پاکستان میں موروثی سیاست کا عنصر ہمیشہ سے غالب رہا اور
وقت گزرنے کے ساتھ یہ رجحان بڑھا ہے۔
اس کی تازہ مثال باپ اور بیٹے کا وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بننا ہے۔ شہباز
شریف وزیر اعظم پاکستان جبکہ ان کے بیٹے حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب بنے
ہیں۔۔
پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں آج بھی موروثی سیاست کی جڑیں مضبوط
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی خاندان کے افراد نا صرف ارکان
اسمبلی منتخب ہوئے بلکہ آئینی عہدوں پر بھی رہے۔
پاکستان میں باپ بیٹا، بیٹی، بہن، بھائی، شوہر، بیوی، داماد، بہو اور بھاوج
تک سیاسی خاندان کا حصہ ہونے کی وجہ سے اسمبلیوں کے رکن بنے۔چلو یہ سلسلہ
تو چلتا رہتا ہے،لیکن ملکی حالات غیر مستحکم ہوں تو صورت حال کو دیکھنا
پڑتا ہے اقتدار کی کشمکش ہو کہ جمہوریت کی آئینی آزادی کی بات ہو،ملک و ملت
سے سب ہے اور ہم سب ہیں۔آزادی جو قائد اعظم کی جدوجہد سے ملی اس کو قائیم
رکھنا اس کو استحکام بخشنا ہم سب کی ذمہ داری ہے سیاست کو اپنے مقصد کے لئے
استعمال کرنا کہاں کی ملکی مخبت ہے یہ مخبت اقتدار کی مخبت ہے؟ ابھی بھی
وقت ہے کہ سیاسی اختلاف بھلا کر میثاقِ معیشت پر کام کیا جائے۔ ملک کی تمام
مقتدر قوتیں سب سے پہلے ملکی معاشی استحکام کے بارے میں مضبوط لائحہ عمل طے
کریں۔ ملک کو دیوالیہ کرنے سے بہتر ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کا بوجھ عوام کو
منتقل کریں۔
سیاسی نقصان اٹھانے سے اگر ملک بچ سکتا ہے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔
اگر بروقت درست فیصلے نہ کیے گئے تو یہ عین ممکن ہے کہ پاکستان سری لنکا کی
طرح ڈیفالٹ کر جائے، حکومت پاکستان سرکاری سطح پر ملک کے دیوالیہ ہونے کا
اعلان کردے اور پاکستانی عوام سری لنکن عوام کی طرح حکمرانوں کے گھروں پر
حملہ آور ہو جائیں۔ جب ملک چلانے کا انحصار تجارت کی بجائے امداد اور قرضوں
پر ہو تو قریبی دوست ممالک بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے
چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان ان دنوں مختلف شہروں میں عوامی رابطہ
مہم چلا رہے ہیں انہوں نے کہا: ’میں اپنی قوم کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں
کسی ملک کے خلاف نہیں ہوں، نہ میں بھارت مخالف ہوں، نہ یورپین مخالف اور نہ
ہی امریکہ مخالف۔‘
سابق وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ ان کی جان سے زیادہ پاکستان کو خطرہ ہے۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’میں کسی اور ملک کے لیے اپنی قوم کو قربان نہیں
کرسکتا۔‘
انہوں نے جلسے کے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’ہمارے سامنے دو راستے ہیں،
ایک لا الہ الا للہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کے سامنے سجدہ نہیں کرتے کیونکہ
یہ شرک ہے، ہم امریکہ سے دوستی کرلیں گے لیکن ان کے سامنے غلامی نہیں کریں
گے۔ دوسرا یہ ہے کہ آپ نیوٹرل نہیں ہوسکتے۔‘
عمران خان نے کہا کہ ’ہماری تحریک پر امن ہے لیکن میں خبردار کرتا ہوں کہ
ایسا کچھ نہ کرنا کہ ہماری تحریک تبدیل ہو،‘ انہوں نے آخر میں کہا کہ ہم
الیکشن چاہتے ہیں اور ساری قوم الیکشن کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے قوم کو
مخاطب کرکے کہا: ’آپ نے ان ضمیر فروشوں کو سبق سکھانا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ
’ہم تحریک انصاف کے لوگ لسانیت، فرقہ واریت کو دفن کرنے اور انسانیت کو
فروغ دینے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔
کیا پاکستان کا کپتان عمران خان ہے’پاکستان کی سالمیت، نظریے اور پاکستان
کی قوم کے لیے جو شخص کبھی نہیں جھکے گاکیا اس کا نام عمران خان ہے؟جو بھی
ہے جو سچا پاکستانی خدا کی رسی کو مضبوتی سے تھامے رکھنا کون ایسا کرتا ہے
وقت دکھائے گا بات تعریف اور تنقید کی نہیں ملکی نسالمیت کی ہے جو اس کا
پاس رکھے گا وہی درحقیقت صیحح مومن اور سچا پاکستانی ہو گا۔عمران خان کا
ایک موقف ہے جس پہ وہ جدوجہد میں ہیں کہ ہم صرف ایک چیز چاہتے ہیں،الیکشن
کراؤ۔ملک کی آزادی بچاؤ۔
|