اکھنڈ بھارت کی کوکھ میں خالصتان زندہ باد کا نعرہ

وطن عزیز میں فی الحال ہر سیاسی جماعت اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ ہندوتوا نواز ثابت کرنےکی مسابقت میں مصروف عمل ہے۔ سبھی لوگ چونکہ ایک ہی کام کرنا چاہتے ہیں اس لیے نت نئے طریقہ سے اسے کرنا پڑتا تاکہ عوام کی توجہ مبذول ہوسکے ۔ اس تنوع پسندی کے چکر میں پنجاب کے رپٹیالہ میں شیوسینا نے ’خالصتان مردہ باد‘ کے عنوان سے ایک جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا اور اس کی باقائدہ اجازت بھی حاصل کرلی یعنی یہ کوئی جہانگیر پوری کی مانند بلا اجازت نکالی جانے والی ریلی نہیں تھی۔ قصہ مختصر یہ کہ کالعدم سکھس فار جسٹس کے سربراہ گرپتونت سنگھ پنو نے 29؍ اپریل کو خالصتان کے یوم تاسیس کےطور پر منانے کا اعلان کیا۔ اس کو اگر نظر انداز کردیا جاتا تو کسی کو اس کا پتہ بھی نہیں چلتا مگر شیو سینا کے کارگزار صدرہریش سنگلا نے آریہ سماج چوک سے کالی دیوی مندر تک خالصتان مردہ آباد مارچ کا اعلان کردیا ۔

ہریش سنگلا کا کہنا ہے کہ ، ’’شیو سینا پنجاب یا ہندوستان میں کہیں بھی خالصتان بننے کی اجازت نہیں دے گی‘‘ حالانکہ اس کام کو کرنے کے لیے شیوسینا کو زحمت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ حکومت اور فوج اس پر مامور ہے لیکن اپنی سیاست چمکانے کے لیے سیاسی جماعتوں نے عوام کی خدمت کرنے کے بجائے اس طرح کے ہنگاموں کا ’شارٹ کٹ‘ ڈھونڈ رکھا ہے۔ منتظمین کو شاید یہ توقع رہی ہوگی کہ اس میں ہندو عوام کے ساتھ سکھ نوجوان بھی اپنی وفاداری دکھانے کی خاطر شامل ہوجائیں گے یا کم ازکم ان کی راہوں پر پھول برسائیں گے۔ اس کے برعکس کون سوچ سکتا تھا کہ اس کے خلاف سکھ نوجوانوں کا جمِ غفیر ننگی تلواریں لے کر ’خالصتان زندہ باد‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے میدان میں نکل آئے گا ؟ اور مردہ باد کا نعرہ لگانے والوں کو دوڑا لے گا ۔

پٹیلالہ میں کالی ماتا مندر کے باہر جب شیو سینا کے ارکان اور خالصتان حامیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں تو تصادم کو روکنے کی خاطر پولیس کو ہوائی فائرنگ کرنا پڑی اور بڑی مشکل سے حالات کو قابو میں آئے۔ اس معاملے میں پنجاب پولیس کا رویہ نہایت دلچسپ تھا ۔ اس نے پہلے تو پولیس کی بھاری نفری تعینات کرکے شہر میں کرفیو نافذ کردیا اور پھر ہریش سنگلا کو گرفتار بھی کر لیا۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر ہریش سنگلا کا قصور کیا ہے؟مودی جی کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے چار ماہ بعد 2؍ اکتوبر 2019 کو موہن بھاگوت جی نے دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستان ایک ہندو راشٹر ہی ہے۔ انہوں نے بڑے طمطراق سے کہا تھا کہ ہم سب کچھ بدل سکتے ہیں۔سبھی نظریات بدل سکتے ہیں لیکن یہ چیز نہیں بدلی جاسکتی کہ ہندوستان ایک ہندو راشٹر ہے۔ اس اعلان کے ڈھائی سال بعد کیا اس ہندو راشٹر میں کھلے بندوں ’خالصتان زندہ باد‘ کے نعرے لگ سکتے ہیں ؟ کاش کہ یہ مناظر ٹیلی ویژن کی زینت نہ بنتے تو سنگھ پریوارکچھ دن اور خواب غفلت میں مبتلا رہتا۔

