موبائل اور بینک اکاؤنٹ فراڈ سے کیسے بچا جائے


فراڈ اور دھوکہ ایک ایسی چیز ہے جس سے ہر کوئی بچنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ اگر آپکو کوئی ایسی کال یا ایس ایم ایس موصول ہو جس میں آپ سے آپ کے موبائل اکاؤنٹ جاز کیش ایزی پیسہ یا دوسرے بینک اکاؤنٹ وغیرہ کی معلومات مانگی گئی ہوں اس کا جواب ہرگز نہ دیں۔

Mobile Account

فراڈ اور دھوکہ ایک ایسی چیز ہے جس سے ہر کوئی بچنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ اگر آپکو کوئی ایسی کال یا ایس ایم ایس موصول ہو جس میں آپ سے آپ کے موبائل اکاؤنٹ جاز کیش ایزی پیسہ یا دوسرے بینک اکاؤنٹ وغیرہ کی معلومات مانگی گئی ہوں اس کا جواب ہرگز نہ دیں۔

موبائل اکاؤنٹ ایک ایسی سہولت ہے جس نے عوام کو بہت فائدہ دیا ہے۔ مگر کچھ جرائم پیشہ افراد کی وجہ سے لوگ اس سہولت سے بدظن ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں موبائل صارفین کی تعداد کو دیکھا جائے تو لاکھوں افراد ایسے بھی ہیں جن کو اپنا نمبر بھی یاد نہیں ہوتا۔ اور کئی افراد ایسے ہیں جو موبائل اکاؤنٹ اوپن تو کروا لیتے ہیں مگر اس کو استعمال کرنے سے لاعلم ہوتے ہیں اور اس وجہ سے فراڈ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور بعض پڑھے لکھے لوگ بھی انکی باتوں میں آ کر لاکھوں روپوں کا نقصان کروا لیتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ فراڈ ہوتا کیسے ہے؟ زیادہ تر تو موبائل صارفین کو لوکل موبائل نمبر سے کوئی میسج موصول ہوتا ہے۔ جس میں یا تو یہ لکھا ہوتا ہے کہ آپ کو جیتو پاکستان یا اور کسی گیم شو کی طرف سے اتنی رقم ایک گاڑی اور اتنے تولہ سونا مبارک ہو۔ اور اس کے ساتھ ایک اور نمبر لکھا ہوتا ہے جس پر رابطہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اب جس انسان کو اس فراڈ کا نہیں پتا اور اس کے سامنے ایک دم سے ایک میسج آئے کہ آپکا یہ انعام نکلا ہے تو اس کا ذہن تو ویسے ہی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اب وہ انسان میسج میں لکھے ہوئے دوسرے نمبر پر رابطہ کرتا ہے۔ اور آگے سے کال اٹھانے والا ایک کمپنی کے نمائندے کی آواز اور لہجے میں بات کرتا ہے۔ اول تو اس کے پاس آپ کے شناختی کارڈ اور موبائل سم کے پیچھے لکھے گئے ہیں ہندسوں کی معلومات ہوتی ہے۔ جس کو بتا کر وہ آپ کو اور اعتماد میں لے لیتا ہے۔ نہیں تو باتوں ہی باتوں میں وہ آپ سے ساری معلومات لے لیتا ہے۔ دوسرا وہ آپ کو یہ پوچھتا ہے کہ آپ کس شہر سے بات کر رہے ہیں۔ اور اگر آپ پنجاب کے کسی شہر سے بات کر رہے ہوتے ہیں۔ تو وہ آپ کو کہے گا کہ میں کراچی سے بات کر رہا ہوں۔ اگر آپ کو انعام گھر بیٹھے چاہیے تو اس کے لیے آپ کو تھوڑے سے پیسے ہم کو بھیجنے ہوں گے تاکہ ہم آپکو آپ کا انعام آسانی سے پہنچا سکیں۔ اور دوسری صورت میں آپ کو خود یہ انعام کراچی آکر وصول کرنا ہوگا۔ اب صارف تو یہی چاہے گا کہ اس کا انعام گھر بیٹھے موصول ہو۔ تو وہ اس سے اس کی فیس پوچھتا ہے۔ اور اس کو کہا جاتا ہے کہ آپ اتنی رقم ہمارے اس نمبر پر بھیج دیں اور آپ کو اگلے دن یہ انعام موصول ہو جائے گا۔

