’ایک تھا ٹائیگر‘۔ ممبئی کا کانکریٹ جنگل اس کی دہاڑ سے
دہل جایا کرتا تھا ۔ کارٹون بنانا اس کاپسندیدہ مشغلہ تھا اور ہفتہ وار
جریدہ نکال کر وہ اپنا گزر بسر کیا کرتا تھا۔ سیاسی کارٹون بنانے والا
ٹائیگر ہٹلر کو اپنے لیے نمونہ مانتا اور راج کارن (انتخابی سیاست ) کو
گجکرن (خارش کی بیماری) سمجھتا تھا ۔ اس دور کی سیاست میں ترنگا کے مقابلے
سرخ پرچم کا بول بالا تھا۔ اس کی سرخی کو ماند کرنے کی خاطر گاندھی ٹوپی
والوں نے ٹائیگر کو بھومی پتر(مقامی عوام) کے مسائل کا علمبردار بننے کی
ترغیب دی۔ ٹائیگر نے جنوبی ہند کی بے ضرر ہرنوں ( باشندوں) پر پنجے جھاڑ کر
حملہ کردیا۔ لہولہان ہرنوں نے اپنے تحفظ کی خاطر سرخ پرچم پھینک کرترنگا
تھام لیا ۔ مقامی بھیڑوں نے سرخ پرچم کے بجائے زعفرانی پرچم بلند کردیا ۔
گاندھی ٹوپی والوں نے ایک تیر سے دو شکار کرلیے۔ مشرق کے افق سے ابھرنے
والا سورج روبہ زوال ہوگیا اورپھر اس کو غروب ہونے میں وقت نہیں لگا ۔
ٹائیگر کےہونٹوں کو سیاست کا خون لگ چکا تھا ۔ اس نے اپنی سینا (فوج) کا
نشان تیر کمان رکھ دیا تاکہ اپنے آقا کے لیے شکار کا شغل جاری رکھ سکے ۔
ٹائیگر کا دوسرا شکار سبز پرچم والے تھے۔ ان پر حملہ ہوا تو شہر اور قرب و
جوار میں فساد پھوٹ پڑا۔ اس کے نتیجے میں گول ٹوپی والے بھی گاندھی ٹوپی کی
شرن (پناہ ) میں آگئے حالانکہ ٹائیگر کو بھی اسی کا تحفظ حاصل تھا ۔
مہاراشٹر کے جنگل میں سفید ٹوپی کے دشمن کالی ٹوپی والوں کو ٹائیگر کے گول
ٹوپی کی مخالفت میں امید کی کرن نظر آئی ۔ ان لوگوں نے اپنی بیٹی کملا کا
پیغام ٹائیگر کے گھر بھیجا تاکہ اسے اپنا گھر داماد بناکر ممبئی سے ناگپور
لے جایا جاسکے ۔ ٹائیگر نے سوچا کب تک گاندھی ٹوپی کی پناہ میں کسمپرسی کی
زندگی گزاری جائے ؟ اب جبکہ ایک اطاعت گزار شریک حیات بھی پکے ہوئے پھل کی
مانند دامن میں گرا چاہتی ہے کیوں نہ اپنا خود مختاد گھر سنسارآباد کیا
جائے ۔
ٹائیگر اور کملا کی نسبت طے ہوگئی تو وہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے
کی خاطر ساتھ ساتھ گھومنے ٹہلنے لگے لیکن اس بیچ مہاراشٹر کے جنگل میں نیا
سیاسی زلزلہ آگیا جس کا مرکز بارہ متی تھا ۔ بارہ متی سے اٹھنے والے بغاوت
کےطوفان نے گاندھی ٹوپی کوہوا میں اچھال دیا ۔ اس منظر کو دیکھ کر کالی
ٹوپی والوں کو احساس ہوا کہ کملا کے لیے ٹائیگر سے بہتر رشتہ بارہ متی کے
ہاتھی کا ہے۔ ٹائیگر یہ دیکھ کر بہت بددل ہوا ۔ اس نے کملا سے ناطہ توڑ لیا
اور اب وہ ہاتھی سے رشتہ جوڑنے کے لیے آزاد ہوگئی۔ ہاتھی کا راج زیادہ دن
نہیں چل سکا ۔ اقتدار گنوانے کے بعد اس نے پھر سے سفید ٹوپی پہن لی اور