پنجاب میں کانگریسی حکومت کے دوران اگر یہ واقعہ رونما ہوجاتا تو اس باغیانہ نعرے بازی کا الزام اس کے سر منڈھ دیا جاتا ۔ یہ اعلان ہوتا کہ اگر زمامِ کار کمل کے ہاتھوں میں ہوتی تو اسے سختی سے کچل دیا جاتا لیکن جب وزیر اعظم پنجاب سے جان بچا کر لوٹنے کو عافیت سمجھتے ہوں تو ان کی جماعت یہ دعویٰ کس منہ سے کرسکتی ہے؟ اس تصادم پر بی جے پی رہنما ہرجیت سنگھ گریوال کا موقف یہ ہے کہ دونوں فریقوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ شیوسینا کے سنگلا کے خلاف کیوں کارروائی کی جائے ۔ کیا اس لیے کہ وہ بی جے پی کے سیاسی حریف ہیں یا کمزور ہیں ؟ کیا ہندو راشٹر کے کسی حصے میں اگر کوئی ہندو جماعت ملک کی سالمیت کے لیے جلوس نکالے تو اس پر کارروائی کی جائے گی؟ پنجاب میں ہریش سنگلا کے ساتھ وہی ہورہا ہے جودیگر مقامات پر مسلمانوں کے ساتھ ہوتا کیونکہ پنجاب میں ہندو اقلیت میں ہیں ۔ موجودہ نظام ِ سیاست میں اقلیت کو ظلم و جور کا شکار ہونا ہی پڑتا ہے۔

شیوسینا رہنما ہریش سنگلا فی الحال جیل کی چکی پیس رہے ہیں۔ پہلے لوگ جیل جاتے تھے تو کتابیں پڑھتے تھے لیکن آج کل موبائل مل جائے تو ویڈیوز دیکھتے ہیں ۔ ایسے میں اگر انہیں ہندوتوا کے نئے سورما کپل مشرا کی کھرگون والی تقریر مل جائے تو اس بیچارے پر کیا گزرے گی؟ کپل مشرا نے وہاں کہاں تھا جس گھر سے افضل نکلے گا اس گھر میں گھس کر ماریں گے ۔اس کے بعد وہاں موجود مشتعل ہجوم اچھل اچھل کر وہ نعرہ دوہراتا تھا ۔ ہریش سوچ رہا ہوگا دہلی سے کھرگون کافی فاصلے پر ہے لیکن پٹیالہ نسبتاً قریب ہے۔ اس لیے کاش وہ یہاں آکر نعرہ لگائے ’جس گھر سے پنوّ نکلے گا اس گھر میں گھس کر ماریں گے ‘ لیکن پٹیالہ تو دور دہلی کے اندر بھی مشراجی میں یہ نعرہ لگانے کی ہمت نہیں ہے۔ انوراگ ٹھاکر تو مرکزی وزیر ہیں ۔ ان کو زیڈ پلس سیکیورٹی حاصل ہے وہی پٹیالہ آکر ’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو‘ کا نعرہ لگادیں لیکن سنگلا کی یہ خواہش بھی کبھی پوری نہیں ہوگی ۔ سنگلا کو اگر یوگی جی کی ویڈیو مل جائے تو وہ چاہیں گے کہ وہی آکر نہنگوں کی گرمی نکال دیں اور پٹیالہ کو شملہ بنادیں لیکن ہندوتوا نواز بزدل ایسی جرأت نہیں کرسکتے ۔

ہریش سنگلا کو سب سے زیادہ صدمہ خود اس کی شیوسینا نے دیا ۔ پنجاب میں فی الحال 15 عدد شیوسینا ہے مثلاً شیوسینا ( بال ٹھاکرے) ، شیوسینا سماجوادی ، شیوسینا راشٹر وادی اور شیوسینا اکھنڈ بھارت وغیرہ ۔ ہریش بیچارہ ا پنے آپ کو شیوسینا (بال ٹھاکرے ) کا کارگزار صدر کہتا ہے لیکن ممبئی کے اندر شیوسینا رہنماوں نے ایک بیان جاری کرکے اس کو ہمنواوں سمیت معطل کردیا ہے۔ اس مشکل کی گھڑی میں اسے اپنی پارٹی سے یہ توقع نہیں رہی ہوگی ۔ شیوسینا کی پنجاب اکائی کے صدر یوگراج شرما نے پارٹی رہنما ادھو ٹھاکرے کے ایماء پرپارٹی مخالف سرگرمیوں کے سبب سنگلا کو نکال باہر کرنے کی توثیق کی ہے اور پٹیالہ کے ایس ایس پی کو بھی آگاہ کردیا ہے۔ سنجئے راوت تو شیوسینا سے تعلق کا انکار کرتے ہیں لیکن اگر یہ سچ ہے تو اسے توڑا کیوں گیا؟ سوال یہ ہے بھی ہے کہ ہریش نے یہ اعلان دو ہفتہ قبل کیا تھا ۔ اس دوران اسے روکا یا پارٹی سےکیوں نہیں نکالا گیا ۔ کیا اس طرح اپنے لوگوں کے پیٹھ میں چھر ا گھونپ کر ہاتھ جھٹک لینا بھی ہندتوا کی پر مپرا ہے؟

