کرکے ایک بنادیا ہے اور جلد ہی انتخاب کی توقع ہے اس لیے مسابق سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر الزام تراشی کررہی ہیں۔ یہ سلسلہ دن بہ دن تیز سے تیز تر ہوتا جارہا ہے ۔

انصار کے معاملے میں جب عام آدمی پارٹی کو بھارتیہ جنتا پارٹی پر کوئی خاص سبقت نہیں ملی تو اس پول کھولنے کے لیے دہلی سمیت پورے ملک میں بی جے پی کی غنڈہ گردی اور فسادات پر سروے کرانے کا نیا شوشہ چھوڑدیا ۔اس بابت عآپ کی رہنما آتشی نے تفصیل بتا تے ہوئے کہا کہ لوگوں سے دو سوال پوچھے جائیں گے۔ پہلا کیا بی جے پی نے چاروں طرف غنڈہ گردی اور لفنگائی پھیلا دی ہے؟ دوسرا کیا عام آدمی پارٹی مہذب، پڑھے لکھے اور ایماندار لوگوں کی پارٹی ہے؟ لوگ اس کا جواب ہاں یا ناں میں دیں گے ۔ اس تماشے کا واضح مقصد فساد کو روکنا یا اس کے متاثرین کی مدد کرنا نہیں بلکہ اپنے انتخابی مفادات کا تحفظ ہے۔بی جے پی کا ہر ترجمان دہلی تشدد کے حوالے سے فسادیوں پر گرفت کرنےکے بجائے بی جے پی کارکنوں کےذ ریعہ کیجریوال کی رہائش گاہ پر حملہ کا قصہ چھیڑ دیتا ہے اور منیش سسودیہ کے گھر پر پرانے حملے کی یاد تازہ کرنے لگتا ہے۔موقع ملے تو دہلی جل بورڈ میں بی جے پی صدر پر تشدد، تخریب کاری اور غنڈہ گردی کا الزام لگاتا ہے نیز لکھیم پور کھیری میں آشیش مشرا کے ذریعہ کسانوں کے کچلے جانے کاراگ الاپنے لگتا ہے حالانکہ ان واقعات کا جہانگیر پوری تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ نفسِ مسئلہ سے توجہ ہٹانے کی ترکیب ہے ۔

ان دونوں جماعتوں کے درمیان اس تشدد کے زمانے میں سیاسی نوک جھونک اس قدر آگے بڑھ گئی ہے کہ آتشی نے دعویٰ کردیا پورے ملک کے عوام بھارتیہ جنتا پارٹی کی غنڈہ گردی، تشدد اور لفنگائی سے پریشان ہیں۔اب تو وہ کہنے لگے ہیں کہ اگر کوئی بیرون ملک غنڈہ گردی کرتا ہے تو جیل جاتا ہے، لیکن ہندوستان کے اندر غنڈہ گردی کرنے والا بھارتیہ جنتا پارٹی میں چلا جاتا ہے۔ ایسے مجرموں کو بھارتیہ جنتا پارٹی اعزاز دیتی ہے۔ غیر ممالک میں لڑکیوں سے بدتمیزی ، چھیڑ چھاڑ ، زیادتی اور تشدد کرنے والے کوسخت ترین سزا ملتی ہے لیکن ہندوستان میں سوامی چنمیانند، ساکشی مہاراج اور کلدیپ سنگھ سینگر جیسے لوگوں کو بی جے پی میں بڑا رہنما بنایا جاتاہے۔ آتشی کے مطابق دہلی سمیت ملک کے ہر حصے میں لوگ ایک آواز میں بی جے پی کی غنڈہ گردی سے پریشانی کا اظہار کررہے ہیں ۔ ویسے تو بی جے پی کے متعلق کہی جانے والی یہ ساری باتیں درست ہیں لیکن ان کا جہانگیر پوری کے فساد سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس طرح گویا عام آدمی پارٹی نے فساد کی آگ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کا دھندا شروع کردیا۔

عام آدمی پارٹی پر آج کل اپنے ہندو ووٹرس کو خوش کرنے کا بھوت بری طرح سوار ہے۔ اس کے سبب اس کی رکن اسمبلی آتشی نے ایک ٹویٹ کرکے مرکزی حکومت پر الزام لگایا کہ اس نےدہلی کے اندر ایک مندر تو ڑنے کے احکامات جاری کیے ہیں ۔ اس کے ثبوت میں آتشی نے ایک سرکاری حکمنامہ بھی منسلک کردیا ۔ اس خط کے مطابق دہلی کے شری نواس پوری علاقہ میں بنے نیل کنٹھ مندر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی تعمیر بلا اجازت کی گئی ہے۔ اس لیے سرکاری زمین پر بنے اس مندر کو ہٹانے کی خاطر سات دن کی مہلت دی گئی ہے۔ اس خط میں انتباہ بھی ہے کہ اگر اس دوران اسے ہٹایا نہیں گیا تو ڈھا دیا جائے گا یعنی بلااجازت مندر پر بلڈوزر چل جائے گا ۔ معاملہ صرف ٹویٹ بازی تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے بعد شہری معاملات کی وزارت کے سامنے مظاہرے شروع ہوگئے جس میں آتشی کے علاوہ مدن لال نے بھی شرکت کی ۔ اس طرح گویا عام آدمی پارٹی نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ۔ اول تو اس نے بی جے پی کو ہندو وں کا دشمن ثابت کیا اور خود ان کے سب سے بڑے محافظ کے طور پر پیش کردیا۔ ایسا لگتا ہے کہ عام آدمی پارٹی نے مسلمانوں کے ووٹ کو اپنی میراث سمجھ لیا۔ اس لیے اس بار مسلمانوں کو چاہیے کہ میونسپلٹی میں بی جے پی کے قبضے کا خوف اپنے دل سے نکال کر عام آدمی پارٹی کے علاوہ متبادل مضبوط امیدواروں کو کامیاب اسے اپنی غلطی کا احساس دلائیں اور راہِ راست پر لائیں ۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450851 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.