ہم ٹک ٹاکر حضرات اپنی ویڈیو وائرل کرنے کے لیے کوئی بھی
ایسا کام کرنے سے باز نہیں آتے جس سے نہ صرف قومی املاک کو نقصان پہنچتا ہے
بلکہ ہماری جان کو خطرہ ہو سکتا ہے تعلیم اور شعور کی کمی کی وجہ سے ہم
لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں ہمارے جتنے بھی ٹک ٹاکر ہیں آپ انکی عجیب و غریب
حرکتیں دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے گذشتہ روز ایبٹ آباد میں ایک نوجوان نے
ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کی خاطر جنگل کو ہی آگ لگا دی یہ نوجوان قیمتی درخت کو
آگ لگا کر ویڈیو بناتا رہا جسے بعد میں محکمہ جنگلات و وائلڈ لائف گرفتار
کرلیا آپ لوگوں کو مینار پاکستان والا واقعہ تو یاد ہو گا جس میں ایک نرس
عائشہ نے اپنی ویڈیو وائرل کرنے کی خاطر کیا حرکتیں شروع کی اور پھر عوام
نے اسکا کیا حشر کردیا تھا بہت سے لوگ شہرت اور ویڈیو وائرل کرنے کی خاطر
اوچھی حرکتوں پر بھی اتر آتے ہیں چلتی ٹرین کے سامنے ویڈیو بناتے ہوئے بہت
سے نوجوان اپنی جان سے بھی چلے گئے ایبٹ آباد کا ذکر خاص طور پر میں نے اس
لیے کیا ہے کہ عید کے دوسرے روز میں اپنے ایک دوست شفقت حسین کے ہمراہ ایبٹ
آباد اور ٹھنڈیانی سیر تفریح کے لیے چلا گیا وہاں جاکرشدید افسوس اور حیرت
ہوئی کہ اتنا خوبصورت سیاحتی مقام اور لاوارث پڑا ہوا ہے موٹر وے کے راستے
رات کو ایبٹ آباد داخل ہونے والے روشنیوں میں جگ مگ کرتے ہوئے اس شہر کے
مسحور کن سحر انگیز منظر کو مدتوں یاد رکھتے ہونگے فیصل آباد کے رہائشی
صابر علی کے گھر ایک رات گذانے کے بعد اگلے دن یعنی عید کے تیسرے روز ایبٹ
آباد کی طرح خوبصورت اور دلکش جملوں کے شاعر اور الفاظ کو موتیوں کی طرح
ایک لڑی میں پرونے والے بے مثال شاعر جناب احمد حسین مجاہد کے ہمراہ ہم
تھنڈیانی کے لیے روانہ ہوگئے ٹھنڈیانی (لفظی معنی بہت ٹھنڈا ) پاکستان کے
صوبہ خیبر پختونخواہ کے گلیات علاقے میں ایک پہاڑی مقام ہے ٹھنڈیانی ضلع
ایبٹ آباد کے شمال مشرق میں واقع ہے جو ہمالیہ کے دامن میں تقریباً 37.5
کلومیٹر (23.3 میل) کے فاصلے پر ہے یہی سے گذرتے ہوئے دریائے کنہار سے آگے
مشرق میں کشمیر کا برف سے ڈھکا پیر پنجال کا پہاڑی سلسلہ بھی واقع ہے یہاں
سے شمال اور شمال مشرق میں کوہستان اور کاغان کے پہاڑ نظر آتے ہیں شمال
مغرب میں سوات اور چترال کے برفانی سلسلے ہیں ٹھنڈیانی کی پہاڑیاں سطح
سمندر سے تقریباً 2,750 میٹر (9,020 فٹ) بلند ہیں یہاں رہنے والے زیادہ تر
لوگ کرلال/قریشی، سید، اعوان، عباسی اور گجر قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔
تھانڈیانی کو اصل میں برطانوی ہندوستان میں بٹے خاندان کے کچھ افراد کو لیز
