چار دن استنبول میں


استنبول چلتے ہیں۔۔ ذیشان ملک ،احتشام الحق قریشی، چودھری قیوم اور محمد عارف کی مشترکہ رائے سے اتفاق کرتے ہوئے فورا کہہ دیا کیوں نہیں ؟ ضرورچلنا چاہیے۔ اپنے کاموں اور دیگر مصروفیات سے وقت نکالنا آسان نہیں ہوتا۔ شادی شدہ اور دیہاڑی دار مزدوروں کی الگ شان ہوتی ہے ۔بہرحال حساب کتاب کے بعد بادشاہوں، عظیم فاتحین اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ خصوصا میزبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے شہر کی زیارت کے لئے چار دن کا پروگرام بنا۔ جانے سے پہلے خیال تھا کہ چار دن میں سارا شہرتاریخی مقامات اور مضافات دیکھ لیں گے مگر استنبول پہنچ کر پتہ چلا کہ چار دن میں تو توپ کاپی میوزیم کی سیر اور میوزم میں رکھے نوادرات کی زیارت اور ان کی تاریخ جاننے کے لیے ناکافی ہیں ۔استنبول پہنچ کر سارا پروگرام ازسر نو ترتیب دیا مگر پھربھی بات نہ بنی۔ ہماری رہائش تقسیم چوک کے قریب تھی اور باقی مقامات دوری پرتھے ۔ہار مانتے ہوئے ہم نے سارا پروگرام ٹیکسی ڈرائیوروں کے حوالے کردیا۔

توپ کاپی میوزیم ،بلیو مسجد ،آیا صوفیہ ،مزار حضرت ابو ایوب انصاری پر حاضری ضروری قرار پائی۔ اس کے علاوہ ٹیکسی ڈرائیوروں کی صوابدید پر چھوڑ دیا کہ پیارے گردیش( بھائی) جو دکھا سکتے ہو ہم دیکھنے کے لیے تیارہیں ۔ ہماری بدقسمتی کہ میوزیم کسی وجہ سے بند تھا یا پھر ہم پانچوں کی وجہ سے بند کر دیا گیا تا کہ ہم عظمت رفتہ کے آثار نہ دے سکیں ۔

دیگرمقامات کی سیر کی، فاتحہ پڑھی اور روحانی سکون حاصل کیا۔ پہلی بار قسطنطنیہ حضرت عثمان کے دور خلافت میںفتح ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئی تھی کہ جو فوج اس شہر کو فتح کرے گی اسے جنت کی بشارت دی جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کی کثیر تعداد نے اس حملے میں حصہ لیا اور فتح یاب ہوئے۔ سلطنت اسلامی اور رومیوں کے درمیان امن کا معاہدہ ہوا اور جنگ روک دی گئی ۔حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی اس لشکر میں سب سے بڑی عمر کے سپاہی تھے۔ آپ کو جہاد میں شمولیت سے منع کیا گیا تو فرمایا میں نے طویل عمر کفر پر گزاری ہے مگر حضور صل وسلم کا فرمان سچ ہے ۔میں زندگی میں ایسے مشن میں حصہ کیوں نہ لوں جس کی منزل جنت ہے۔ روایات میں ہے کہ ضعف اورسفر کی مشکلات کی وجہ سے آپ کی صحت خراب ہو گئی اور راستے میں ہی آپ کا انتقال ہوگیا۔ آپ نے لشکر کے کمانڈر کو وصیت کی کہ فتح کے بعد مجھے رومن سرحد کے بالکل قریب دفنایا جائے۔ آپ کی وصیت پر عمل ہوا اور آپ کی تدفین قسطنطنیہ کے قلعے کی دیوار کے عین نیچے کی گئی۔ رومن شہنشاہ نے شکست تسلیم کر لی اور امن کے معاہدے میں لکھا گیا کہ میزبان رسول صل وسلم کی قبر مبارک کی حفاظت کی جائے گی۔ اس معاہدے کی رو سے جب تک سارا قسطنطنیہ فتح نہیں ہوا رومن بادشوہوں نے قبر مبارک پر مسلح گارڈ تعینات رکھی۔

