بلوچستان میں افواج پاک کا قابل ستائش کردار


بلوچستان کی اہمیت کا اندازہ بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح ؒکے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے’’بلوچستان بہادر اور حریت پسند لوگوں کی سرزمین ہے‘‘۔جناح کیپ کے نام سے شہرت پانے والی اور بابائے قوم کی شخصیت کا حصہ بن جانے والی قراقلی ٹوپی بھی آپ کو کوئٹہ ہی میں پیش کی گئی تھی۔بلوچستان سے محبت اور انس کایہ عالم تھا کہ قائد اعظم نے اپنی زندگی کے آخری ایام زیارت میں گزارے، علالت کے باوجود قائد نے کسی بڑے شہرجانے کی بجائے زیارت کو ترجیح دی، زیارت میں وقت گزارنا بلوچستان اور یہاں کے لوگوں سے قائد کی محبت کا مظہر ہے- یہی وجہ ہے کہ بلوچ قیادت قائدِ اعظمؒ کا بہت احترام کرتی تھی یہ بلوچستان ہی تھا جہاں قائدِ اعظمؒ کو چاندی میں تولا گیا تھا -قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو اس خطے سے بے حد محبت تھی جس کا اظہار انہوں نے اپنی مختلف تقاریر و خطابات میں کیا- بلوچستان کے حقوق کی خاطر قائد اعظم 1920ء کی دہائی کے اواخر سے ہی سرگرم رہے- 1929ء میں پیش کردہ اپنے 14 نکات میں بھی آپ نے بلوچستان کے حقوق کی خاطر آواز بلند کی-1943ء میں جب کوئٹہ میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا تو اہلیان بلوچستان نے سبی جنکشن پر قائد اعظم کا پرجوش استقبال اور پْر عزم انداز میں خیر مقدم کیا-جبکہ قائد اعظم کو اکیس توپوں کی سلامی بھی پیش کی گئی جو اس سے پہلے صرف وائسرائے ہند کا پروٹوکول تھا-قائد اعظم نے جون 1943 ء اور ستمبر 1945 ء میں دو دفعہ بلوچستان کا دورہ کیا۔ اور بلوچستان کے لوگوں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کیا۔ پہلے دورے کے موقع پر قاضی عیسیٰ نے قائداعظم کو احمد شاہ ابدالی کی تاریخی تلوار پیش کی۔ اس پر برلن ریڈیو نے خبر نشر کی کہ اہل بلوچستان نے قائداعظم کو ایک تلوار دے کر استدعا کی ہے کہ وہ اس تلوار کو ہاتھ میں لے کر انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دے۔قیامِ پاکستان سے قبل موجودہ صوبہ بلوچستان کا علاقہ دو حصوں میں تقسیم تھا، ایک حصہ برٹش بلوچستان تھا اور دوسرا حصہ ریاست ہائے قلات، خاران ، مکران اور لسبیلہ پر مشتمل تھا- وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 3 جون 1947 ء میں اپنی تجاویز میں یہ تحریر کیا تھا کہ برٹش بلوچستان کو پاکستان میں شامل ہونا چاہئے تاہم اس نے عوام کی رائے لینے کی تجویز بھی دی-قیامِ پاکستان سے قبل کوئٹی میونسپل کمیٹی نے شاہی جرگہ(جو کہ ایجنٹ آف گورنر جنرل کے طور پر کام کر رہا تھا اور عوامی رائے کیلئے قانونی حیثیت رکھتا تھا) کے ممبران کے ساتھ پاکستان میں شمولیت کے حق میں متفقہ قراردار منظور کی چنانچہ تقسیم کے وقت برٹش بلوچستان مزید کسی بحث کے بغیر قانونی طور پر پاکستان کا حصہ بننا تھا- تقسیم کے وقت خان آف قلات نے پاکستان یا بھارت کسی کے ساتھ الحاق کا فیصلہ نہ کیا تا ہم بعد ازاں خاران، لسبیلہ اور مکران نے مارچ 1948 ء میں پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اور اسی ماہ خان آف قلات نے بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اور یوں موجودہ بلوچستان مکمل طور پر پاکستان کا حصہ بن گیا-بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے، جس کا کل رقبہ تین لاکھ سینتالیس ہزار ایک سو نوے مربع میٹر ہے۔ یہ محل وقوع کے لحاظ سے بھی اہم صوبہ ہے، شمال میں افغانستان ، خیبرپختونخوا ، جنوب میں بحیرہ عرب ، مشرق میں سندھ اور پنجاب جب کہ مغرب میں ایران شامل ہے۔ 832 کلومیٹر رقبہ ایران کی سرحد کے ساتھ ملحق ہے۔ بلوچستان کی قدیم تاریخ کا اندازہ آثار قدیمہ سے لگایا جاسکتا ہے ، کیونکہ 7000 سال قبل از مسیح کے زمانے کی آبادی و ثقافت کے نشان ملتے ہیں۔ کئی سال تک مکمل طور پر بلوچستان گورنر جنرل کے زیر نگیں رہا۔ 1970 ء کے عام انتخابات کے بعد اس کو پہلی بار ایک علیحدہ صوبے کی حیثیت حاصل ہوئی جغرافیائی اعتبار سے موجودہ بلوچستان کا شمار دنیا کے حسّاس ترین خطوں میں ہوتاہے کہ اس کے ایک جانب وسطی ایشیا کی قربت ہے، تو دوسری طرف بحیرہ عرب کے راستے گرم پانیوں تک رسائی کا خواب، لہٰذا امریکی سی آئی اے، را اور موساد کا مشترکہ پلان طویل عرصہ سے اس علاقے کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا سر گرم منظم نیٹ ورک صوبے میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث عناصر کو بھاری اسلحہ اور سرمایہ کی فراہمی کے علاوہ بلوچستان کے علیحدگی پسند بلوچ نوجوانوں کو تربیت بھی دیتا رہا ہے جوملک کی سلامتی کے لئے خطرے کا باعث ہیں۔ دراصل بلوچستان میں علیحدگی کی آگ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت گزشتہ 74 سالوں سے سلگائی جا رہی ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ’’آزاد بلوچستان‘‘ کی چنگاری کو بھڑکائے رکھنے میں نہ صرف بیرونی بلکہ اپنے لوگوں کا ہاتھ ہے۔یورپ ، امریکہ میں پاکستان دشمن پروپیگنڈے پر مبنی زہر آلود لٹریچر کی تقسیم ،فری بلوچستان موومنٹ کے زیر اہتمام ریلیاں ، مظاہرے اور پلے کارڈز و پوسٹرز کی تقسیم جن پر بلوچستان پر پاکستانی مظالم اور نام نہاد پاکستان چین اکنامک کوریڈور کے خلاف نعرے درج تھے۔ بھارت میں ’’را ‘‘ کے تحت چلنے والے 3 چینلز 24 گھنٹے بلوچستان مخالف پروپیگنڈاکرنے میں مصروف ہیں۔ بھارت یو این او کی سلامتی کونسل میں آزاد بلوچستان کے حق میں قرار داد لانے کا مذموم منصوبہ بنایا گیا ہے۔اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ بلوچستان کی ترقی میں ہی پاکستان کی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ چنانچہ صوبہ بلوچستان کی معدنی دولت اسکے قدرتی وسائل اور جغرافیائی اہمیت کی بدولت ہی پاکستان رقبے کے اعتبار سے دنیا کا ایک بڑا ملک ہے اور یہاں کے معدنی ذخائر ہماری قسمت بد ل سکتے ہیں۔اس پسماندہ صوبے میں دنیا کی بہترین 43 معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ جو نا صرف صوبہ بلوچستان بلکہ ملکی معاشی مسائل کا خاتمہ کرکے یہاں خوشحالی لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔ زمین کی تہوں میں پوشیدہ معدنی خزانے میں پٹرولیم سب سے اہم ہے۔