پاک سرزمین پارٹی کے چئیرمین مصطفی کمال جو کہ اپنی
سچائی،صاف گوئی، بے باکی اور دلیرانہ طرز سیاست اختیار کرنے کے حوالے سے
جانے پہچانے جاتے ہیں اور جو گزشتہ 6 سال سے ببانگ دہل اپنی سابقہ سیاسی
جماعت ایم کیو ایم اور اس کی سیاسی قیادت سمیت پاکستان پیپلز پارٹی اور آصف
زرداری پر اپنی تنقید کے تیر برساتے ہوئے چلے آرہے تھے انہوں نے گزشتہ چند
ماہ کے دوران اپنی تنقید کا رخ اچانک عمران خان کی طرف موڑتے ہوئے پے درپے
مختلف پریس کانفرسز میں پی ٹی آئی کی حکومت اور خاص طور پر عمران خان کی
ذات کو شدید تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیاہے جو کہ ان کے بنیادی بیس
کیمپ کراچی اور حیدرآباد کی سیاست کے حوالے سے بالکل غیر ضروری طرز عمل
دکھائی دیتاہے جس کی نہ ان کو ضرورت تھی اور نہ ہی عمران خان پر تنقید کے
نشتر چلانے سے ان کو کسی بھی قسم کا کوئی سیاسی فائدہ ہونے کا امکان ہے اس
لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ سیاسی صورتحال اور عوامی موڈ کے حوالے سے
مصطفی کمال کا عمران خان کی ذات،طرز سیاست اور ان کی حکمرانی پر شدید
تنقیدکرنا ایک بڑی سیاسی غلطی ہے جس کا اندازہ انہیں آئندہ ہونے والے عام
انتخابات کے نتائج سے ہو جائے گا۔
مسلم لیگ نون،پیپلز پارٹی اور فضل الرحمٰن کے ہمراہ ایم کیو ایم اور دیگر
علاقائی سیاسی پارٹیاں ایک سیاسی اتحاد’’پی ڈیم اے‘‘ کے تحت عمران خان کے
خلاف جو بیان بازی،الزامات اور کردارکشی کی سیاست کررہی ہیں اس کی وجہ سے ا
ن تمام جماعتوں کی سیاسی حیثیت اور عوامی مقبولیت بری طرح متاثر ہوئی ہے
اور عوام کی اکثریت ان کے طرز سیاست سے بیزار نظرآتی ہے اور پھرجس غلط
طریقے سے یہ سیاستدان امریکہ کی ہدایت پر عمران خان کے خلاف سازش کرکے
بیرونی مداخلت والے پلان پر عمل کرنے کے نتیجے میں بر سر اقتدار آئے ہیں اس
نے ان تمام سیاسی قائدین کو عوام کے دلوں سے اتار دیا ہے اور خاص طور پر
عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے موقع پر پی ٹی آئی اور عمران خان سے غداری
کرنے والے 20 سے زائد لوٹے سیاست دان (جن پر کروڑوں روپے رشوت لے کر
وفاداری تبدیل کرنے کے الزامات عائد ہیں) سے عوامی سطح پر شدید نفرت کا
اظہار کیا جارہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب عمران خان نے امریکہ کی جانب سے بھیجے
جانے والے دھمکی آمیز مراسلے کی تفصیلات کو عوام کو اتنے اچھے،سہل اور واضح
انداز میں سمجھا دیا ہے کہ اب عوام کی اکثریت عمران خان کے بیانیے پر آنکھ
بند کرکے یقین کرچکی ہے جس کی وجہ عمران خان کا پاکستان میں ایک طویل عرصہ
کے بعد نئے ڈیمز کی تعمیرکا آغاز کرکے توانائی کے مسائل کو حل کرنے کی جانب
قدم بڑھانااور عمران خان کا امریکہ کے دباؤ میں نہ آنا،ذاتی مفادات حاصل
کرنے کے لیے بھارت سے تجارت نہ کرنا،موجودہ افغان حکومت کودنیا بھر سے
تسلیم کروانے کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا،روس اور چین سے تعلقات بہتر
بناتے ہوئے معاشی فائدے حاصل کرنے کی طرف قدم بڑھانا، امریکی دباؤ کے
باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا، امریکہ کے منع کرنے کے باوجود
روس کا دورہ کرنا اور یوکرین پر روس کے حملے پر نیوٹرل رہنا، پاکستان میں