پتہ نہیں میرے ساتھیوں نے استنبول میں کیا دیکھا مگر میں نے دل کی آنکھ سے بہت کچھ دیکھا۔ تو پ کاپی میوزیم کے اندر کا جو احوال میرے چچا نے ہمیں بچپن میں بتایا تھا وہ ایک بار پھر میرے دل کے پردے پر آگیا ۔ حجرے اسود کا چاندی کا فریم جوترک خلافت کا شیرازہ بکھرنے کے بعد ساتھ لائے تھے کے علاوہ حضور صلی وسلم کا لباس مبارک، موئے مبارک اور دیگر تبرکات آنکھیں بند کر کے دیکھے۔ دروازہ بند تھا تو کیا ہوا، د ل کی کھڑکی کھلی تھی اور حضور صل وسلم کی تلواروں کے علاوہ ،سیف اللہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی تلواروں میں وہ تلوار نمایاں نظر آئی جو فاتح خیبر نے مرحب پرآزمائی اور اسے دو ٹکڑے کر دیا۔ ترکوں کا اہل اسلام پر احسان ہے کہ وہ یہ اثاثہ واپس لے آئے اور اسے شایان شان طریقے سے محفوظ کیا اگر وہاں رہ جاتا تو اس کا حشر وہی ہوتا جو اصحاب رسول صلی وسلم کے گھروں اور مسجدوںکے علاوہ جنت البقیع کا ہوا ۔ استنبول کا کوئی کونہ ایسا نہیں جسے عظمت رفتہ سے جدا کیا جائے۔ عظیم جرنیلوں،سپاہیوں اور بادشاہوں کے نشانات دیکھا کردل میں ولولہ پیدا ہوتا ہے کہ کاش ہم اس دور میں ہوتے تو کسی مجاہد کوپانی پلا دیتے ،کسی غازی کی مرہم پٹی کرتے ،کسی کے گھوڑے کی لگام تھام لیتے، یا کم از کم کسی یلغار کے دوران نعرہ تکبیر کی صدا بلند کر دیتے ۔ آج ساری امت روبہ زوال ہے اور ہر طرف افراتفری اور انتشار ہے۔ مسلم دنیا میں قیادت کا فقدان ہے اور لیڈروں کی جگہ سیاستدانوں نے لے کر سیاست کو تجارت اور سیادت کو شہوت اور شہرت میں بدل دیا ہے۔ کمال اتاترک کے مجسموں سے لگتا ہے کہ ابھی ابھی درہ دانیال سے واپس آیا ہے۔ٹریپولی کی فاتح اور جدید ترکی کے بانی کی للکار اپنی جگہ مگر سادگی بھی بے مثال تھی ۔خلافت کے خاتمے پر ترکی کے صدربنے تو بیگم نے خواہش ظاہر کی کہ شاہی محل کو صدارتی محل ڈکلیئر کیا جائے ہماری رہائش اسی محل میں ہوگی۔ اتاترک نے یہ بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ محل ہی ہماری ندامت اور شکست کا باعث بنا ۔سلطان نے اس پر اتنا پیسہ خرچ کیا کہ ملکی امور چلانے کے لیے کچھ نہ بچا۔ خزانہ خالی ہوگیا اور عظیم سلطنت عثمانیہ بکھر گئی۔ میں ایسی جگہ ہرگز نہیں رہوں گا جس سے نکلنے کی میں نے جدوجہد کی۔ اتاترک ابتدامیں فوجی میس میں شفٹ ہوئے اور بعد میں صدارتی محل میں چلے گئے۔ اس انکار پر دونوں میں علیحدگی ہوگئی اور مصطفی کمال اپنی جیون ساتھی سے محروم ہو گئے۔
ہمارے ہاں غربت، بیماری، جاہلیت ،اقرباپروری، کرپشن ،بد دیانتی، بے حیائی اور بدکرداری کے علاوہ اتنی بیماریاں ہیں جن کاکوئی علاج ہی نہیں مگر پٹواری، تھانیدار اور صدر سے لے کر وزیر اعظم تک سبھی شاہانہ زندگی گزارتے ہیں ۔پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں ان کی جاگیریں ،جائیدادیں اور محل ہیں۔ جس قوم کے نام نہاد قائدین اور نوکرشاہی کا یہ رویہ ہو اس کا 75 سال تک زندہ رہنا کسی معجزے سے کم نہیں۔

