پیپلزپارٹی،JUI،مسلم لیگ ن ،باپ اور دیگر جماعتوں
پرمشتمل حکومتی اتحاد عمران خان کی حکومت گرانے میں تو کامیاب ہوگیا لیکن
اسے شدید مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے ڈالرکی اونچی اڑان، روپے کی قدرمیں
مسلسل گراوٹ، ہوشربامہنگائی ، لوڈشیڈنگ اورپٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نئی
نویلی حکومت کے لئے سردرد بن چکی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے حکومت بڑی مشکل
میں پھنس گئی ہے ، حکومتی اتحاد اگلے سال الیکشن کروانے کا ارادہ رکھتاہے
میاں نوازشریف نے بھی انہیں لندن میں یہی مشورہ دیاہے لیکن حکمران سری لنکا
کے حالات سے خوفزدہ ہیں کہیں پاکستان میں بھی ویسے ہی حالات نہ ہو جائیں اس
صورت ِ حال میں ہرکسی کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ اب کیاہوگا ؟ کیا سولہ
مئی سے پٹرولیم مصنوعات پر اضافہ ہوگا یا نہیں ؟حکومت قیمتوں میں مرحلہ وار
اضافے پر غور کرنا چاہ رہی ہے تاکہ شدید عوامی ردِ عمل سے بچاجاسکے حقیقتاً
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے معاملے پر حکومت بڑی مشکل میں پھنس گئی ،ایک
طرف آئی ایم ایف کا دباو ٔ اور دوسری طرف عوام کے شدید ردعمل کا خدشہ ہے
پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی مکمل ختم،لیوی اور سیلز ٹیکس زیرو رکھنے سے
قیمتیں پچاسی روپے پچاسی پیسے فی لیٹر تک بڑھ جائیں گی،اگر پٹرولیم مصنوعات
پر لیوی اور سیلز ٹیکس بھی عائد کردیا جائے تو قیمت میں اضافہ کہیں زیادہ
بنتا ہے،وفاقی حکومت کو پٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل پر فی لیٹر 30 روپے تک
لیوی لگانے کا اختیار ہے لیکن حکومت کے پاس یکمشت ساری سسبڈی ختم کرنا
انتہائی مشکل فیصلہ ہوگا، اس لئے مرحلہ وار قیمتوں میں اضافے پر غور کیا
جارہا ہے کیونکہ حکومت پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنے کی آئی ایم ایف
کو یقین دہانی کراچکی ہے،وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کے تحفظات کے
باوجود حالیہ ایک ماہ میں دو بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی
تجاویز کو مسترد کیا اس وقت حکومت پٹرولیم مصنوعات پر تہتر روپے چار پیسے
تک فی لیٹر سبسڈی دے رہی ہے اور سولہ مئی سے فی لیٹر سبسڈی پچاسی روپے
پچاسی فی لیٹر تک پہنچ جائے گی،حکومت فی لیٹرپٹرول پر 29 روپے60 پیسے سبسڈی
دے رہی ہے،16 مئی سے فی لیٹرپٹرول پرسبسڈی کی یہ رقم 45 روپے14پیسے تک پہنچ
جائے گی،ساری سبسڈی ختم ہونے پر فی لیٹر پٹرول 45روپے 15 پیسے بڑھانا پڑے
گا جس کے نتیجے میں فی لیٹرپٹرول کی قیمت 195روپے ہوجائیگی جبکہ ہائی سپیڈ
ڈیزل پرفی لیٹر سبسڈی 73روپے 4 پیسے ہے اور 16 مئی سے ہائی سپیڈ ڈیزل پر
سبسڈی 85 روپے 85 پیسے تک پہنچ جائے گی،مکمل سبسڈی ختم ہونے سے ہائی سپیڈ
ڈیزل کی قیمت 230روپے فی لیٹر تک پہنچ جائے گی،اس وقت مٹی کے تیل پر فی
لیٹر سبسڈی 43 روپے 16 پیسے ہے اور 16 مئی سے مٹی کے تیل پر فی لیٹر سبسڈ
50 روپے 44 پیسے ہوجائے گی،مٹی کے تیل پر مکمل سبسڈی ختم ہونے سے اس کی
قیمت فی لیٹر 176روپے ہوجائے گی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مسلسل بڑھتی