جبکہ قیمتی معدنیات میں سونا کے حصول کیلئے امریکہ مسلسل تگ ود میں ہے۔ بلوچستان سنٹرل ایشین معدنی ذخائر کی ترسیل کا واحد پوائنٹ ہے جس کی وجہ سے عالمی سامراج اس پر تسلط کا خواہاں ہے۔لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ بین الاقوامی سازشوں کی وجہ سے بلوچستان کی صورتحال مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے لیے بلوچستان کا انتخاب کیوں ؟ اور دشمن اس علاقے سے کون سے فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے؟اس سوال کا جواب ہمیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس خطاب سے بخوبی ہو جاتا ہے جو اس نے لال قلعے میں کھڑے ہو کر کیا اور بنگلہ دیش بنانے میں اپنے سازشی کردار کو فخریہ بیان کیااور اب بلوچستان ،گلگت بلتستان میں علیحدگی کی آگ بڑکانے میں بھی را ملوث پائی گئی ہے ۔ دوسری جانب بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو انڈین آرمی میں حاضر سروس افسر نے اپنے بیان میں بھارتی سازشوں اور عزائم سے پردہ اٹھایا تھا۔ جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW) پاکستان میں دہشت گردی و شورش برپا کرنے میں ملوث ہے ۔بھارت کی بھی خواہش ہے کہ بلوچستان میں حالات خراب رہیں، تاکہ مقبوضہ کشمیرکی تحریک آزادی کی آواز کو دبایا جاسکے۔ در حقیقت عالمی قوتیں پاکستان کو غریب اور کمزور دیکھنا چاہتی ہیں اور دہشت گردی کی آڑ میں پاکستان کے جوہری پروگرام کو ختم کرانا چاہتی ہیں تاکہ بھارت اور اسرائیل ایک مضبوط قوت بن کر اْبھریں جبکہ پاکستان کا جوہری پروگرام ہی اسکی سلامتی کی ضمانت ہے۔ دوسری جانب بلوچستان میں پاک چین اقتصادی راہداری جو بلوچستان کی بندرگاہ گوادر سے شروع ہو کر براستہ شاہراہِ ریشم قراقرم چین سے جا ملے گی۔ اس منصوبے نے ملک دشمن عناصر کی نیندیں اڑا دی ہیں۔بظاہر تو یہ منصوبہ دو ملکوں کے درمیان تجارتی مقاصد کے لیے بنایا جا رہا ہے مگر وسط ایشیائی ملکوں سمیت دنیا کے تقریباً 60 ممالک اس منصوبے سے فائدہ اْٹھائیں گے ۔امریکیوں کی دلچسپی کی ایک بڑی وجہ گوادر پورٹ بھی ہے جو چین ، روس کے علاوہ بین الاقوامی بحری راستے کی ایک اہم بندرگاہ ہے۔ اس پورٹ کے ذریعے یورپ ، مشرق وسطیٰ، چین اور روسی ریاستوں کی باہم تجارت آسان ہو گئی ہے اوریہاں چین کی موجودگی امریکہ کیلئے سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ لہذاگوادر ڈیپ سی پورٹ کی تعمیر اور پاکستان کی معیشت پر اس کے گہرے مثبت اثرات کے ساتھ وسط ایشیاء سے اقتصادی تعلقات شاندار مستقبل اور ایشیائی خطے کی سیاست میں پاکستان کو جس مقام پر لے جائیں گے وہ امریکہ کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی قبول نہیں۔ اس حوالے سے انڈین بحری فوج کے سربراہ کابیان ریکارڈ پر ہے کہ بھارت کو گوادر میں چین کی موجودگی پر سخت تشویش لاحق ہے۔ امریکہ گوادر میں چین کی موجودگی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔یہی وہ حالات ہیں جن کی بنا پر بلوچستان ہدف ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشتگردی کے ذریعے ملک میں انتشار پھیلانے کی بھارتی سازشیں ناکامی سے ہمکنار ہورہی ہیں۔