قائد اعظم رحمتہ اللہ کا پاکستان بھٹو، مجیب الرحمان اوریحیحی خان نے برباد کیا اور پھر جنرل نیازی کی معاونت سے ملک کوشاملات مقبوضہ مالکان تصور کرتے ہوئے باہم بانٹ لیا۔ ترکی جا کر احساس ہوا کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی ناشکری ،احسان فرمو ش اور ابن الوقت قوم ہیں ۔ہم سیاستدانوں کی ڈگڈگی پر ناچنے والے ہیں۔ ہمیں قائد ین کی پہچان ہی نہیں۔ جس کسی نے حرام کی دولت کمائی گاڑیوں کا کاروان اور غنڈوں کا جلوس لے کر چلا بیوروکریسی اس کے آگے سجدہ ریز اور عوا م قدم بوسی پر مجبور ہوگئی۔ میں نے ترکی کے ہر مرد کو سلمان دی گریٹ اور سلیمان دی میگنی فیشنٹ کے روپ میں دیکھا۔
اتاترک کی غیرت ،جرت اور جواں مردی کی خوشبو باسفورس کے پانیوں، استنبول کی نیلگوں فضاوئں اور ارض خاک میںمحسوس کی۔ بادشاہوں، پاشاوئں ،فوجی جرنیلوں اور عوامی نمائندوں نے تعمیر و ترقی کی منزلیں بتدریج طے کیئں اور کسی جگہ کسی کام میں رخنہ نہیں ڈالا۔ ہماری حالت یہ ہے کہ کام صرف اشتعاروں اور ٹینڈروں تک محدود ہوتے ہیں۔کام سے پہلے بیوروکریسی کمیشن مافیا اور علاقائی غنڈے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور پھر کام بند کر دیا جاتا ہے ۔پا نچ سال بعد نیا ٹینڈر، نیا ٹھیکہ ،او ر نیابھتہ ۔ دس لاکھ کا کام 10 کروڑ میں بھی مکمل نہیں ہوتا ۔آزاد کشمیر میں نیلم جہلم پاورپراجیکٹ کام چوری اور غنڈہ گردی کی بدترین مثال ہے۔

خلافت عثمانیہ تحلیل ہو گئی مگر ترکی پر قبضہ اور اسے جرمنی ،جاپان اور افریقہ میں بدلنے کا منصوبہ کامیاب نہ ہوا۔کمال اتاترک نے نئے حوصلے ہمت اور قوت ارادی کے بل بوتے پر ترک نوجوانوں کو متحرک کیا۔ بے مثال قربانیوں اور انتھک محنت سے آج تر کی دنیا کی اہم اقوام کی صف میں کھڑا ہے۔ اگرچہ ترکی پر سیاسی، اقتصادی اور نفسیاتی حملوں کا سلسلہ جاری ہے مگر وہاں قیادت کا بحران نہیں ۔ہمارا چار روزہ مختصر دورہ بہت سے اسباق کا سبب بنا جس کا ذکر آئندہ کسی تحریر میں کیا جائے گا۔ سلطان مراد، شاہ سلیم۔ پیالے ، خیرالدین باربروسہ اور طیب اردوان کی ترکی کو میرا سلام۔


 

asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 90287 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.