بیچاری کملا اچانک بیوہ ہوگئی ۔ اس نے جب ’پورب سے پشچم ‘ کی جانب پلٹ کر
دیکھا تو وہاں اداس ٹائیگر کو منوج کمار کی مانند اندیور کا لکھا گیت گارہا
تھا۔ کملا نے جب شرمندگی کے ساتھ معافی طلب کی اور دوبارہ رشتے بحال کرنے
کی پیشکش کی تو ٹائیگر نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر معاملہ
رفع دفع کردیا ؎
کوئی جب تمہارا ہردیہ(دل) توڑ دے ،تڑپتا ہوا جب تمہیں چھوڑ دے
تب تم میرے پاس آنا پری یے(محبوب) ، مرا در کھلا ہے کھلا ہی رہے گا تمہارے
لیے
راجیو لہر نے جب کملا کو دو پر پہنچا دیا تو اس نے گاندھیائی سوشلزم کو
دریا برد کرکے پھر سے ہندوتوا کا دامن تھام لیا تھا۔ رام رتھ یاترا ملک بھر
میں نفرت کی آگ پھیلا رہی تھی ۔ اس کام میں ٹائیگر اور کملا شانہ بشانہ
آگے بڑھ رہے تھے بلکہ قوام دو قدم آگے تھا ۔ اس وقت کملا کا سابق محبوب
بارہ متی کا ہاتھی مہاراشٹر پر راج کررہا تھا ۔ اقتدار کے زعم میں وہ گول
ٹوپی والوں کو ناراض کرچکا تھا۔ دلی کے نرسگھا کو فریب دینے کی خاطر اس نے
کئی کالی بھیڑوں کو انتخابی میدان میں اتار دیا تھا ۔ یہ داوں الٹا پڑا اور
بارہ متی کا ہاتھی اقتدار سے محروم ہوگیا ۔ ٹائیگر نے سنگھاسن پر خود
بیٹھنے کے بجائے پہلے اپنی لومڑی کو اقتدار تھمایا اور پھر اس کو ایک گدھے
سے بدل دیا ۔ لومڑی بوڑھی ہوچکی ہے اور گدھا در بدر منہ مارتا پھر رہا ہے۔
لومڑی کے ساتھ راج کاج کے لیے کالی ٹوپی والوں نے ایک کالے گھوڑے کو اقتدار
کے گلیارے میں بھیج دیا اور مہاراشٹر میں گیروا پرچم لہرانے لگا ۔
اس مایوس کن صورتحال میں ہاتھی نے بدل دل ہوکر پھر سے بغاوت کی اور پنجہ
مروڈ کر گھڑی تھام لی ۔ انتخاب کے بعد ٹائیگر کے تیر کمان کا نشانہ چوک گیا
اور کمل بے نشان ہوگیا۔ گھڑی پھر سے پنجے کی کلائی پر بندھ گئی ۔ تھوڑی بہت
آپسی تو تو میں میں کے باوجود یہ گھر سنسار ہنستے کھیلتے چلنے لگا ۔ ملک
میں جب ’اچھے دن ‘ کی ہوا چلی تو عوام نے پندرہ لاکھ کی لالچ میں کملا کو
دلی کا تخت و تاج سونپ دیا۔ اس کامیابی کے بعد کملا خود کو قوام اور ٹائیگر
کو غلام سمجھنے لگی ۔ اس طرح ان کے رشتے میں پھر دراڑ پڑ گئی۔ ٹائیگر نے
اپنی توہین سے نالاں ہوکر ایک طلاق دے دی۔ دونوں نے برسوں بعد ایک دوسرے کے
خلاف صوبائی انتخاب لڑا۔ کملا نے اپنی برتری ثابت کردی۔ اس نے ہاتھی کی
بلاواسطہ مدد سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے ساری اہم وزارتیں اپنی بھیڑوں میں
تقسیم کردی اور پھر ٹائیگر کو یاد دلایا کہ پہلی طلاق کے بعد رجوع کرنے کا
موقع ہے ۔ ’ مر تا کیا نہ کرتا ‘ ٹائیگر اس بار کملا کا گھر داماد بننے پر
