اعظم خان کی 27 مہینے کے بعد جیل سے رہا ئی وزیر اعلیٰ
یوگی ادیتیہ ناتھ کے منہ پر عدالت زور دار چانٹا ہے۔ سپریم کورٹ میں عبوری
ضمانت کی درخواست منظور ہونے کے ایک روز بعد اعظم خان سیتا پور جیل سے رہا
ہو گئے۔ وہ 2020 سے جیل میں تھے اس دوران یوپی پولیس نے ان کے خلاف 88
مقدمات درج کیے لیکن بالآخر اسے ہتھیار ڈالنا پڑا ۔ اعظم خان کو 86 مقدمات
میں ضمانت مل چکی تھی لیکن دشمن جائیداد سے متعلق ایک کیس میں پچھلے سال 4
دسمبر کو الہ آباد ہائی کورٹ نے سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا
تھا۔ اس کے 4 ماہ بعد اعظم خان نے عبوری ضمانت کے لیے سپریم کورٹ میں
درخواست دائر کی اور الزام لگایا کہ یوپی حکومت سیاسی انتقام کی وجہ سے جان
بوجھ کر ان کی ضمانت میں تاخیر کروا رہی ہے۔ اس دوران اعظم خان نے 2022 کا
ریاستی الیکشن جیل سے لڑا اور یوگی کے کمل پر بلڈوزر چلا کر اسے کچل دیا ۔
امت اعظم خان کے بیٹے عبداللہ اعظم کو بھی زبردست کامیابی سے نوازہ۔ اس طرح
ملت نے فسطائیوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ نہ ڈرنے والوں میں سے ہے اور نہ
جھکنے والی ہے۔
اعظم خان کی سیاسی زندگی پر ایک نظر ڈالیں تو وہ بلاشبہ اترپردیش کی سیاست
کے مغل اعظم نظر آتے ہیں ۔ 1980کے بعد 2019تک انہوں نے 9 مرتبہ اسمبلی
انتخاب میں اپنی کامیابی درج کرائی اور پھر پارلیمانی انتخاب میں بھی
کامیاب ہوئے ۔ اس دوران صرف 1995 میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ 1996میں انہیں
سماجوادی پارٹی نے ایوان بالا کا رکن بنادیا اور پھر ان کی کامیابیوں کا
سلسلہ پڑا۔ 2017 میں زبردست مودی لہر کے باوجود ان کے بیٹے عبداللہ کو بھی
اسمبلی کے انتخاب میں کامیابی ملی اور ضمنی انتخاب مین اہلیہ تنظیم فاطمہ
رامپور سے رکن اسمبلی منتخب ہوئیں ۔ اس تفصیل سے اعظم خان کی شہرت کا
اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اعظم خان کی مقبولیت کے پیچھے ان کی شخصیت و دلیری
اور سماجی وتعلیمی خدمات کا بہت بڑا حصہ ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بعد مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کا قیام اعظم
خان کا وہ کارنامہ ہے جس کے لیے ان کا نام طلائی حروف کے اندر تاریخ میں
رقم ہوچکا ہے۔ 300ایکڑ پر پھیلی اس یونیورسٹی میں فی الحال 3000ہزار سے
زیادہ طلبا زیر تعلیم ہیں اور ہنوز توسیع و ارتقا کا عمل جاری ہے۔
اعظم خان کا یہی عظیم کارنامہ دراصل ان کے دشمنوں کی آنکھوں کا کانٹا بن
گیا اور جب وہ انتخابی میدان میں پوری طرح ناکام ہوگئے تو انہیں جھوٹے
مقدمات میں پھنسانے کے جال بچھانے لگے۔ 19؍جولائی 2019 کو یہ چونکانے والی
خبر ذرائع ابلاغ میں آئی کہ اتر پردیش کی رام پور ضلع انتظامیہ نے رکن
پارلیمان اعظم خان اور ان کے ساتھی آل حسن خان کا نام ریاستی حکومت کے لینڈ
مافیا پورٹل پر درج کرایا ہے۔ اس مذموم حرکت کی بنیاد کسانوں کے ذریعہ داخل
کردہ اس ایف آئی آر کو بنایا گیا کہ جس میں اعظم خان پر جوہر یونیورسٹی کے
لیےان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا بے بنیاد الزام لگایا گیا ۔سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ یونیورسٹی کی تعمیر کا کام 2006 میں شروع ہوا ۔ اس کے بعد 2007
سے 2012 تک سماجوادی پارٹی اقتدار میں نہیں تھی بلکہ مایا وتی کا راج تھا
