مہندا راج پکشے: جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے

سری لنکا میں معاشی بحران سے پیدا ہونے والا عدم اطمینان خانہ جنگی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ سابق وزیر اعظم مہندا راج پاکسے کا استعفیٰ بھی عوامی غم و غصے کو قابو میں کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ان کا بھائی ہنوز صدر مملکت بنا ہوا ہے اور کسی بھی وقت بھائی بند ی میں اپنے رائے دہندگان کا سر کچل سکتا ہے۔ مہنداکے حامیوں نے جب استعفے کے خلاف تشدد کا راستہ اختیار کیا تو ان کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ عوام نے شہر کے باہر سے دارالحکومت آنے والے راج پاکسے کے حامیوں کی کولمبو سے نکلتے ہوئے خوب جم کر پٹائی کی ۔ ان کی گاڑیوں کو مختلف مقامات پر نشانہ بنایا گیا اوپر سے پولیس نے بھی ان کی خوب دھنائی کی ۔ مظاہرین نے ہمبنٹوٹا میں مہندا راج پاکسے کے آبائی گھر کے ساتھ ان کے بزرگوں یادگاریں بھی نذر آتش کر دیں ۔ سابق وزیر جانسن فرنینڈو کو گاڑی سمیت جھیل میں پھینک دیا گیا۔ مظاہرین پرفائرنگ کرکے ایک شخص کو ہلاک اور ایک کو شدید زخمی کرنے والے رکن پارلیمنٹ امارا کیرتھی اتھکورالا نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی۔ان واقعات سے سری لنکا میں برپا کہرام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اقتصادی بحران اور خوراک، ایندھن و ادویات کی قلت سےفرقہ پرستی کا نشہ اُڑن چھو ہوچکا ہے۔ مہندا راج پکشے جیسے مقبول سیاسی رہنما کا عبرتناک انجام راحت اندوری کے اس شعر کی یاد دلاتا ہے؎
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

صدر گوٹابایا راجاپاکسے نے ایک ٹویٹ میں پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کی لیکن حزب اختلاف نے وزیر اعظم کی جانب سے شروع کیے گئے تشدد کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے صدر کے فوری استعفیٰ کا مطالبہ کردیا ۔ویسے مظاہرین نے صدر گوٹابایا راجاپاکسے کے گھر ميں داخل ہونے کی کوشش بھی کی اور اس کے بعد سے وہ عوامی نظروں سے غائب ہوگئے۔حکومت کا کام عوام کے مسائل کا تخمینہ لگا کر انہیں حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنا ہے لیکن ہندوستان ہو یا سری لنکا ہر جگہ حکمرانوں کی ساری توجہ انتخابی کامیابی حاصل کر کے اقتدار کو محفوظ رکھنے پر مرکوز رہتی ہے۔ وہ اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے ان کی پردہ پوشی کرتے ہیں ۔ مصنوعی انداز میں عوام کو بہلانے پھسلانے کا فائدہ ایک حد تک تو ہوتا ہے مگر بالآخر یہ غبارہ ایک بڑے دھماکے کے ساتھ پھٹ جاتا ہے۔ سری لنکا میں یہی ہوا نتیجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم ایک بحری بیڑے میں دب کر بیٹھا ہوا ہے اور عوام اس کو تلاش کرتی پھر رہی ہے۔ مہندا راج پاکشے کے لیے واقعی زمین تنگ ہوچکی ہے۔ بقول شاعر؎
فاصلہ عزت و رسوائی میں والیؔ صاحب
سنتے آئے ہیں کہ بس چند قدم ہوتا ہے