راضی ہوگیا لیکن اس بار وہ ’پورب پشچم ‘ کے نغمہ کا آخری بند گا رہا تھا۔
کوئی شرط ہوتی نہیں پیار میں، مگر پیار شرطوں پہ تم نے کیا
نظر میں ستارے جو چمکے ذرا ، بجھانے لگی آرتی کا دیا
جب اپنی نظر میں ہی گرنے لگو، اندھیرے میں اپنے ہی گھرنے لگو
تب تم میرے پاس آنا پری یے(محبوب) ، یہ دیپک جلا ہے جلا ہی رہے گا تمہارے
لیے
اس دوران گردشِ زمانہ سے یہ تبدیلی آئی کہ ٹائیگر بیٹے کی محبت میں اپنی
سینا(فوج) کی باگ ڈور منا بھائی فوٹو گرافر کو سونپ دی ۔ اس فیصلے نے
ٹائیگر بھتیجے سرکٹ کو آگ بگولہ کردیا اور اس نے انجن پر سوار ہوکر جنگل
کے تعمیر نو کا اعلان کردیا ۔ اس طرح انجن کے نشان والی مہاراشٹر نونرمان
سینا وجود میں آگئی۔ اس وقت منابھائی نے چونکہ زعفرانی شال اوڑھ رکھی تھی
اس لیے سرکٹ نے اپنی جداگانہ شبیہ بنانے کی خاطر نیلے اور سبز رنگ کا گمچھا
کندھے پرڈال لیا۔ گول ٹوپی اور نیلی قمیض والوں کو اس کا یہ اقدام بہت اچھا
لگا اور وہ بھی اس کے قریب آگئے ۔ اس نے اپنی بھومی پتر(علاقائیت) کا پرچم
لہراتے ہوئے جنوب کے بجائے شمالی ہند کے باشندوں کی جانب نفرت کا دہانہ
کھول دیا۔ یہ حربہ کامیاب نہیں ہوا۔ اس سے انجن کی ہوا نکل گئی اور بیچارہ
سرکٹ نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا ۔ اس کا سیاسی مستقبل خطرے میں پڑگیا ۔ منا
بھائی نے باپ کی وراثت کو سنبھالا اور سینا پر اپنی پکڑ مضبوط کرتا چلا گیا
۔
قومی انتخاب میں گوکہ کمل اور تیرکمان ایک دوسرے کے ساتھ تھے لیکن اس کے
باوجود کمل نے سینا کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے سرکٹ کے انجن سے تیر
کمان کو روندنے کی کوشش کی۔ اس میں اسے کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ۔ اس کے
بعد صوبائی انتخاب میں تو تیر کمان اور کمل نشان ایک دوسرے سے نبرد آزما
تھے اس لیے انجن کا کھل کر استعمال کیا گیا۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور
مہاراشٹر میں کمل کا راج قائم ہوگیا ۔ کمل نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے
کی خاطرسرکٹ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر منا بھائی کی سینا سے ہاتھ ملایا تو
اس نے اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کیا۔ اس کی ناراضی کا فائدہ اٹھا کر اگلے
صوبائی انتخاب میں بارہ متی کے ہاتھی نے انجن کو اپنا ہمنوا بناکر اس کی
مدد سے کمل پر چڑھائی کردی۔ سرکٹ اب کرائے کے انجن میں تبدیل ہوچکا تھا ۔
وہ اجرت پر منابھائی کے ہر مخالف کی خدمت کرنے پر آمادہ ہوجاتا تھا ۔ اس
طرح چاچا ٹائیگر تو اس کا بھتیجا گیدڑ بن گیا ۔
(باقی کہانی انٹرویل کے بعد )
|