اور اس کے ساتھ موبائل صارف کو ایک ہدایت بھی جاری کر دی جاتی ہے کہ یہ بات کسی بھی اور شخص کو نہیں بتانی خاص کرکے اس دکاندار کو جس دکان سے آپ نے ہمیں یہ رقم بھیجنی ہے۔ نہیں تو وہ دکاندار آپ کے انعام میں سے کچھ رقم کاٹ لے گا ۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ نے کسی دکان پر جا کر پہلے مجھ سے بات کرنی ہے پھر دوکاندار سے۔ اب کسٹمر کہیں سے بھی دس پندرہ ہزار کا انتظام کر کے دوکان پر چلا جاتا ہے۔ اور پھر اس نمبر پر کال کرتا ہے۔ اب جعلی نمائندے کی طرف سے کسٹمر کو کہا جاتا ہے کہ آپ دکاندار سے پوچھیں کہ آپ کے پاس جاز کیش یا ایزی پیسہ ہے اور کال ختم نہیں کرنی میں کال پر آپ کے ساتھ ہوں۔ آپ کسٹمر دکاندار سے پوچھتا ہے کہ آپ کے پاس جاز کیش یا ایزی پیسہ کی سہولت ہے۔ دوکاندار آگے سے کہتا ہے جی ہے۔ اب وہ نمائندہ کسٹمر کے ساتھ ساتھ دکاندار کی بھی بات سن رہا ہوتا ہے۔ اب کسٹمر کو کہا جاتا ہے کہ دکاندار سے کہیں کہ اتنی رقم اس نمبر پر بھیجنی ہے۔ اور کسٹمر کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دکاندار اگر آپ سے پوچھیں یہ رقم کس کو بھیج رہے ہیں تو آپ نے یہ کہنا ہے کہ آپ اپنے کسی رشتہ دار کو یہ رقم بھیج رہے ہیں۔ اب دکاندار کسٹمر کے بتائے ہوئے مطلوبہ نمبر پر پیسے بھیج دیتا ہے اور وہ جعلی نمائیندہ پیسے موصول ہونے کے بعد کال کو ختم کر دیتا ہے۔ اور پھر دوبارہ کال نہیں اٹھاتا۔ اب کسٹمر سمجھ جاتا ہے کہ وہ کسی فراڈ کا شکار ہو چکا ہے۔

اور دوسرا میسج آپ کو یہ بھی آتا ہے ہے۔ کہ احساس پروگرام طرف سے آپ کو بارہ ہزار روپے موصول ہوئے ہیں۔ اور آپ کسی بھی دکان پر جاکر یہ رقم لے سکتے ہیں۔ اس میں بھی پہلے آپ نے اس نمائندے سے بات کرنی ہوتی ہے۔ اور وہی ہدایت دی جاتی ہے کہ آپ نے دکان کے سامنے جاکر پہلے مجھے کال کرنی ہے اور آپ اپنا شناختی کارڈ ساتھ لے جائیں۔ اب کسٹمر اپنا شناختی کارڈ لے کر پیسے لینے کے لالچ میں دکان کے سامنے جا کر جعلی نمائندے کو کال کرتا ہے۔ اور ویسا ہی سوال پھر اس کو دکاندار سے کرنے کو کہا جاتا ہے کہ آپ کے پاس جاز کیش یا ایزی پیسہ ہے۔ دکاندار آگے سے کہتا ہے جی ہے۔ اب وہ نمائندہ کسٹمر کو کہتا ہے کہ اس کو یہ نمبر دیں اور اس سے کہے کہ اس نمبر پر بارہ ہزار روپے اوکے کردیں۔ اب کسٹمر کو یہ نہیں پتا ہوتا کہ وہ جعلی نمائیندہ اس کو پیسے بھیجنےکی بجاۓ اس سے رقم وصول کر رہا ہے۔ اب پہلے کی طرح دکاندار اس نمبر پر رقم بھیج دیتا ہے۔اور پیسے وصول ہونے کے بعد وہ نمائندہ کال کو ختم کر دیتا ہے۔ اب دکاندار اس کسٹمر سے پیسے مانگتا ہے اور کسٹمر کہتا ہے کہ پیسے تو میں آپ سے لینے آیا ہوں۔ اس کے بعد اس کسٹمر کو پتہ چلتا ہے کہ میں فراڈ کا شکار ہوگیا ہوں۔

