اسد مجید صاحب عمران خان حکومت میں امریکا میں پاکستان کے
وزیر خارجہ تھے جسے اب شہباز شریف حکومت نے بلیجیم حکومت میں پاکستان کا
وزیر خارجہ تعینات کیا ہے۔اسد مجید ایک حب الوطن شخصیت اور اپنے عہدہ کا
پاس رکھنے والا ایک نڈر اور محب وطن پاکستانی سفارت کار ہے۔ حسین حقانی جو
پیپلز پارٹی کے دور میں امریکا میں پاکستان کے وزیر خارجہ تھے۔ وہ اپنے ملک
کے خلاف سازشی کردار اداکرتے رہے اور کر رہے ہیں۔یہ ملک کے غدار ہیں۔ میمو
گیٹ پر ان پر پاکستان میں مقدمہ درج ہے۔ عدالت نے اسے بھگوڑا قرار دیا ہوا
ہے۔
اسد مجیدکو امریکا نے د ھمکی آمیز خط حوالے کیا۔ جس میں لکھا ہے کہ عمران
خان کو عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے بے دخل کر دیا جائے۔ ورنہ پاکستان کے
لیے مشکلات ہوں گی ۔اگر عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے بے دخل
کر دیا جائے تو امریکا پاکستان کو معاف کر دے گا۔اس خط میں عمران خان کے
مطابق کئی دفعہ عدم اعتماد کا ذکر ہے۔عمران خان نے کہا کہ یہ خط میں نے
آرمی چیف سے شیئر کیا۔ عمران خان نے قومی سلامتی کمیٹی میں دھمکی آمیز خط
کو رکھا۔ کمیٹی نے کہا کہ سازش تو نہیں، مداخلت ضرور ہوئی ہے۔یہ بات فوج
سپوک پرسن نے اپنی پریس کانفرنس میں کہی۔ اب نئے وزیر اعظم شہباز شریف جن
پر منی لنڈرنگ کے مقدمے چل رہے ہیں کی زیر صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کی
ایک اور میٹنگ بلائی گئی۔جس میں ذرائع کے مطابق اسد مجید پر دباؤ ڈال کر
بیان بدلنے کا کہا گیا۔مگریہ بہادر اور محب وطن سفارت کار نے اپنے پہلے
بیان پر سختی سے ڈٹے رہا۔ اسد مجید نے ساری صورت حال کمیٹی میں رکھی اور
کہا کہ امریکا نے میرے حوالے یہ خط کیا تھا جو میں نے وزارت خارجہ کو ارسال
کر دیا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے دوسری بار بھی اپنے پرانے موقف کہ سازش نہیں،
مداخلت ہوئی ہے کو برقرار رکھا۔جبکہ فیک نیوز کی ماہر مریم صفدر، مریم ارنگ
زیب اور موجودہ حکومت کے ذمہ دار کہتے رہے یہ خط ہے ہی نہیں۔ وزارت خارجہ
میں یہ خط خودبنایا گیا وغیرہ۔ ایسے کیسے ممکن ہے یہ خط امریکا سے وزارت
خارجہ کو آیا اور ریکارڈ میں موجود ہے۔ہاں کہیں ایسا نہ ہو اس خط کو غائب
کر دیا جائے۔ جیسے الیکٹرونک میڈیا میں خبر لگی ہے کہ نواز شریف پر مقدمے
کے ریکارڈ کو چوری کرتے ہوئے نیب کے ایک ملازم کو گارڈ نے پکڑ لیا اور
ریکارڈ چوری نہیں کرنے دیا۔ اس بہادری پر نیب کے سربراہ نے اسے دس ہزار
انعام بھی دیا۔
فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ اس مداخت کابغور جائزہ لیا جا رہا ہے ۔سیکورٹی
ایجنسیاں ملک کے خلاف کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ یہ بات تو
صحیح ہے ملک کے سیکورٹی اداروں کا یہ کام ہے جو وہ کر رہے ہیں لیکن یہ
مطالبہ بھی درست ہے کہ اس کے لیے سپریم کورٹ کا یوڈیشنل کمیشن بنا کر اس کی
تحقیق کر کے پانی کا پانی اور دودھ کا دودھ کر دینا چاہیے۔ جیسے سپریم کورٹ