دہشت گردی کی ایسی اکادکا وارداتوں کے باوجود آج ملک میں امن و امان واپس لوٹ رہا ہے جو ہماری سکیورٹی فورسز اور عوام کی قربانیوں سے ہی ممکن ہوا ہے۔ بلوچستان میں قوم پرستوں کے روپ میں پیدا ہونیوالی دہشت گردوں کی کھیپ کی سرپرستی بھی بھارت نے کی جو فرقہ واریت کی بنیاد پر بھی ملک میں دہشت گردی پھیلانے کی سازشوں میں ملوث رہے اور پنجابی آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ کرکے لسانی اور علاقائی منافرت پھیلانے کی بھی کوشش کرتے رہے ۔ دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے سکیورٹی فورسز کے آپریشن راہ راست کا 2008ء میں آغاز کیا گیا تھا جو آپریشن راہ نجات کے مرحلے میں داخل ہوا۔ یہ آپریشن زیادہ تر شمالی‘ جنوبی وزیرستان اور شمالی علاقہ جات میں ہوئے جس کے بعد آپریشن ضرب عضب کا دائرہ ملک کے دوسرے علاقوں تک وسیع کیا گیا۔ آج وطن عزیز میں امن و آشتی کے خوشگوار جھونکے چل رہے ہیں تو یہ ہماری سکیورٹی فورسز کے عزم و حوصلہ کے باعث ہی ممکن ہوا ہے جنہیں اس مقصد کیلئے قوم کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں آپریشن ردالفساد کے تحت بلوچستان سمیت ملک بھر میں خفیہ اطلاعات پر تین لاکھ 75 ہزار سے زائد آپریشن کئے گئے جن میں سی ٹی ڈی‘ آئی بی‘ آئی ایس آئی‘ ایم آئی پولیس‘ ایف سی اور رینجرز نے بھرپور کردار ادا کیا۔ ان کارروائیوں کی وجہ سے دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملی اور بہت سے دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کیا گیا۔ گزشتہ سالوں میں دہشتگردی کے دو ہزار سے زائد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ 2017ء سے اب تک 1200 سے زائد قوم پرست شدت پسندوں نے ہتھیار ڈالے ہیں۔ آپریشن ردالفساد کے دوران 78 سے زائد دہشتگرد تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں اور دہشتگردوں کے سہولت کاروں اور ان کے معاونین کے خلاف انٹیلیجنس کی بنیادوں پر ایکشن لیے گئے، آپریشن ردالفساد کے تحت بڑے بڑے دہشتگرد نیٹ ورک ختم کرتے ہوئے انہیں قومی دھارے میں شامل کیا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ایک طویل ترین جنگ میں افواج پاکستان کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ تاہم موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان کے امن کو تہہ وبالا کرنے کے لیے سازشیں ایک بار پھر زور پکڑگئی ہیں۔ مگر یہ سب کچھ وقتی ہے ، کیونکہ افواج پاکستان کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے ، دہشت گردی کے حالیہ واقعات پریشان کن ضرور ہیں لیکن ان پر بہت جلد قابو پانے کی صلاحیت ہماری افواج میں ہے۔بلاشبہ ان سخت ترین حالات میں افواج پاکستان نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیکر اس صوبے میں امن کی بحالی کے لیے جو کردار ادا کیا ہے وہ انتہائی قابل ستائش اور قابل تعریف ہیں۔


 

Naseem Ul Haq Zahidi
About the Author: Naseem Ul Haq Zahidi Read More Articles by Naseem Ul Haq Zahidi: 194 Articles with 162475 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.