لیکن اس دوران کوئی ایف آئی آر درج کیوں درج نہیں کرائی گئی ۔ اس کے لیے
اگر سماجوادی پارٹی کا خوف ذمہ دار ہے تب بھی یوگی سرکار کے اقتدار
سنبھالنے کے بعد ڈھائی سال کی مزید تاخیر چہ معنیٰ دارد ؟ اس سے ظاہر ہوتا
ہے کہ یہ ایک سیاسی سازش کا حصہ تھا۔
اعظم خان اور ان کے ساتھی آل حسن پر ایک ہفتے کے اندر 26 کسانوں نے یکے بعد
دیگرے 13 مقدمات درج کیے اور یہ الزام لگایا کہ انہوں نے محمد علی جوہر
یونیورسٹی کی تعمیرکے لیے ان سے پانچ ہزار ہیکٹیئر زمین لے لی۔ رام پور کے
ایس ڈی ایم پریم پرکاش تواری نے مجھرا عالیہ گنج گاؤں کے مقامی لوگوں کی
جانب سے 13 ایف آئی آر درج کرانے کے تصدیق کی ۔رام پور کے ایس پی اجئے پال
شرما نے اعظم خان کے خلاف 23 ایف آئی آر کا ذکر کرکے اس معاملے کی جانچ کے
لئے ایک ٹیم تشکیل دینے کی اطلاع دی ۔ یعنی دیکھتے دیکھتے دس کا اضافہ
ہوچکا تھا ۔ اعظم خان نے اسی وقت رام پور کے ڈی ایم اننجے کمار سنگھ پر ان
کو بدنام کرنے اور شہرت حاصل کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اس کو ایک سازش قرار
دے دیا ہے۔ان کے مطابق یہ سیاسی بدلے کے لئے قانون کا غلط استعمال کا
معاملہ تھا ۔ افسوس کہ اس وقت اعظم خان نے ملک کی عدلیہ پر جس اعتماد کا
اظہار کیا تھا اس کو آگے چل کر ٹھیس لگی ۔ ان کا کہنا تھا محمد علی جوہر
یونیورسٹی کی تعمیر کے لئے زمینوں کی خرید کے لئے چیک کے ذریعے کسانوں کو
ادائیگی کی گئی تھی اور اس کا ثبوت وہ عدالت میں پیش کردیں گے۔ سماجوادی
پارٹی نے لکھنؤ میں اسمبلی ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کرکے ہوئے ان تمام معاملوں
کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ۔
اس سانحہ کے بعد 26؍ فروری 2020 کو اعظم خان کی گرفتاری عمل میں آئی ۔ ان
کے ساتھ اہلیہ تنظیم فاطمہ اور بیٹےعبداللہ اعظم خان کو بھی نقلی دستاویزات
کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا ۔حیرت کی بات یہ ہے جس ملک میں وزیر اعظم
جعلی ڈگری رکھتا ہے وہاں بیتے کے نقلی برتھ سرٹیفکیٹ پررکن اسمبلی ماں اور
رکن پارلیمان باپ کی بھی گرفتاری عمل میں آگئی۔ اسی کو کہتے ہیں اندھی
نگری چوپٹ راج۔ اس گرفتاری کے بعد پولیس افسران نے نظم و نسق کا حوالہ دیتے
ہوئے اعظم خان کے کنبے کو رامپور سے دور کسی اور ضلع جیل میں منتقل کرنے کے
کی درخواست کی جسے بصد شوق قبول کرلیا گیا۔ 7 ؍مارچ 2020 تک 16 مقدمات سے
شروع ہونے والا سلسلہ 90 تک پہنچ گیا ۔ ان جھوٹے مقدمات میں زمین پر قبضہ
سے لے کر بکری چوری تک کا الزام شامل تھا ۔ اب اسے سیاسی کینہ پروری نہیں
تو کیا کہا جائے؟
اس دوران اعظم خان کے خلاف درج 90 مقدمات میں 86 مقدمات میں ضمانت منظور
ہوگئی ۔ 13؍اکتوبر 2020 کو علی گڑھ کے ٹرائل کورٹ نے اہلیہ اور بیٹے کی
فوری رہا ئی کا حکم جبکہ اعظم خان کو شکایت کنندہ کا بیان درج کرنے کے بعد
رہاکرنے کاحکم دیا لیکن 26؍ نومبر 2020 کو الہ آباد ہائی کورٹ کی سنگل بنچ
نے اسے عرضی خارج کردیا۔ اس کے بعد 21 دسمبر 2020 کو بالآخر دس ماہ کی
قیدو بند کے بعد تنظیم فاطمہ کو ضمانت مل گئی اور وہ رہا ہوگئیں۔ 60 سال کی
عمر تک سرکاری کالج میں پڑھانے والی رکن اسمبلی ماضی میں ایوان پارلیمان کی
رکن بھی رہ چکی ہیں۔ ان کو جیل میں عام لوگوں کے ساتھ رکھا گیا اور رہائی
سے قبل اپنے شوہر اور بیٹے سے ملنے کی جازت بھی نہیں دی گئی ۔ اس کے باوجود