نے میمو گیٹ پر کیا تھا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ عمران خان پورے ملک میں
عوام کے پاس یہ بیانیہ لے کر جارہا ہے۔ اگر سپریم کورٹ اور اسٹبلشمنٹ نے اس
کو اپنے ہاتھ میں نہ لیا تو ملک میں خانہ جنگی ہونے کا خدشہ ہے۔ نواز لیگ
نے ملک میں جلسے جلوس کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔لاہور میں ورکر زاجلاس بلا
کر ملک میں جلسے جلوس کرنے کی کال بھی دے دی ہے۔ان حالات کو سپریم کورٹ اور
اسٹبلشمنٹ ہی کنٹرول کر سکتی ہے۔
عمران خان نے اسلام آباد میں ایک بڑے جلسے میں اس خط کو عوام کے سامنے میں
لہرا کر کہا کہ لندن میں نواز شریف،پاکستان میں شہباز شریف اورزرداری اس
سازش میں شریک ہیں۔ عمران خان نے یہ خط پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر کو دیاجو
پارلیمنٹ کے یکارڈ کا حصہ بن گیا۔اس خط کے مندرجات صحافیوں سے بھی شیئر
کیے۔عمران خان نے کہا کہ جب میں اپنے عوام کے لیے روس سے سستے داموں گیس
اور گندم خریدنے کی غرض سے گیا تو مجھے امریکا کی طرف سے کہا گیا کہ امریکا
کیوں گئے۔فیک نیوز چلائی گئی کہ میں اپنی مرضی سے روس گیا ۔جبکہ میں نے روس
جانے سے پہلے آرمی چیف سے ڈسکس کیا تھا۔ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اس
خط کو وزیر قانو ن فواد چوھدری نے پارلیمنٹ میں پڑھ کر سنایا ۔ڈپٹی اسپیکر
نے اس دھمکی آمیزخط کو سامنے رکھتے ہوئے، عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے
سیشن کو منسوخ کر دیا۔ بحرحال خط میں سازش تھی یا مداخلت تھی۔ عدم اعتماد
تو آئین کے مطابق تھی ۔اس لیے آئین کی محافظ معزز سپریم کورٹ نے از خود
نوٹس لے کر پارلیمنٹ کے سیشن کو بحال کروا کر عدم اعتماد کی کاروائی کو
مکمل کرنے کا حکم جاری کیا۔عمران خان حکومت سے آئینی طریقے سے بے دخل کر
دیے گئے۔
عمران خان نے نواز شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فوج اور عدلیہ کوتنقید کا
نشانہ بنانا شروع کیا۔ جو نواز شریف نے تاریخی غلطی کی تھی اب اگر عمران
خان ایسا کر رہا تو یہ بھی غلطی ہے۔ہاں عمران خان کا عوام میں جانا اور نئے
انتخابات کا مطالبہ آئین کے مطابق ہے۔ عمران خان نے حلقوں کو اشارہ کرتے
ہوئے کہا کہ غلطی ٹھیک کرنے کا واحد راستہ فوری انتخابات ہیں۔ یہ ان کا
آئینی حق ہے۔ اﷲ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان، جو مثل مدینہ ریاست ہے،
دشمنوں کی نظر بد سے بچائے ۔ سیاست دانوں
کرپشن کے مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے ۔ آیندہ کرپشن سے توبہ کریں ۔ مایا
ناز فوج اور معززاور عدلیہ کا احترام کریں۔ ملک میں اسلامی نظام رائج کرنے
کا جو وعدہ قائد اعظمؒ نے تحریک پاکستان کے دوران کیا اسے پورا کریں۔ سود
کو شریعت کورٹ نے ختم کیا ۔ اس پر فوری عمل کریں۔
مگر اس سارے معاملے میں ہماری وازرت خارجہ کے دو کرادر سامنے آتے ہیں۔ ایک
سابق وزیر خارجہ حسین حقانی ہے جو ملک سے غداری کا مرتکب ہوا ہے۔ دوسرا
کردار اسد مجید صاحب کا ہے جو ملک کے خیر خواہ، نڈر اور محب وطن وزیر خارجہ
ہے۔ فرق صاف ظاہر ہے۔
|