کسی بھی جگہ امریکہ کو فوجی اڈے قائم نہ کرنے دینا، ڈرون حملے کرنے کی
اجازت نہ دینااور اسلامی ممالک کو متحد کرنے کی سنجیدہ کوششیں کرکے
ذوالفقار علی بھٹو کی طرح مسلم بلاک بنا کر امریکہ کی غلامی سے نجات حاصل
کرنا تھا۔ یہ جو سارے دلیرانہ اور انقلابی اقدامات عمران خان نے کیے وہ
کوئی محب وطن،مخلص، نڈراور انتہائی حوصلہ مند حکمران ہی کرسکتا ہیاور اس
طرح کے انقلابی اور دلیرانہ اقدامات کی وجہ سے امریکہ نے تو ہر قیمت پر
عمران خان کو اقتدار سے ہٹاکر یا اسے قتل کرواکر سزا دینی ہی تھی جییسا کہ
امریکہ ماضی میں پاکستان سمیت تمام اہم مسلم ممالک کے غیور،دلیر اور محب
وطن حکمرانوں کے ساتھ کرتا چلا آیا ہے اور اس بار پھر امریکہ کوپاکستان سے
ہی میرصادق اور میر جعفرجیسے غدار مل گئے جن کی مدد سے ذوالفقار علی بھٹو
کی طرح?عمران خان کو بھی وزیراعظم کے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے لیکن اﷲ کا
شکر ہے کہ امریکہ بھٹو کی طرح عمران خان کو جان سے مارنے میں تا?حال کامیاب
نہیں ہوسکا۔
مذکورہ بالا حقائق اورپاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں مصطفی
کمال کی عمران خان کے خلاف متعدد تند و تیز پریس کانفرنسز جس میں عمران خان
کی ذات کے حوالے سے ان کے ماضی کے کچھ واقعات کا تذکرہ،ناجائز بیٹی ہونے کا
طعنہ، عمران خان کا اپنی اولاد کو اپنی سابقہ بیوی کے پاس چھوڑ دینا اور ان
کو پاکستان نہ لانا جیسے ذاتی معاملات پر تنقید، ان پر یہودی ہونے یا یہودی
لابی کا لایا ہوا ہونے کا گھسا پٹا الزام، ان کو سپر ہیومن ہونے کا طعنہ
دینا اور ان ہی باتوں کو دوہرانا جو کہ پی ڈی ایم کی قیادت ایک عرصہ سے
کرتی چلی آرہی ہے لیکن عمران خان کا کچھ بھی نہیں بگاڑسکی اور عوامی سطح پر
اس وقت بھی سب سے مقبول ترین سیاسی رہنما عمران خان ہی ہے۔ لہذا اس وقت
مصطفی کمال کی عمران خان پر شدید تنقید غیرضروری،غیر موثر اور بے وقت کی
راگنی ہے جس سے مصطفی کمال کو کراچی یا پاکستان میں کسی بھی جگہ کوئی سیاسی
فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاک سرزمین پارٹی میں
مصطفی کمال کے ارد گرد جو لوگ اس وقت موجود ہیں یا تو ان میں سے کسی کے
مشورے پر،یا پھر کسی خفیہ طاقت جسے عرف عام میں (خلائی مخلوق یا محکمہ
زراعت کہا جاتا ہے) کی جانب سے کسی اشارے یا تھپکی کی وجہ سے مصطفی کمال اس
بری طرح عمران خان کی مخالفت کرتے نظر آرہے ہیں کہ مصطفی کمال کے پرانے
ہمدرد اور ان کا اپنے قلم کے ذریعے مسلسل ساتھ دینے والے لکھاری بھی موجودہ
سیاسی صورتحال میں مصطفی کمال کے اس عمران خان مخالف سیاسی موقف پر حیرت
زدہ ہیں۔
مصطفی کمال جیسے تعلیم یافتہ،انتہائی قابل،بہترین سوچ رکھنے والے ایک محب
وطن سیاست دان کی طرف سے پاکستان کے ایک اور محب وطن،قابل اور انتہائی
مقبول سیاسی رہنما عمران خان کی مخالفت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کیونکہ
عمران خان اور مصطفی کمال کا آپس میں نہ کوئی موازنہ ہے اور نہ کوئی مقابلہ
اور نہ ہی یہ دونوں لیڈر ایک دوسرے کے سیاسی مخالف یا دشمن رہے ہیں۔ پھر
آخر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا بینڈ بجانے والے مصطفی کمال کو اچانک
عمران خان کے خلاف صف آرا ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ پاک سرزمین پارٹی کی ایک