کے طور پر دیا گیا تھا جو عیسائی مشنری تھے جنہوں نے سول اور ملٹری سروس
میں بھی اپنی خدمات سرانجام دی تھیں اور انہوں نے وگرام بٹے اور کوئنٹن بٹے
جیسی نسلوں کو پیدا کیا بعدازاں بٹیز نے یہ جگہ چرچ کے حکام کو تحفے میں دے
دی جہاں برطانوی دور حکومت میں ایک سینیٹوریم اور دیگر متعدد سہولیات قائم
کی گئیں زیادہ تر مشنریوں ، اینگلیکن چرچ کے اہلکاروں اور ایبٹ آباد کی
پڑوسی چھاؤنی میں تعینات افسران کی سہولت کے لیے اس میں کچھ پرائیویٹ یورپی
مکانات، کیمپنگ گراؤنڈ ایک چھوٹا سا بازار اور وائلڈرنیس میں سینٹ زیویئر
کا چھوٹا سیزنل چرچ بھی تعمیر کیا گیا جہاں صرف گرمیوں کے مہینوں میں ہی
لوگ آیا کرتے تھے ٹھنڈیانی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں گرمیوں کے مہینوں میں
بہترین موسم اور سرسبز و شاداب درخت جو سردیوں میں برف سے ڈھکے ہوئے نظارے
پیش کرتے ہیں جبکہ یہاں کی پہاڑیاں بھی سردیوں میں برف کی سفید چادر اوڑھے
سیاحوں کی منتظر ہوتیں ہیں پورے پاکستان سے بہت سے سیاح خاص طور پر گرمیوں
کے موسم میں یہاں آتے ہیں اونچائی پر ہونے کی وجہ سے پرکشش مناظر، جنگلات
اور پگڈنڈیوں پر پیدل سفر کے راستے سیاحوں کے لیے خوبصورت وحسین اور پرکشش
نظارے پیش کرتے ہیں سیالکوٹ، چمیالی، کوٹلہ، بسالی اور پتن کلاں یہاں کے
خوبصورت گاؤں ہیں ٹھنڈیانی کی پہاڑیوں کے دامن میں سیالکوٹ گاؤں کا خوبصورت
منظر بھی نظر آتا ہے جبکہ ٹھنڈیانی لیس یہاں کا قریب ترین گاؤں ہے ٹھنڈیانی
اور اسکے آس پاس کے پہاڑ علاقے کے دیگر پہاڑی مقامات کے مقابلے میں کافی
گھنے جنگلات سے گھرے ہوئے ہیں جنہیں وقت کے ساتھ ساتھ جنگلات کی کٹائی کا
سامنا کرنا پڑرہا ہے یہاں کے مقامی جنگلی حیات میں چیتے، بندر ،کئی قسم کے
تیتر اور تیزی سے نایاب اڑنے والی گلہری اور پائن مارٹن پائے جاتے ہیں اس
علاقے اور اس کے آس پاس کے دیہات کو 2005 کے کشمیر میں آنے والے زلزلے سے
بہت سا نقصان پہنچا تھا مگر اب یہ سیاحوں کے لیے بہت دلکش نظارے والی جگہ
بن چکی ہے یہ جگہ جتنی خوبصورت اور دلکش ہے تو یہاں پر جانے کے لیے سڑک
اتنی ہی خراب ہے اس ٹوٹی پھوٹی اور تنگ سڑک کی وجہ سے آئے روز حادثات بھی
ہوتے رہتے ہیں ہم لوگ جب ٹھنڈیانی سے واپس ایبٹ آباد آرہے تھے تھے ہم سے
آگے جانے والی ایک کار پھسل کر سڑک سے نیچے تقریبا ڈھائی تین سو فٹ گہری
کھائی میں جاگری جس میں لاہور سے آئے ہوئے تین نوجوان موقعہ پر ہی جاں بحق
ہوگئے اور دو افراد شدید زخمی ہوئے ایسے خوبصورت سیاحتی مقام پر خطرناک اور
خونی سڑک پر توجہ نہ دینا مقامی اور کے پی کے حکومت کی سیاحت سے دشمنی کو
ظاہر کرتی ہے یہاں بھی موٹروے طرز پر سڑک بنائے جائے تاکہ سیاحت کے شوقین
افراد کی جان و مال کو تحفظ حاصل رہے ۔
|