بے قدری بھی پیٹرولیم مصنوعات قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ وزیر اعظم
شہباز شریف کی جانب سے پیر16 مئی کو تمام اتحادی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس
بلانے کی توقع ہے جس میں اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے پاکستان کے سیاسی اور
معاشی مستقبل، حکومت کی آئینی مدت پوری کرنے یا جلد الیکشن میں جانے سے
متعلق متفقہ فیصلہ کیا جائے گاوزیر اعظم معاشی صورت حال پر بھی اتحادی
جماعتوں کے قائدین کو اعتماد میں لیں گے کیونکہ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ
پاکستان کے نیٹ انٹرنیشنل ریزرو (این آئی آر) گزشتہ تین ماہ کے دوران بڑے
پیمانے پر منفی میں چلے گئے ہیں جو واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں
کہ بحران کی شدت پالیسی سازوں کے تصور سے بھی باہر ہے اس بحران کی شدت میں
متعدد پہلو تھے جن میں پی او ایل اور بین الاقوامی منڈی میں اشیاء کی
قیمتوں میں اضافہ، روس اور یوکرین کے درمیان تنازعات وغیرہ شامل ہیں ایک ہم
وطن ماہر اقتصادیات کاکہناہے کہ برینٹ خام تیل 111 ڈالر فی بیرل یا 134
روپے فی لیٹر ہے۔ یہ صرف خام تیل کی قیمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیٹرول کی
قیمت بڑھانے اور آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ دوسرا
آپشن ڈیفالٹ، دیوالیہ پن، بڑے پیمانے پر قدر میں کمی ہے جس کے نتیجے میں
مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ 5 نکاتی حکومتی منصوبے کے بنیادی مقاصد
میں استحکام، اصلاحات، ٹیکسوں میں بگاڑ کو دور کرکے مساوات اور ترقی،
قیمتوں کا تعین اور مراعات شامل ہیں۔ لہٰذا بر آمدات پر مبنی ترقی، زیادہ
صنعت کاری اور زیادہ ملازمتوں کی تخلیق کے لیے وسائل کو نتیجہ خیز استعمال
میں لایا جائے۔ تاہم ادائیگی کے بحران کا موجودہ توازن پچھلے بحرانوں سے
مختلف ہے۔ اگلے انتخابات کی مدت کے بارے میں دیرپا غیر یقینی صورتحال پر کم
وضاحت ہے۔ اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، سست اقتصادی ترقی اور بڑھتی ہوئی
افراط زر کے ساتھ عالمی ماحول کم مددگار ہے پاکستان میں توانائی کی زیادہ
قیمت عالمی اجناس کے سپر سائیکل سے چلتی ہے اور روپے کی ایڈجسٹمنٹ کے اثر
سے مزید متاثر ہوتی ہے۔ سب سے بڑا کام قیمتوں پر نظر ثانی کرنا ہے جو تیل
کی کھپت کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے جو اپریل میں ایس پی ایل وائی کے
مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ہے اس پس منظر میں پاکستان میں توانائی کی قیمتوں
کا تعین کرنے کی پالیسی کو خزانے پر سبسڈی کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے کافی
سمجھداری کی ضرورت ہے تاہم آئی ایم ایف کو راضی کرنے اور مہنگائی کے دباؤ
سے دوچار شہریوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اس لئے لامحالہ حکومتی اتحاد
کو وقت سے پہلے عام انتخابات کی طرف جاناہوگا جو تحریک ِ انصاف کا سب سے
اہم مطالبہ بھی ہے اور مریم نواز کی رائے بھی لیکن عمران مخالف سیاسی
پارٹیوں کو خدشہ ہے کہ اگرعمران خان کا بیانیہ امریکی غلامی نامنظور مزید
مقبول ہوگیا تووہ پھر وزیر ِ اعظم بن جائیں گے جو حکومتی اتحاد کیلئے
انتہائی خوفناک ثابت ہو سکتاہے۔
|