بلاشبہ مخدوم جاوید ہاشمی ایک شخصیت ہی نہیں بلکہ
ایک تاریخ کا نام ہے ۔بنگلہ دیش نامنظور تحریک سے اب تلک بہت سے اعزازات ان
کامقدر بنے وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے اور شاید آخری قومی رہنما ہیں جو
2بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور تحریک ِ انصاف کے صدر کے عہدے پر فائز
رہے انہوں نے جب مسلم لیگ ن کو چھوڑکرتحریک ِ انصاف میں جانے کافیصلہ کیا
کارکنوں کی آہ وبکا اور بیگم کلثوم نواز کے آنسو بھی نہ روک سکے یہ میاں
نوازشریف کیلئے ایسا دھچکا تھا جس کی کسک کارکن کافی دیر تک محسوس کر تے
رہے ۔ میاں نواز شریف کے برے وقت کے ساتھی مخدوم جاویدہاشمی نے جس اندازسے
ان دونوں جماعتوں کو چھوڑا کارکنوں کی اکثریت نے اسے پسند نہیں کیا ۔ایک
بڑا لیڈرہونے کے باوجود باغی کی شخصیت میں واضح تضادنظر آتاہے وہ مسلم لیگ
ن میں تھے تو انتہائی مضطرب۔روٹھنا منانا لگارہا ۔پھرایک دن وہ کارکنوں کو
روتا چھوڑکرتحریک ِ انصاف میں شامل ہوگئے اوراس دم انہوں نے محترمہ کلثوم
نواز کی بھی پرواہ نہیں کی باغی کو انہوں نے اپنے دوپٹے کا واسطہ بھی دے
ڈالا تھا پھر ایک دن نہ جانے کیا ہوا مخدوم صاحب نے یہ کہہ کر سب کو حیران
پریشان کرڈالا کہ میرا لیڈر میاں نوازشریف ہے جس نے بھی سنا ششدر رہ گیا
شاید یہ ان کے اندرکا پچھتاوا تھا جو مسلم لیگ ن چھوڑنے کے باعث آہستہ
آہستہ ان کے دل و دماغ پر گھر کرگیا۔پھر انہوں نے کہا مجھے سب سے زیادہ عزت
عمران خان نے دی۔۔پھر اسی پر الزامات کی بوچھاڑ کرڈالی۔ کہاجاتا ہیپاکستان
میں جمہوریت کیلئے سب سے بڑی قربانی مخدوم جاوید ہاشمی نے دی جس کا اعتراف
سب کرتے ہیں ۔۔کوئی نہ بھی کرے تب بھی یہ ایک ایسی سچائی ہے جسے جھٹلایا
نہیں جا سکتا ڈکٹیٹرکے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر استقامت سے ڈٹ جانے
والی شخصیت مخدوم جا وید ہاشمی کو کون نہیں جانتا۔ پرویز مشرف کی چھتری تلے
قائم ہونے والی ق لیگ کے دو ر ِ حکومت میں مخدوم جا وید ہاشمی کو غداری کے
مقدمہ کا سامنا کرنا پڑا اور ’’بغاوت ‘‘ کے الزام میں 5 سال قیدوبندکی
صعوبتیں برداشت کیں لیکن انہوں نے آمریت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کیا جیل
کے دوران مخدوم جاوید ہاشمی کی لکھی کتاب ’’میں باغی ہوں‘‘ نے بہت شہرت
حاصل کی ۔مفاہمتی سیاست کے دوران مسلم لیگ ن نے جب زرداری گورنمنٹ میں
وزارتیں لینے کا فیصلہ کیا تو مخدوم جا وید ہاشمی واحد سیاستدان تھے جنہوں
نے کسی بھی اندازمیں جنرل پرویز مشرف سے حلف لینے سے انکار کردیا اور
اصولوں کی خاطروفاقی وزیر بننا قبول نہ کیاآج کی حکمران جماعت کے کئی
رہنماؤں نے بازوؤں پر سیاہ پٹی باندھ کرپرویزمشرف سے حلف لے لیا جو آج روز
مشرف کے خلاف بیان داغ رہے ہیں ۔خیربات ہورہی تھی مخدوم جا وید ہاشمی کی
جنہوں نے بھرپور سیاسی جدوجہدکی لیکن ان کے انجام پر کئی لوگ ازردہ،افسردہ
تھے۔ عام لوگوں کا خیال ہے ان سے کئی سیاسی غلطیاں بھی سرزدہوئیں پہلی بات
تو انہیں مسلم لیگ ن کوہی نہیں چھوڑنا چاہیے تھا ۔۔تحریک ِ انصاف میں شامل
ہوئے تھے تو قیادت سے اختلافات کے باوجود انہیں ڈٹ جانا چاہیے تھا پارٹی
میں رہ کر اصلاح ِ احوال کی کوشش کرتے رہنا ضروری تھا ۔۔باغی کوڈی چوک سے
آگے پا رلیمنٹ کے سامنے جانے پر اعتراض تھا جب دھرنا وہاں سے واپس آگیا تو
اصولی طورپر ان کا اعتراض دور ہوگیا ۔۔ شوکاز نوٹس ملنے پر بھی انہیں پارٹی
نہیں چھوڑنی چاہیے تھی اپنی ناراضی کااظہارکرکے موجودہ معاملات سے لاتعلق
ہو جاتے تو ان کا سیاسی وزن قائم رہتا اوران کی ذات کا ایک بھرم بنارہتا
لگتاہے مخدوم جاویدہاشمی نے اپنی زندگی کے تمام اہم فیصلے کرنے میں جلدبازی
سے کام لیا عقل کے فیصلے جذبات سے کرنے کا یہی نتیجہ نکلتاہے انہوں نے آخری
بار پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک تاریخی خطاب کیا جس کی بازگشت ہمیشہ
