اگرکسی ہم وطن سے پوچھا جائے کہ پاکستان کے بڑے
مسائل کیاہیں وہ یقینا بلاتامل کہہ اٹھے گا کہ لوڈشیڈنگ،کرپشن ،مہنگائی اور
قانون کی بے توقیری ۔۔ بلاشبہ یہی چار مسائل نہ صرف ملک بلکہ پوری قوم کے
گٹے گوڈوں میں سرایت کرچکے ہیں لوڈشیڈنگ نے تو گذشتہ نصف صدی سے پورے
پاکستان کی انڈسٹری کو جام کررکھاہے اس کے خلاف ہردورِ حکومت میں احتجاجی
مظاہرے ہوتے رہے ہیں تحریک انصاف کی حکومت میں تو صورت ِ حال کافی بہترتھی
پھرنہ جانے کیا ہوا موجودہ اتحادی حکومت کے آتے ہی بدترین لوڈشیڈنگ شروع
ہوگئی حالانکہ وزیر ِ اعظم شہبازشریف نے یکم مئی سے لوڈشیڈنگ زیرو کرنے
کااعلان کیا تھا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جووفاہوگیا جبکہ سابقہ وفاقی وزیر
خزانہ اسدعمرکا کہناہے کہ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال بجلی کی پیداوار
دس فیصد زیادہ ہوئی ہے ہمارے دورمیں ملک کے اندر معاشی پہیہ بڑی تیزی سے چل
رہا تھا کہ بیرونی مداخلت پر مبنی عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی، 2 ماہ میں
زرمبادلہ کے ذخائرمیں 37 فیصد کمی ہوئی ہے ، یہ اہل لوگ جو کہتے تھے
مہنگائی عمران خان کی نااہل ٹیم کی وجہ سے ہے اب ان لوگوں نے کیا کیا؟ فی
الحال حکومت کو کہیں سے پیسے نہیں مل رہے، وزیراعظم فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں
رکھتے، روپے کی قدر کے حوالے سے مفتاح اسماعیل اسحاق ڈار سے مشورے لے رہے
ہیں۔ اب حکومت کے پاس بیرون قرضہ لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کیونکہ
زرمبادلہ ذخائر میں 6 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ سابقہ وزیر خزانہ جوبھی
کہتے پھریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن حالات کی سنگینی کا اندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ڈالرڈبل سینچری کی نفسیاتی حدوں کو چھونے کے قریب
ہے جس کا مطلب خوفناک مہنگائی،قرضوں میں ہوشربا اضافہ اور معیشت کی مکمل
تباہی کیونکہ ان دو مہینوں میں روپے کی قیمت میں 20 روپے تک کمی سے اس سال
معاشی شرح نمو 6 فیصد تک پہنچے گا، 15 سال میں پہلی بار ہو گا کہ شرح نمو
مسلسل دو سال میں 5 فیصد سے زائد ہو گی معاشی ماہرین بتا رہے ہیں سری لنکا
کی معیشت جیسی صورتحال سے پاکستان ہفتوں دور ہے سٹاک مارکٹیں کرش ہوگئیں تو
معیشت دھڑام سے جاگرے گی جس سے ملک میں خانہ جنگی کاساماحول پیدا ہونے کا
اندیشہ ہے خدا نو کرے ایسی خوفناک صورت ِ حال پیدانہ ہوجائے کہیں بھوکے لوگ
اناج کی دکانیں نہ لوٹ لیں ۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ردعمل دیتے
ہوئے کہا کہ جب ہم نے حکومت چھوڑی تو پاکستان گندم ،چینی برآمد کر رہا تھا۔
پی ٹی آئی حکومت میں 1983- 84 کے بعد کپاس کی سب سے کم پیداوار ہوئی۔
پٹرولیم مصنوعات پر مکمل سبسڈی ختم ہونے سے قیمتیں پچاسی روپے پچاسی پیسے
فی لیٹر تک بڑھ جائیں گی ۔حقیقتاًپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے معاملے پر
حکومت بڑی مشکل میں پھنس گئی ،ایک طرف آئی ایم ایف کا دباؤ اور دوسری طرف
عوام کے شدید ردعمل کا خدشہ ہے پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی مکمل ختم،لیوی اور
سیلز ٹیکس زیرو رکھنے سے قیمتیں پچاسی روپے پچاسی پیسے فی لیٹر تک بڑھ