رہا ہونے کے بعد انہوں نے عدلیہ پر اعتماد جتاتے ہوئے اسے جمہوریت کی فتح
قرار دیا ۔ انہوں نےاس امید کا اظہار بھی کیا کہ بہت جلد ان کا بیٹا اور
خاوند بھی رہا ہوجائیں گے ۔ تنظیم فاطمہ نے کہا کہ ان کی رہائی اس بات کا
ثبوت ہے کہ نفرت کی سیاست کرنے والے آخر سچ کے آگے ہار جاتے ہیں۔
الہ باد ہائی کو رٹ نے جب اعظم خان اور ان کے بیٹے کی رہائی کا حکم دیا تو
اس کے خلاف 11 جنوری 2021 کو یو پی سرکار سپریم کورٹ میں پہنچ گئی ۔ اس وقت
تو سپریم کورٹ نے کسان تحریک کا بہانہ بناکر معاملے کو التوا میں ڈال دیا
جو ہنوز ٹل رہا ہے کیونکہ حکومت نہیں چاہتی ورنہ ارنب کے لیے تو تابڑ توڑ
سپریم کورت کے دروازے رات 8 بجے کھل جاتے ہیں۔ اتر پردیش کے صوبائی
انتخابات کی قربت نے سماجوادی پارٹی کو اعظم خان کی کمی کا احساس دلایا ۔
مارچ 2021ایس پی کے قومی صدر اور سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے رامپور سے
مشن 2022 کا آغاز کرتے ہوئے سائیکل ریلی نکالی ۔ یہ سائیکل ریلی محمد علی
جوہر یونیورسٹی سے شروع کرکے12 کلومیٹر دور امبیڈکر پارک پر ختم کی گئی۔ اس
موقع پر سماجوادی پارٹی کے ضلع صدر فیضان احمد نے کہا کہ سماج وادی پارٹی
کا مشن ہے، اعظم خان کو رہائی دلانااپنی حکومت بنانا ہے۔ انہوں نے محمد علی
جوہر یونیورسٹی کے وجود پر منڈلاتے خطرات کو بھی سماجوادی حکومت لاکر دور
کرنے کے عزم کو دوہرایا ۔
عدالت اور سیاست کے اس کھیل میں 30 اپریل کو اعظم خان ان کے بیٹے عبداللہ
کورونا سے متاثر ہوگئے۔ ان کی طبیعت بگڑ جانے کے سبب انہیں10مئی کو لکھنو
کے میدانتا اسپتال میں داخل کیا گیا۔17؍ مئی کو کو طبیعت سنبھلی تو جنرل
وارڈ میں لایا گیا ۔ اس طرح عبداللہ اعظم کی کورونا رپورٹ تو نیگیٹو آگئی
مگر 28مئی کو اعظم خان کی طبیعت پھر بگڑی اورا نہیں نازک حالت میں آئی سی
یوکے اندر بھرتی کرنا پڑا۔ فی الحال ان کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے اور
وہ آکسیجن سپورٹ پر ہیںاطلاعات کے مطابق وائرس نے ان کے پھیپھڑوں کو کافی
متاثر کیا ہے اور انہیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے۔ اعظم خان کی صحت
کے لیے ملت کا بچہ بچہ اور تمام انسانیت نواز لوگ دعا گو ہیں ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر کووڈ وبا کی دوسری لہر کے پیش
نظر 27 مئی 2021 کو اتر پردیش کی جیلوں میں سزا کاٹنے والے اور زیر غور جن
10 ہزار سے زائد قیدیوں کو یا تو عبوری ضمانت مل گئی ہے یا پیرول پر رِہا
کر دیا گیا لیکن ان میں اعظم خان یا ان کے بیٹے کا نام شامل نہیں ہے ۔ اس
کو سیاسی انتقام نہ کہا جائے تو کیا نام دیا جائے۔ یوگی سرکار یہ سمجھ رہی
ہے کہ ایسا کرکے وہ کوئی نیک نامی بٹور رہی ہے لیکن اسے یاد رکھنا چاہیے کہ
انہیں حرکتوں سے بی جے پی کو مغربی بنگال میں کراری ہار کا سامنا کرنا پڑا
اور اتر پردیش میں اس کا اور بھی برا حال ہوگا۔ اعظم خان کی خدمات کو اس
طرح کی زیادتی سے مٹایا نہیں جاسکتا، انہوں نے علم کا جو چراغ روشن کیا ہے
اس کی روشنی وقت کے ساتھ پھیلتی چلی جائے گی اور ان کا نام روشن ہوتا رہے
گا ۔ اعظم خان کی رہائی پر مجروح سلطانپوری کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
روک سکتا ہمیں زندان بلا کیا مجروحؔ
ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں
|