رہنما سے اس حوالے سے بات ہوئی تو ان کے مطابق’’کراچی میں عمران خان نے ہم
سے ہماری سیٹیں چھینی تھیں اب مصطفی کمال پریس کانفرس کرکے عمران خان کی
کلاس لیں گے‘‘۔ یعنی مصطفی کمال کا عمران خان کے خلاف تنقیدکا محاظ کھولنا
اس چیز کا بدلہ ہے۔ اس حوالے سے راقم الحرو ف کا تجزیہ یہ ہے کہ پہلی بات
تویہ کہ گزشتہ عام انتخابات میں کراچی سے عمران خان نے جو سیٹیں چھینی ہیں
وہ ایم کیو ایم سے چھینی ہیں۔مصطفی کمال یا پاک سرزمین پارٹی سے نہیں
چھینی۔لہذا عمران خان کے خلاف تنقید کے تیر برسانے کا حق یا فائدہ ایم کیو
ایم کو تو ہوسکتا ہے مصطفی کمال یا پی ایس پی کو نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ
ایم کیو ایم چھوڑ کر پاک سرزمین پارٹی قائم کرنے کے بعد سے لے کر آج تک
عوامی مقبولیت کے باوجود مصطفی کمال سمیت پی ایس پی کا کوئی بھی لیڈر یا
نمائندہ کسی بھی انتخابی میدان میں فتح حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اسی
انتخابی ناکامی کو دیکھ کر مصطفی کمال کے بعض قریبی ساتھی جوپاک سرزمین
پارٹی کے قیام کے وقت ان کے دائیں بائیں نظر آتے تھے وہ پی ایس پی چھوڑ گئے
اور ابھی کچھ ہی دن پہلے سوشل میڈیا پر یہ افواہ پھیلی کے وسیم آفتاب،رضا
ہارون،ڈاکٹر صغیر اور دیگر عنقریب دوبارہ ایم کیو ایم جوائن کرنے جاررہے
ہیں۔ واﷲ عالم بالصواب۔
اس وقت سارے ملک کے عوام عمران خان کے بیانئے کے ساتھ جس شدت اور جذباتیت
کیساتھ جڑے ہوئے ہیں اور عمران خان کے ملک بھر میں ہونے والے جلسوں میں
لاکھوں کی تعداد میں شرکت کرکے عمران خان کے اختیار کردہ موقت کی تائید و
توثیق کررہے ہیں وہ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل
مفاد پرست سیاسی جماعتوں (جن میں آصف زردای کی پاکستان پیپلز پارٹی، نواز
شریف کی مسلم لیگ نون اور مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیسی جماعت شامل
ہے) کا عمران خان مخالف بیانیہ بری طرح پٹ چکا ہے اور باشعور عوام کی
اکثریت نے اسے مسترد کرکے اپنا واضح فیصلہ صادر کردیا ہے کہ امریکی مداخلت
اور اندرونی سازش کے نتیجے میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹا کر یہ جو
امپورٹڈ،کرپٹ اور امریکی غلام سیاسی رہنماوں پر مشتمل بھان متی کے کنبے کو
پاکستانی عوام پر زبردستی اقتدار میں لایا گیا ہے یہ فیصلہ ملک اور قوم کے
مفاد میں نہیں ہے لہذا نگران حکومت قائم کرتے ہوئے فوری طور پر نئے عام
انتخابات کا اعلان کیا جائے۔
عمران خان نے گزشتہ چند تقاریر میں جس طرح عدالت اور اداروں کی توجہ ملک
میں ہر سطح پر ہونے والی ناانصافی کی طرف مبذول کروائی ہے اس کے بھی مثبت
نتائج آنا شروع ہوچکے ہیں اور حال ہی میں ہماری سپریم کورٹ اور الیکشن
کمیشن نے جو چند فیصلے کییہیں وہ عمران خان کے سچائی پر مبنی موقف کی فتح
ہے.اس وقت لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال جوبتدریج عمران خان کے
موقف اور بیانیے کو مظبوط اور مقبول ترین کرتی چلی جاری ہے ان حالات میں
کسی چھوٹی سیاسی جماعت کے لیڈر یا قائد کی جانب سے (جن کے اپنے جلسوں میں
اگر 20 ہزار افراد بھی جمع ہوجائیں تو وہ اور ان کے ساتھی خوشی سے پھولے
نہیں سماتے) ان کو ایک ایسے خوددار اور محب وطن سیاسی رہنما کی مخالفت زیب