گونجتی رہے گی انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ تو دے دیا تھا اپنی
زندگی کے عروج کے دوران بھریا میلہ چھوڑکر دوبارہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ نہ
کرتے تو تاریخ میں امر ہو سکتے تھے۔ پھر2018ء کے عام انتخابات میں وہ دم تو
مسلم لیگ ن کی محبت کا بھرتے رہے مگر ان کیلئے کسی لیگی کارکن نے کچھ نہ
کیا۔بعض لوگوں کا خیال ہے مخدوم جا وید ہاشمی ٹریپ ہوگئے تھے دھرنے ناکام
بنانے کیلئے ان کو استعمال کیا گیا اور اس کوشش میں نواز حکومت تو بچ گئی
لیکن’’ عزت ِ سادات ‘‘نہ بچ سکی یہ تو خدا ہی بہتر جانتاہے کہ اندرکی کیا
کہانی ہے؟ منظر ۔۔۔پیش منظر۔۔محرکات اور سیاق و سباق کیا تھے؟ کبھی نہ کبھی
یہ حقیقت منظر ِ عام پر ضرور آئے گی تو یقینا تہلکہ مچ جائے گا۔۔بہرحال
حالات جو بھی ہوں۔۔سیاستدانوں کی رائے جو بھی سامنے آئے دل کو یقین ہے ایک
نہ ایک دن یقینا جمہوریت کی سربلندی کیلئے مخدوم جاوید ہاشمی کی قربانیوں
کو سنہری حروف سے لکھا جائے گا سچی بات یہ ہے کہ وقت گذرجاتاہے لیکن کردار
زندہ ہمیشہ رہتاہے یہ کردار ہی ہے جو مستقبل میں لوگوں کی رہنمائی کرتاہے
اسی سے مؤرخ فیصلہ کرتے ہیں کس نے کیا فائدہ لیا۔ اور۔قربانیاں دینے والے
کون ہیں؟ ۔۔۔ اپنی گراں قدر خدمات سے نئی تاریخ لکھنے اور تاریخ پر احسان
رقم کرنے والوں کی چرچا کرنا ہم سب پر فرض ہے آمریت کی چوکھٹ پر سجدہ
ریزہونے سے انکار جرأت کا بہت بڑا اظہارہے پاکستان میں جمہوریت کے فروغ
کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ قوم ان تمام رہنماؤں کی قربانیوں کو یادرکھیں
جنہوں نے اپنی زندگی اس قوم کے نام کردی یہ لوگ فرشتے نہیں ہیں ان سے بھی
غلطیاں، کوتاہیاں سرزد ہوئی ہوں گی ان کو درگذرکردینا چاہیے مجموعی طورپر
ان تمام سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں ، ججز یا دیگر شخصیات جنہوں نے ماضی میں
آمریت کے خلاف مزاحمت کی،قربانیاں دیں قیدو بند کی مشکلات سے دو چارہوئے ان
سب کو ہر قسم کے تعصبات اور امتیازسے بالاترہوکر ان کی خدمات کو قومی سطح
پر تسلیم کیا جائے اوران کو مراعات،اعزازات اور تمغہ ٔ جمہوریت سے نوازا
جائے حکومتی سطح پر ایسا کرنے سے لوگوں کو جمہوریت سے دلی لگاؤ محسوس ہوگا
اس اقدام سے جمہوریت مزید مضبوط ہوگی ۔ جس کسی نے بھی ڈکٹیٹروں کے سامنے ڈٹ
کر جمہوریت کی بات کی، قربانیاں دی ہیں انہیں قومی ہیروقراردیا جائے۔۔ایک
اوربات آمریت کا مقابلہ کرنے والوں کی خدمات کو عام آدمی تک اجاگرکیا جائے
اس کیلئے ایک قومی ادارے کے قیام ناگزیرہے ۔۔آمریت کے سامنے ڈٹ جانے والوں
کی تصاویر پاکستان کی پانچوں صوبائی اسمبلیوں،پارلیمنٹ اور سینٹ بھی آویزاں
کی جائیں ۔ نوابزادہ نصراﷲ خان کو کئی الیکشن ہارنے کے باوجود بابائے
جمہوریت کہا جاتاہے کچھ لوگ مخدوم جاویدہاشمی کو بھی بابائے جمہوریت قرار
دے رہے ہیں اس ملک میں باغی ایک ہے ۔جاوید ہاشمی ایک ہے اور تاریخ بتاتی ہے
باغیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتاہے جیسا سلوک جاویدہاشمی کے ساتھ
ہورہاہے آمریت کے سامنے ڈٹ جانے والے کو لوگوں کی بے حسی نے سیاسی میدان سے
نکال باہرکردیا ۔قوم نے ان کی قربانیوں کی قدرنہیں کی ۔ بہرحال’’ باغی ‘‘کو
پھر سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کے لئے میدان میں ان ایکشن رہنا چاہیے
ان جیسے رہنماؤں کو مسلسل برسرِپیکار رہنا ہوگا ایک تو جھپٹا ،پلٹنا۔ جھپٹ
کر پلٹنا لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہے ویسے بھی سیاست میں اب مخدوم جا
وید ہاشمی جیسے لوگ خال خال ہی رہ گئے ہیں صدیوں پہلے عظیم فلاسفر افلاطون
نے اچھے لوگوں کا سیاست سے کنارہ کش ہونے کا مطلب ہے کمتر لوگ ان پر حکومت
کریں غورکریں ۔۔سوچیں اور سوچ کرجواب دیں کیا افلاطون کا کہا سچ ثابت نہیں
ہورہا؟
|