جائیں گی،اگر پٹرولیم مصنوعات پر لیوی اور سیلز ٹیکس بھی عائد کردیا جائے
تو قیمت میں اضافہ کہیں زیادہ بنتا ہے،وفاقی حکومت کو پٹرول اور ہائی سپیڈ
ڈیزل پر فی لیٹر 30 روپے تک لیوی لگانے کا اختیار ہے شدید عوامی ردِ عمل کے
پیش ِ نظر حکومت کے پاس یکمشت ساری سسبڈی ختم کرنا انتہائی مشکل فیصلہ ہوگا
حکومت پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنے کی آئی ایم ایف کو یقین دہانی
کراچکی ہے اس وقت حکومت پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی پچاسی روپے پچاسی فی لیٹر
تک دے رہی ہے ،حکومت پٹرول پر 16 مئی سے فی لیٹرپٹرول پرسبسڈی کی یہ رقم 45
روپے14پیسے تک پہنچ جائے گی،ساری سبسڈی ختم ہو نے کے نتیجے میں فی
لیٹرپٹرول کی قیمت 195روپے ہوجائیگی ہائی سپیڈ ڈیزل پرفی لیٹر 85 روپے 85
پیسے تک پہنچ چکی ہے مکمل سبسڈی ختم ہونے سے ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت
230روپے فی لیٹر تک پہنچ جائے گی جبکہ مٹی کے تیل پر فی لیٹر سبسڈی 50 روپے
44 پیسے ختم ہونے سے اس کی قیمت فی لیٹر 176روپے ہوجائے گی۔ ڈالر کے مقابلے
میں روپے کی مسلسل بڑھتی بے قدری بھی پیٹرولیم مصنوعات قیمتوں میں اضافے کی
ایک بڑی وجہ سے وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت دلدل سے بھری بندگلی میں
پہنچ چکی ہے جس سے نکلنا محال نظر آتاہے اب پاکستان کے آئندہ سیاسی اور
معاشی مستقبل، حکومت کی آئینی مدت پوری کرنے یا جلد الیکشن میں جانے سے
متعلق متفقہ فیصلہ کرنے کا عندیہ دیاجارہاہے جس کے لئے وزیر اعظم معاشی
صورت حال پر بھی اتحادی جماعتوں کے قائدین کو اعتماد میں لیں گے ۔پاکستان
کے نیٹ انٹرنیشنل ریزرو (این آئی آر) گزشتہ تین ماہ کے دوران بڑے پیمانے پر
منفی میں چلے گئے ہیں جو واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بحران
کی شدت پالیسی سازوں کے تصور سے بھی باہر ہے بحران کی شدت میں متعدد پہلو
ہیں جن میں پی او ایل اور بین الاقوامی منڈی میں اشیاء کی قیمتوں میں
اضافہ، روس اور یوکرین کے درمیان تنازعات وغیرہ شامل ہیں۔ اب موجودہ حکومت
کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ قیمتوں میں مرحلہ وار اضافہ کیا جائے کیونکہ
پیٹرول کی قیمت بڑھانے اور آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی چارہ
نہیں۔ دوسرا آپشن ڈیفالٹ، دیوالیہ پن، بڑے پیمانے پر قدر میں کمی ہے جس کے
نتیجے میں مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ ہرحکومت کی ترجیحات میں 5
بنیادی مقاصد ہوتے ہیں جن میں استحکام، اصلاحات، ٹیکسوں میں بگاڑ کو دور
کرکے مساوات اور ترقی، قیمتوں کا تعین اور مراعات شامل ہوتے ہیں اس لئے
برآمدات پر مبنی ترقی، زیادہ صنعت کاری اور زیادہ ملازمتوں کی تخلیق کے لیے
وسائل کو نتیجہ خیز استعمال میں لایا جاتا ہے اس وقت حکومت کواجناس کی
بڑھتی ہوئی قیمتوں، سست اقتصادی ترقی اور بڑھتی ہوئی افراط زر کے ساتھ
نامواقف عالمی ماحول میسرہے سب سے بڑا کام قیمتوں پر نظر ثانی کرنا ہے جو
انتہائی ضروری ہے لیکن آئی ایم ایف کو راضی کرنے اور مہنگائی کے دباؤ سے
دوچار شہریوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے یہ شہبازشریف حکومت کا کڑاامتحان
ہے۔
|