نہیں دیتی جس کے جلسوں میں?گزشتہ ایک ماہ سے لاکھوں کی تعداد میں عوام شریک
ہو رہے ہوں اور جس کی ایک آواز پر لوگ سڑکوں،چوراہوں اور جلسہ گاہوں میں
پہنچ کراپنے پسندیدہ قائد کے حکم پر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔
عمران خان کے خلاف تو اس وقت ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی
اتنی شدید تنقید نہیں کی جارہی جتنی مصطفٰی کمال کی جانب سے ہورہی ہے اور
یہ وہ اہم ترین پہلو ہے جس پر مصطفی کمال کو ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ ضرور
سوچنا چاہیے کہ کوئی بھی سیاسی لیڈر اپنی عوامی مقبولیت میں کمی نہیں چاہتا
پھر یہ غلطی مصفطی کمال سے کیوں سرزد ہوئی کہ نوجونوں کی بہت بڑی تعداد جو
مصطفی کمال کے طرز سیاست اور فلسفے کی حامی تھی اور ان سے بہت محبت کرتی
تھی وہ مصطفی کمال کے عمران خان کے خلاف باقاعدہ ایک محاذ بنا کر کھڑے ہونے
پر حیرت اور افسوس سے دوچار ہے۔
سب جانتے ہیں کہ آج سے6 سال پہلے جب مصطفی کمال نے ایم کیو ایم اور الطاف
حسین کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے اپنے نئے طرز سیاست کا آغاز کیا تھا
تو ان کی کراچی میں ہونے والی اس اہم ترین پریس کانفرنس کے بعد ان کا سب سے
پہلا انٹرویو راقم الحروف نے لیا جو کراچی کے کئی مشہور اخبارات میں شائع
ہوا جبکہ جب مصطفی کمال نے اپنی نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کی بنیاد
رکھی تو ان کی اس مثبت کوشش پر سب سے پہلے کالم لکھنے کا اعزاز بھی مجھے ہی
حاصل ہوا اور اس وقت سے لے کر آج تک میں مختلف اخبارات، رسائل اور ویب
سائیٹس پر مصطفی کمال کی شخصیت اور طرزسیاست پر مسلسل مضامین لکھتا چلا
آرہا ہوں لہذا میں امید کرتا ہوں کہ میری جانب سے اس تحریر کے ذریعے کی گئی
مثبت تنقید کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا کہ سیاسی رہنما کو اپنے چمچوں
کی بجائے ان لوگوں کی رائے کو اہمیت دینی چاہیے جو بغیر کسی لالچ کے ان کے
ساتھ مخلص ہوں اور یہ بات خود مصطفی کمال نے بھی اپنی تقاریر اور پریس
کانفرنسز میں کئی بار کہی کہ جب وہ ایم کیو ایم میں تھے تو الطاف حسین کے
خطاب کے دوران ان کی غلط باتوں پر ببی پارٹی رہنما ’’جی بھائی!،جی
بھائی!’’. کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے الطاف حسین کو اپنی خامیوں?کو اندازہ
نہ ہوسکا اور باالاخرمصطفی کمال اور انیس قائم خانی کو الطاف مخالف بیانیہ
اختیار کرنا پڑا تاکہ اردو بولنے والوں کو مذید تباہی اور بربادی سے بچایا
جاسکے. اﷲ مجھ سمیت ہر پاکستانی کو اور خاص طور پر ہر سیاسی و مذہبی رہنما
کو ہدایت عطا فرمائے اور صحیح وقت پر صحیح موقف اختیار کرنے کی توفیق عطا
فرمائے.(آمین)۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ مصطفی کمال نے اپنی
نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کے پلیٹ فارم سے لسانی سیاست کو دفن کرتے
ہوئے پاکستانیت پر مبنی سیاست کو فروغ دینے کے لیے مسلسل کامیاب کوششیں کی
ہیں اور ان کی پاک سرزمین پارٹی میں بہت سے سندھی، پنجابی،پٹھان اور بلوچی
لوگ بھی شامل ہوئے ہیں لیکن چونکہ ان کا دائرہ اثر فی الوقت اردوبولنے والے
علاقوں تک محدود ہے اس لیے ان کو زیادہ ووٹ ملنے کی امید بھی کراچی اور