اس بحران کا آغاز کووڈ انیس وبا کے باعث ہوا کیونکہ اس نے سری لنکا کی سیاحتی صنعت متاثر کیا اور ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر کم ہونے لگے۔ ایسے میں حکومت کو چاہیے تھا کہ اپنے اخراجات میں کمی کرتی لیکن اس نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے عالمی بازار سودی قرض لینا شروع کیاجو آگے چل کر ان کی جان کا جنجال بن گیا۔ ان بدمعاشوں نے قرض پر نہ صرف عیش جاری رکھا بلکہ اس میں بھی چوری کرنے لگے اور بالآخر سود چکانے کے لیے بھی قرض لینے کی نوبت آگئی۔ ایسے میں مجبوراً حکومت کو درآمدات کم کرنا پڑ یں اس سے ملک میں ضروری اشیاء کی کمی ہوگئی اور عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا کیونکہ مہنگائی آسمان سے بات کرنے لگی اور ایندھن کی کمی کے باعث بجلی کے کارخانے تک متاثر ہوگئے۔ اس سنگین صورتحال میں ماہرین معیشت کے ساتھ سر جوڑنے کے بجائے مہندا راج پکشے نے نوٹ بندی کی طرح کیمیاوی کھاد اور کیڑے مار دوائیوں کے بجائے قدرتی کھاد سے کھیتی کرنے کا احمقانہ فرمان جاری کردیا۔ اس سے گیہوں کی فصل چوپٹ ہوگئی۔ یہ ترکیب یقیناً گائے کے گوبر اور آتم نربھر(خود کفالت) کے مودی منتر کا نتیجہ ہوگی ۔

مہندا راج پاکشے نے کل جماعتی حکومت کے قیام کی خاطر اپنا استعفیٰ تو دے دیا لیکن حزب اختلاف کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نے کسی بھی ایسی حکومت کا حصہ بننے سے انکار کردیا جس میں راجاپاکسے خاندان کے افراد شامل ہوں ۔ فی الحال مہندا اور گوٹا بایا راج پکشے نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔ سابق وزیر اعظم مہندا راج پکسے کو گرفتار کر کے جیل بھیجنے کے پرزور مطالبے کا یہ اثر ہوا کہ سری لنکا کی ایک عدالت نے پارٹی کے 12 دیگر رہنماوں سمیت ان کے ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ کل تک جو پولیس ان کے اشارے پر ناچتی تھی آج گرفتار کرنے کی خاطر ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ عوام اب مہندا کے چھوٹے بھائی گوٹابایا راج پکشے کو صدارت کے عہدے سے ہٹا کر جیل بھیجنے کی خاطر احتجاج کررہے ہیں ۔ پانچ مرتبہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے والے رانِل وِکرما سنگھے کے وزیر اعظم بن جانے سے بھی بات نہیں پا رہی ہے ۔ سرکار کا چاپلوس میڈیا گرگٹ کی مانند رنگ بدل کر مہندا راج پکشے کے خلاف ہونے والے مظاہرے نشر کرکے اپنی ٹی آر پی بڑھا رہا ہے ایسے میں اگر تیسری بار وزیر اعظم بننے کاخواب دیکھنے والوں کی نیند اڑ جائے تو حیرت کی کوئی بات نہیں ؟

وزیر اعظم مودی کے اندھے مقلد چونکہ مہندا راج پکشے کے بارے میں جانتے اس لیے سوچتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ گذشتہ دو دہائیوں سے ملک کے اقتدار پر راج پکشے خاندان کی گرفت بہت مضبوط رہی ہے۔مہندا راج پکشے کئی برسوں سے ملک کی طاقتور ترین شخصیت رہے ہیں ۔ ان کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے۔ وہ پہلی مرتبہ 1970 میں رکنِ پارلیمان منتخب ہوئے تو اس وقت نریندر مودی رکن اسمبلی بھی نہیں تھے ۔ سن 87 سے 89 تک جاری رہنے والی ایک بائیں بازو کی بغاوت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرکے مہندا نے اپنی شہرت بڑھائی ۔ مودی جی نے ایمرجنسی کی مخالفت کرکے اپنی شناخت بنائی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دوسروں کے ذریعہ انسانی حقوق کی پامالی کا رونا رونے والے ان رہنماوں نے خود اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان اقدار کی دھجیاں اڑائی۔