بی جے پی کے حلیف سابق وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ خود پٹیالہ کے رہنے والے ہیں انہوں نے اس سنگین مسئلہ پر کڑا رخ اختیار کرنے کے بجائے نہایت پھسپھسے انداز میں کہا کہ ، وہ پٹیالہ میں دو گروہوں کے درمیان تصادم کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال پر فکر مند ہیں۔ پٹیالہ کے لوگ امن پسند ہیں ۔ انہوں سے مشتعل نہ ہونے کی اپیل کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ پنجاب پولیس سخت کارروائی کرکے امن و امان کو یقینی بنائے گی۔ اس تصادم پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کانگریس کےراہل گاندھی نے نہایت محتاط انداز رخ اختیار کیا کیونکہ بی جے پی کا آئی ٹی سیل ان کے بیانات کو توڑ مروڈ کر کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے اورپھر گودی میڈیا بات کا بتنگڑ بنادیتا ہے۔ انہوں نے عام آدمی پارٹی کی تازہ دم حکومت کو یہ مخلصانہ مشورہ دیا کہ ایک حساس سرحدی ریاست میں امن اور ہم آہنگی سب سے اہم ہے۔ پنجاب تجربہ کرنے کی جگہ نہیں ہے۔

عام آدمی پارٹی ویسے تو عرصۂ دراز سے دہلی میں برسرِ اقتدار ہے مگر امن و امان کی صورتحال کو سنبھالنے کے معاملہ میں ناتجربہ کار ہے۔ دہلی میں یہ کام چونکہ مرکزی حکومت کے سپرد ہےاس لیے ا س کو یہ موقع نہیں ملا ۔ پہلی مرتبہ عآپ کو پولیس کی طاقت ملی تو اس نے بھی بی جے پی کی مانند اپنے مخالفین کمار وشواس اور الکا لامبا سے انتقام لینے کی خاطر اس کا استعمال کرنا شروع کردیا ۔ نئے وزیر اعلی بھگونت مان کے لیے یہ پہلا امتحان ہے۔ مان نے ان جھڑپوں کو انتہائی قابل مذمت اور افسوسناک قرار دیا۔ انہوں نے سخت الفاظ میں عوام سے روایتی محبت، امن، بھائی چارے اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے ساتھ ہر قیمت پر امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کی۔وزیر اعلیٰ نے بحران کے وقت میں تحمل سے کام لیتے ہوئے انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کرنے پر زور دیا اور کسی کو ریاست میں امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بگاڑنے کی اجازت نہیں دینے کے عزم کا اظہار کیا ۔

’خالصتان زندہ باد‘ جیسے نعروں کی مذمت کرنے کا حوصلہ ان سارے رہنماوں کے بیان میں ندارد ہے۔ ملک کا وزیر داخلہ جو جہانگیر پوری کے شرپسندوں کو عبرتناک سزا دینے کا اعلان کرتا ہے اس سنگین معاملہ میں خاموش ہے۔ سکھوں کو مسلمانوں سے لڑانے کی کوشش کرنے والے وزیر اعظم نے مون دھارن (چپیّ سادھ لی ) کررکھا ہے ۔ اس واقعہ نے گرو تیغ بہادر کے 400 ویں پرکاش پرب (یوم پیدائش) پر لال قلعہ سے کیے جانے والے دعووں کی پول کھول دی ہے۔ سرکاری تقریبات میں لمبا چوڑا خطاب کرنا اور زمینی حقائق سے نبرد آزما ہونا بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ دنیا کے اندر ہر تصادم کسی نہ کسی تصویر سے پہچانا جاتا ہے مثلاًگجرات فساد کے بعد ہاتھ جوڑے خوفزدہ مسلم نوجوان کی تصویر یا دہلی فساد کے بعد پستول تانے شاہ رخ خان کی فوٹو لیکن پنجاب کے تصادم کی جو تصویر سب سے زیادہ مقبول ہوئی اس میں ایک پولس اہلکار دوڑ رہا ہے۔ وہ اپنے سامنے سے نظر نہ آنے والوں کو روک رہا ہے لیکن اس کے پیچھے کئی لوگ تلواریں اور لاٹھی لے کر دوڑ رہے ہیں۔ یہ ایک تصویر پوری کہانی بیان کردیتی ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450172 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.