حیدرآباد سے ہی رکھنی چاہیے۔ البتہ مزید کچھ سال اگر وہ اسی طرح ملک گیر
پاکستانیت پر مبنی سیاست کرتے رہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ انہیں کراچی اور
حیدرآباد کے علاوہ بھی پاکستان کے دیگر شہروں سے ووٹ ملے گا اور وہ ایک
قومی سطح کے لیڈر بننے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
مصطفی کمال کی دلیرانہ قیادت،بے باکانہ سیاست، ایمانداری اور ان کی اہلیت
اور قابلیت پر تو کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ کراچی کے مئیر
کے طور پر مصطفی کمال کا سابقہ ٹریک ریکارڈ بہت شاندار اور انتہائی قابل
تعریف ہے۔البتہ ان کے طرز سیاست اور سیاسی فلسفے سے اگر بعض حلقوں کو
اختلاف ہے یا ان کی سابقہ پارٹی ایم کیو ایم کے قائدین اور کارکنان اگر ان
کو الطاف حسین کے غدار کے طور پردیکھتے ہوئے ان کے ساتھ آنے سے کتراتے ہیں
یا اردو بولنے والے باشندے ان کو انتخابات کے موقع پر بہت کم ووٹ دیتے ہیں
تو سیاست میں تو یہ سب چلتا ہی رہتا ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ مصطفی کمال اس
تمام تر سچویشن کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے سیاسی نظریہ کے فروغ کے لیے مسلسل
کوشاں ہیں۔ انہیں بھی اس بات کا علم ہے کہ اردو بولنے والوں کا ایک طبقہ ان
کو ایم کیو ایم اور الطاف حسین کا غدار سمجھتا ہے لیکن وہ اس بات کی پرواہ
نہ کرتے ہوئے کراچی اور حیدرآباد سمیت تقریبا پورے پاکستان میں جلسے جلوس
کرکے عوام تک اپنا امن اور محبت کا پیغام پہنچاچکے ہیں۔ وہ عوام میں کافی
مقبول بھی ہیں لیکن ابھی تک ہونے والے ہر طرح کے انتخابات میں انہیں ناکامی
کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ خود یا ان کی پارٹی کا کوئی بھی رہنما ووٹ لے
کر کسی بھی بلدیاتی ادارے اورصوبائی یا قومی اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکا۔جس
پر مجھ سمیت لسانی سیاست سے بیزار ہر محب وطن پاکستانی کو افسوس ہے۔ مصطفی
کمال کا پاک سرزمین پارٹی کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوکر سندھ اسمبلی میں
پہنچنا کم سے کم اردو بولنے والوں کے لیے بہت اہم اور ضروری ہے۔ اﷲ تعالیٰ
وہ وقت جلد لائے جب مصطفی کمال عام انتخابات میں کراچی سے منتخب ہوکر
اسمبلی میں پہنچ کر کراچی کے باشندوں کے دیرینہ مسائل کو حل کروا سکیں کہ
مصطفی کمال کا کراچی کے مئیر کی حیثیت سے سابقہ ریکارڈ بہت شاندار اور قابل
ستائش ہے۔
عمران خان کے بعد اگر کسی سیاسی لیڈر کو سچا اور اچھا سمجھا جاتا ہے اور
عوام اس کی باتوں کو غور سے سنتے ہیں تو اس کا نام مصطفی کمال ہے اس لیے
ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں مصطفی کمال کی جانب سے پی ڈی ایم کے
قائدین کی طرح عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے پر ہر محب وطن
پاکستانی کو حیرت اور تشویش ہے کہ بغیر کسی معقول وجہ کہ اس طرح کی مخالفت
سے ان کو یا ان کی سیاسی پارٹی کو کسی بی قسم کا کوئی فائد ہ پہنچنے کا دور
دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا بلکہ اس وقت پاکستانی عوام جس جوش و خروش
کے ساتھ عمران خان کے بیانیے، ’’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘‘ اور ’’امریکیو!