سن 1994 میں مہندا کو صدر چندریکا کماراٹنگا نے وزیرِ محنت مقرر کیا۔ دس برس بعد وہ وزیرِ اعظم بن گئے۔ نریندر مودی بھی وزیر اعلیٰ بننے کے 12سال بعد وزیر اعظم بنے ۔ ایک سال بعد سن 2005 میں مہندا نے صدارت کا عہدہ بھی حاصل کر لیا اور 2015 تک اس پرفائز رہے۔ سن 2009 میں تقریباً 30 برس پرانی تمل بغاوت کا خاتمہ کرکے وہ قومی ہیرو بن گئے۔ مودی جی کے نام پر ہنوز ایسا کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ رافیل کی مانند مہندا پر بھی بدعنوانی کے الزام لگے ۔ سن 2015 کے صدارتی انتخاب میں مہندا کی غیر متوقع شکست ہوئی ۔ قومی آئین کے مطابق سابق صدر دوبارہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا تھا اس لیے چار سال بعد جب اس خاندان کو دوبارہ اقتدار ملا تو بادلِ نخواستہ اس کی باگ ڈورچھوٹے بھائی گوٹابایا کوتھمانی پڑی ۔وہ اس سے قبل وزارتِ دفاع میں ایک سینیئر عہدہ پر فائز تھے اور تملوں کی بغاوت سے نمٹنے پر ان کی تعریف کی جاتی تھی لیکن حالیہ خانہ جنگی میں ان کے ہاتھ پاوں پھول رہے ہیں۔

اس کے بعد والے قومی انتخاب میں کامیابی حاصل کرکے مہندا خود تو وزیر اعظم بن گئے لیکن ساتھ ہی اپنے بھائی چمل راج پکسے کو زراعت، ماہی گیری اور آبپاشی سمیت کئی وزارتوں سے نواز دیا۔ اُن کے ایک اور بھائی بیزل کو مالیات اور اقتصادی ترقی کے محکمے تھما دئیے گئے۔ ان چار بھائیوں کے علاوہ مہندا کے بڑے بیٹے نمل کوسری لنکا کا وزیرِ کھیل بنا دیا گیا اور چھوٹے فرزند یوشیتھا اپنے والد کے چیف آف سٹاف بن گئے۔ اس طرح سارے اہم اختیارات کو خاندان والوں میں تقسیم کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ساری ناکامی بھی انہیں کے سر آگئی۔ ان معاملات میں کسی غیر کو شریک کیا جاتا تو مشکل کے وقت اس کو بلی کا بکرا بنایا جاسکتا تھا لیکن فی الحال اس کی گنجائش نہیں رہی۔ و طن عزیز میں بھی سارے کام وزیر اعظم کے دفتر سے ہوتے ہیں۔ اب تو لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کون سی وزارت کس کے پاس ہے؟ ایسے میں کامیابی کے ساتھ ناکامی کا سہرا بھی انہیں اپنے سر باندھنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوٹ بندی کے لیے وزیر خزانہ کے بجائے وزیر اعظم کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔
ہندوستان کےرام بھگت اذان کے جواب میں ہنومان چالیسا پڑھنے کا اعلان کررہے ہیں اور راون کا سر ی لنکا بغیر ہنومان کے جل رہا ہے۔ وہاں کا راون مہندا راج پکشے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے کر روپوش ہوچکا ہے اور یہاں کا رام تیسری بار وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہا ہے ۔ پوری طرح سے کنگال سری لنکا اوربظاہر خوشحال ہندوستان کے درمیان بہت کچھ مختلف ہے لیکن مشابہت بھی ہے مثلاًوہاں برپا خانہ جنگی کی سب سے اہم ذمہ داری آمرانہ مزاج کے حامل سابق وزیر اعظم مہندا راج پکشے کے سر ہے جو ایک زمانے میں بے حد مقبول ہوا کرتے تھے لیکن ہمارے یہاں بھی ایک بے تاج بادشاہ کو اپنی مقبولیت کا بڑا گھمنڈ ہے ۔ مہندا راج پکشے کا چھوٹا بھائی گوٹابا ہنوز فیویکول لگا کر صدارت کی کرسی سے چپکا ہوا ہے۔وطن عزیز میں وزیر داخلہ کو وزیر اعظم کا نظریاتی برادرِ صغیر سمجھا جاتا ہے۔ وہاں پر راج پکشے خاندان کے لوگوں نے ملک کے اہم عہدوں پر قبضہ کررکھا ہےیہاں بھی سنگھ پریوار کے لوگوں کوسرکاری عہدوں پر صلاحیت کے بجائے وفاداری کی بنیاد پر فائز کردیا جاتا ہے۔ ورنہ تاریخ کے پروفیسر شکتی کانت داس کا ریزرو بنک کی گورنر شپ سے کیا سروکار؟ اقتدار کو ابدی سمجھ کر من مانی کرنے والے مودی جی کے لیے مہندا راج پکشے کے انجام میں سامانِ عبرت ہے بقول غالب؎
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1218975 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.