اور تیسرا موبائل اکاؤنٹ کسٹمر کو ایک کال آتی ہے کہ آپ کا اکاؤنٹ بند ہو جائے گا آپ اپنے اکاؤنٹ کو ویریفائیڈ کروائیں اسی چکر میں وہ کسٹمر اس جعلی نمائندے کی باتوں میں آکر کال کے دوران اپنا پاسورڈ لگا کر مطلوبہ رقم اس جعلی نمائندے کو بھیج دیتا ہے۔ اور بینک اکاؤنٹ صارفین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ان کو اے ٹی ایم کارڈ کے بلاک ہونے کا جھانسہ دیا جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ موبائل صارفین ہزاروں روپے کے فراڈ کا شکار ہوتے ہیں اور بینک صارفین لاکھوں۔ اور سب سے اہم فراڈ جو اس وقت زور پر ہے۔ کہ آپ کو آپ کے کسی رشتے دار یا دوست کی آواز میں کال آتی ہے۔ اور آپ سے کہا جاتا ہے کہ میں اس وقت بڑی مشکل میں ہوں آپ اس وقت مجھے اتنے پیسے بھیج دیں میں کل آپ کو واپس بھیج دوں گا۔ اس فراڈ سے بھی کئی افراد نے لاکھوں روپے کا نقصان کروا چکے ہیں۔

ان سب فراڈ سے بچنے کا بہت ہی آسان طریقہ ہے۔ کہ اگر آپ کو کوئی بھی ایسا میسج موصول ہو آپ اس کا جواب مت دیں۔ اور اگر کوئی کال آئےتو اس کال کو ختم کر دیں۔ اپنا پاسورڈ آسان ہندسوں میں مت لگائیں۔ اور کال یا ایس ایم ایس کے ذریعے اپنا پاسورڈ کسی کو مت دیں۔ اگر آپ کو کسی رشتے دار یا دوست کی طرف سے آواز بدل کر فون آئے تو پہلے آپ اس بات کو کنفرم کر لیں کہ واقعی وہ آپ کا دوست یا رشتہ دار ہے۔ اپنا اے ٹی ایم کارڈ کسی کو مت دکھائیں۔ اور جب آپ اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکلوانے جائیں تو تو یہ تسلی کر لیں کہ آپ کے علاوہ آپ کا پاسورڈ کوئی دوسرا تو نہیں دیکھ رہا۔ یاد رہے کمپنی کا نمائندہ کبھی بھی آپ کو کال یا میسج کے ذریعے یہ نہیں کہتا کہ آپ کا اکاؤنٹ بلاک ہو جائے گا۔ یا آپ کو یہ انعام نکلا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ موبائل رٹیلر دوکاندار کو ضرور بتائیں کہ آپ کو یہ کال آئی ہے۔ کیونکہ اس فراڈ سے بچنے کے لیے سب سے زیادہ مدد آپ کی دوکاندار ہی کر سکتا ہے۔ اسی لئے تو فراڈ کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ آپ نے دکاندار کو نہیں بتانا کیونکہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ اگر دکاندار کو بتا دیا تو وہ کسٹمر اس فراڈ سے بچ سکتا ہے۔

میرا تحریر لکھنے کا مقصد یہ ہے ۔ کہ موبائل اکاؤنٹ ایپلیکیشن ہو یا بینک اکاؤنٹ ایپلیکیشن یا اے ٹی ایم کارڈ تب تک محفوظ ہے جب تک آپ اپنی معلومات کسی کو فراہم نہیں کرتے۔ اگر آپ سے یہ غلطی ہو جاتی ہے تو فوری طور پر قریبی متعلقہ بینک۔ موبائل سروس سینٹر یا ریٹیلر کے پاس جائیں اور اپنے پاس ورڈ کو تبدیل کروائیں۔ اور کسی کو رقم بھیجنے سے پہلے تصدیق ضرور کر لیں۔ کہ کہیں آپ کے ساتھ فراڈ تو نہیں ہو رہا۔
 
Munir Anjum
About the Author: Munir Anjum Read More Articles by Munir Anjum: 23 Articles with 17462 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.