کیا ہم تمہارے غلام ہیں کہ جو تم کہو ہم مان لیں‘‘ کے ساتھ جڑی ہوئی نظر
آرہی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔عمران خان پاکستان کے ہر شہر میں اپنے
اس بیانئے کے مطابق جلسے اور جلوس کررہا ہے اور ان جلسوں میں عوام لاکھوں
کی تعداد میں شریک ہوکر اس کا ساتھ دیتی ہوئی نظر آرہی ہے جبکہ عمران خان
کے موقف کو نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا میں سراہا جارہا ہے اور ساسی
تجزیہ نگار اور مبصرین بھی یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ اگر عمران خان کے مطالبے
پر فوری الیکشن کرادیے گئے تو اس بار وہ پہلے سے زیادہ بھرپور عوامی حمایت
لے کر بڑی اکثریت کے ساتھ برسراقتدار آئے گا اورپھر عمران خان کو کسی بھی
چھوٹی علاقائی سیاسی جماعت کی بلیک میلنگ کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑے گا تو
پھر وہ جو کچھ بھرپور طاقت سے کرے گا وہ انشااﷲ ساری دنیا دیکھے گی اور پی
ڈی ایم میں شامل مفاد پرست اور کرپٹ سیاست دانوں کا ٹولہ انشااﷲ جیلوں میں
جانے کے بعد سزائیں بھی بھگتے گا اور یوں قوم کو ایک طویل عرصہ سے پاکستان
کا بیڑہ غرق کرنے والے سیاست دانوں سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی اور
پاکستان ہر طرح کی بیرونی غلامی سے آزاد ہوکراپنے قدموں پر کھڑا ہوجائے گا
اور کچھ ہی عرصہ میں ایشین ٹائیگر بن جائے گا بس اﷲ تعالی عمران خان کو
کامیابی اورلمبی زندگی عطا فرمائے (آمین)۔
کسی بھی لیڈر یا حکمران کی حمایت یا مخالفت کرنے کی کچھ وجوہات ہوتی
ہیں،عوام اب باشعور ہوچکی ہے،صحیح اور غلط رہنما کو پہچان جاتی ہے کسی بھی
لیڈر یا حکمران کی حمایت یا مخالفت میں کچھ بھی بولا جائے عوام صرف اسی بات
پر کان دھرتی ہے جو ملک اور قوم کے مفاد میں کی جاتی ہے۔ذاتی مفادات کی وجہ
سے کسی کی مخالفت کرنے سے کچھ نہیں ہوتا جیسا کہ حال ہی میں عوامی طرز عمل
نے یہ بات اچھی طرح واضح کردی ہے کہ وہ سچے محب وطن اور خود دار پاکستانی
لیڈر کا ہی ساتھ دیں گے وہ کسی بھی ایسے لیڈر یا سیاسی جماعت کا ساتھ دینے
پر آمادہ نہیں جو امریکہ کو سپر پاور سمجھتے ہوئے اس کے آگے گھٹنے ٹیک کر
اس کی غلامی اخیتار کرنے پر آمادہ ہو۔ عمران خان نے عوام کو ہر طرح کے خوف
اور لالچ سے آزاد کرنے کا جو سبق گزشتہ ایک ماہ کے دوران پڑھایا ہے وہ سب
کے ذہنوں اور دلوں میں اتر چکا ہے اب کوئی ڈرامہ باز سیاسی رہنما عوام کو
اپنی چکنی چپڑی باتوں سے نہیں بہلا سکتا۔عمران خان کی سیاسی جلسوں میں
مذہبی تبیلغ کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ’’زندگی اور موت اﷲ کے ہاتھ میں
ہے‘‘۔’’رزق اﷲ دیتا ہے‘‘۔اور’’انسان کو نیوٹرل رہنے کی بجائے ہمیشہ سچ اور
حق کا ساتھ دینا چاہیے’’. یہ باتیں سوفیصد سچی اور اسلامی تعلیمات کے عین
مطابق ہیں اس لیے عمران خان کی عوامی پذیرائی میں اضافہ ہونا ایک فطری عمل
ہے۔
چندماہ قبل ہی کی بات ہے جب عمران خان بطور وزیراعظم پاکستان اس ملک پر
حکمرانی کررہے تھے تو پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے عمران خان کی ذاتی
کردار کشی اور ان کے طرز سیاست اور سیاسی و حکومتی اقدامات کی مخالفت کرنے
کے ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مسئلے کو اچھال کر عمران خان کی ناک میں دم
کیا ہوا تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ عوام عمران خان کے
دلیرانہ،خوددارانہ،،دوررس،انقلابی اور آزاد خارجہ پالیسی پر مبنی اقدامات
سے مجموعی طور پر خوش تھے۔اگر عوام عمران خان سے کسی بات پر ناراض تھی تو
وہ صرف مہنگائی کا ہی مسئلہ تھا جو بڑھتی ہی جارہی تھی جس کی بہت سی وجوہات
تھیں جن میں سے ایک بڑی وجہ پی ٹی آئی کے دورحکومت کے دوران ’’کرونا
وائرس‘‘ کی آمد تھی جس سے صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے بڑے بڑے ممالک کی
معیشت متاثر ہوئی لیکن اگر غٰیر جانبدارنہ تجزیہ کیا جائے تو کرونا کی
صورتحال کو عمران خان نے اپنے بہت اچھے اور بروقت اقدامات سے کنٹرول کرکے
پاکستانی معیشت کو بالکل تباہ ہونے سے بچا لیا وگرنہ دیگر ممالک میں کرونا
کے حوالے سے انتہائی سخت پالیسیاں اور پابندیاں عائد کی گئیں جن کا نتیجہ
ان ممالک کی معیشت کی تباہی کی صورت میں برآمد ہوا۔قصہ مختصر ایک سازش اور
بیرونی مداخلت کے نتیجے میں عمران خان کا اقتدار ختم ہوا جس کے بعد پی ڈی
ایم جماعتوں نے اتفاق رائے سے شہباز شریف کو وزیراعظم بنوا دیااور وزیر
خاجہ کا قلم دان بلاول زرداری کو سونپ دیا گیا۔
پی ڈی ایم اتحاد کی جائز و ناجائز کوششوں کی وجہ سے برسراقتدار آنے والے
موجودہ وزیراعظم شہباز شریف جو کہ عمران خان کے دور حکومت میں ہونے والی
مہنگائی کے ایشو کو مسلسل ہائی لائٹ کرتے رہے اور بڑی مشکلوں کے بعد، نہایت
ہی غلط طریقے سے ایک سازش اور امریکی مداخلت کے نتیجے میں حکومت بنا پائے
ان کو اقتدار میں آئے کئی ماہ گزر گئے لیکن وہ مہنگائی کو کم تو کیا کرتے
بلکہ ان کے دور حکومت کے آغاز میں ہیں مہنگائی کی ایک نئی لہر آئی جس نے پی
ڈی ایم کے مہنگائی مکاؤ کے دعووں کی قلعی کھول دی اور عمران خان کی مخالفت
کرتے ہوئے مہنگائی کو سب سے بڑا ایشو بنا کر بے پناہ شور اور پروپیگنڈہ
کرنے والی نون لیگ کا اپنا وزیراعظم شہباز شریف مہنگائی کو روکنے میں بری
طرح ناکام ہوگیا بلکہ مہنگائی میں مزید کئی گناہ اضافہ ہوگیا جس سے اس طبقے
کو شدید مایوسی ہوئی جو اس بھان متی کے کنبے کی نئی حکومت سے مہنگائی ختم
کرنے کی امیدیں لگائے بیٹھا تھا۔شہباز شریف کے آنے کے بعد اس وقت مہنگائی
میں اضافے کی تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ ڈالر اوپن مارکیٹ میں 202 پاکستانی
روپے کا فروخت ہورہا ہے۔یعنی اپوزیشن جماعتوں کا عمران خان پر مہنگائی میں
اضافہ کرنے کا الزام ایک سیاسی پروپیگنڈہ ثابت ہوا اور وہ جو عمران خان کو
نااہل اور اناڑی حکمران کہا کرتے تھے اور خود کو سیاست و حکومت کا بہت بڑا
اور تجربہ کار کھلاڑی سمجھا کرتے تھے،عوام کے سامنے بری طرح ذلیل ہوکر رہ
گئے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام حقائق کی روشنی میں یہ بات اب عوام اورخواص پر بہت اچھی
طرح واضح ہوچکی ہے کہ عمران خان پاکستان کو بالکل صحیح سمت میں لے کر جارہا
تھا اور اس کے بہت سے دوررس اور حب الوطنی پر مشتمل اقدامات بہت جلد
پاکستان کی تمام مشکلات کو دور کرنے والے تھے اور ہم کافی حد تک معاشی
بحران پر قابو پاچکے تھے اور اگر عمران خان کو پورے 5 سال حکومت کرنے دی
جاتی تو پاکستان اور پاکستانی عوام کے بہت سے دیرینہ مسئلے حل ہوجانے تھے
لیکن امریکہ کو پاکستان میں اپنے اشاروں پر ناچنے والا کٹھ پتلی حکمران
چاہیے تھا وہ کیسے عمران خان کے خودداری، آزاد خارجہ پالیسی،مسلم ممالک کو
متحد کرنے،پاکستان کو معاشی طور پر مظبوط کرنے اور خود مختاری کی طرف گامزن
کرنے جیسے مثبت اقدامات کو برداشت کرسکتا تھا کہ اس طرح تو عمران خان بہت
جلد ملک وقوم کو امریکی غلامی سے نکال دیتا جبکہ عمران خان نے جس طرح پوری
دنیا میں پاکستانی لباس،زبان اور ثقافت کو فروغ دیتے ہوئے اسلامو فوبیا کے
خلاف آواز بلند کی اور جس ببانگ دہل اندا میں ساری دنیا میں اپنی انقلابی
تقاریر کے ذریعے اسلام کا بول بالا کیا اور پھرجس طرح اس نے ہاتھ میں تسبیح
پکڑکر اور ایک پردہ دار بیوی کے ہمراہ سعودی عرب جا کر عمرہ کیا اور جس طرح
اس نے ہر بین الاقوامی فورم پر اور ہر بیرونی ملک کے دورے پر کوٹ پینٹ اور
ٹائی چھوڑ کر شلوار قمیض پہن کر دنیا بھر کے بڑی سپر پاورز کے حکمرانوں سے
پر اعتماد انداز میں ملاقاتیں کیں یہ سب مغربی طاقتوں کے لیے واضح پیغام
تھا کہ اب پاکستان پر ایک غیور محب وطن سیاستدان کی حکومت ہے جو اپنے ملک
اور قوم کی خودداری اور خودمختاری برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی قسم کی
ترغیب،تحریص اور دھمکی کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں ہے تو ظاہر ہے
عمران خان کو کسی نہ کسی طرح تو امریکہ نے اقتدار سے باہر نکالنا ہی تھا جب
عمران خان کے خلاف ذاتی کردار کشی اور ہرطرح کے منفی پروپیگنڈے اور مہنگائی
کا شور مچانے کے باوجودحکومت بدلنے میں کامیابی نہ ہوسکی تو امریکہ نے
پاکستان کے کچھ غدار اور ضمیر فروش سیاستدانوں کوکروڑوں روپے کی رشوت اور
اقتدار دلوانے کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملایا جنہوں نے عمران خان کے خلاف
سازش رچائی اور امریکی مداخلت کا دروازہ کھول کر ایک نہایت محب وطن اور
بہادر کو اقتدار کے ایوان سے باہر نکال دیا۔لیکن امریکہ عمران خان کو عوام
کے دلوں سے نہیں نکال پایا بلکہ یہ امریکی سازش اس بار امریکہ کو کافی
مہنگی پڑے گی کہ اس بار اس کا سامنا عمران خان سے ہے جس کا ایمان انتہائی
مظبوط ہے اور جب تک اسے اﷲ نے زندگی دی ہے وہ اسی طرح امریکی غلامی کے خلاف
برسرپیکار رہے گا۔
|