مضبوط اعصاب کی حامل قوم پر جب بھی پٹرول بم گرایا گیا، یہ خوشخبری ساتھ ہی
سُنا دی گئی کہ اس سے ’’عام آدمی‘‘ ہر گز متاثر نہ ہوگا، یہ الگ داستان ہے
کہ وہ ’’عام آدمی‘‘ تلاشِ بسیار کے باوجود کسی نے دیکھا نہ پایا۔ اپوزیشن
میں ہوتے ہوئے ہمارے نمائندے یہ بتاتے ہیں کہ پٹرول مہنگا ہو تو حکمران چور
ہوتا ہے، حکومت میں آنے کے بعد وہی لوگ بتاتے ہیں کہ دنیا کے ساتھ چلنا
ہماری مجبوری ہے، دنیا میں ہم تنہا نہیں رہ سکتے۔ اب حکومت تبدیل ہوئی ہے
تو ’’فریقین‘‘ نے اپنی اپنی پوزیشن تبدیل کرنے کے بعد وہی طے شدہ اور اصولی
جملے دہرانے شروع کر دیئے ہیں، جو مفادات اور صورتِ حال سے مطابقت رکھتے
ہیں۔ سوشل میڈیا ہے کہ نئی حکومت کے پٹرول بم گرائے جانے پر اپنی پوری
توانائیوں کے ساتھ میدان میں ہے، حکومت اور اس کے چاہنے والوں کو خوب رگیدا
جارہا ہے، حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ حکومت آئی بھی اس لئے تھی کہ مہنگائی
وغیرہ کا توڑ کرے۔
کیا ہم لوگوں نے کبھی غور کیا کہ پٹرول کی قیمت میں جب بھی اضافہ ہوا ہے ،
اس سے نقصان کس کا ہوا؟ کیا یہ جملہ کہ ’’عام آدمی پر اس کا اثر نہیں پڑے
گا‘‘ ہماری تسلی کے لئے کافی ہے، کیاواقعی ایسا ہی ہے؟ ہر گز نہیں، اگر کسی
پر کچھ اثر پڑتا ہے تو وہ صرف عوام ہی ہیں۔ پٹرول کی قیمت اگر چار سو روپے
لیٹر بھی ہو جائے تو مراعات یافتہ طبقہ کی بَلا سے، کیونکہ ان کی لُغَت میں
’’خسارہ‘‘ کا لفظ ہی نہیں ہے، جب ہر چیز ملنی ہی مفت ہے، تو پریشانی کیسی؟
یہاں تقسیم کی منطق ایسی عجیب ہے کہ انسان حیرت کے سمندر میں غرق ہو جاتا
ہے۔ جس قدر گریڈ بڑے ہوتے جاتے ہیں، مراعات، پروٹوکول اور سہولتوں وغیرہ
میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، وقت آتا ہے کہ تنخواہ کے علاوہ بھی بچت ہونے کے
امکانات پیدا ہو جاتے ہیں، یعنی گاڑی، پٹرول، سکیورٹی، ڈرائیور، گھر،
ملازم، دفتر کا چائے پانی وغیرہ ہر چیز سرکار کے خزانے سے ادا کی جاتی
ہے۔تنخواہ ، جو کہ بے حد اضافہ کے ساتھ لاکھوں میں ہے، سے صرف گھر چلایا
جاتا ہے۔ بے شمار ایسے عہدے بھی ہیں جہاں ’’خدمت‘‘ وغیرہ کے نام پر گھر کی
آسائشیں اور ضرورتیں پوری کرنے والے بھی ہمہ وقت در پر حاضر و موجود رہتے
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے گریڈوں والوں کے بچے ملک سے باہر تعلیم حاصل کرتے
ہیں، ریٹائر منٹ کے بعد یہ بھی اپنے بچوں کے پاس اپنے اصل وطن روانہ ہو
جاتے ہیں، کیونکہ اوپر نیچے کی ساری کمائی پہلے ہی وہاں بھجوا چکے ہوتے
ہیں۔
سبز پلیٹ کی گاڑیوں کو شہر وں میں دندناتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جو کسی
وقت کی پابند نہیں۔ شاپنگ پلازے ہوں یا تیس ہزار روپے فیس والے سکول، بڑے
ہوٹل ہوں یا کوئی تفریحی مقامات، ہر جگہ پر سرکاری نمبر والی گاڑیاں پائی
جاتی ہیں۔ کیا عوام نے کبھی غور کیا کہ ایک تنخواہ دار شخص اِن ’’عشرت
کدوں‘‘ کی عیاشی کا کس طرح اہل ہوا؟ اور یہ کہ سرکاری گاڑی دفتری اوقات کے
علاوہ غیر متعلق جگہ پر کیوں دکھائی دیتی ہے؟ کیا اِ ن لوگوں کو عیاشی کے
لئے بھی عوام سے نچوڑے گئے ٹیکس سے کروائی جانی چاہیے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ
تمام سرکاری افسران اپنے ذاتی ذریعہ سے دفتر پہنچیں، وہاں گاڑی کا استعمال
صرف دفتری کام کے لئے کیا جائے، چھٹی کے وقت اپنی گاڑی پر گھر آئیں۔ یہاں
تو گنگا اُلٹی بہتی ہے، نہ صرف مستقل سرکاری گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں، بلکہ
چوبیس گھنٹے جہاں، جس مقصد کے لئے چاہیں استعمال میں لائیں۔ ظلم یہ بھی ہے
کہ بہت سے افسران کے اختیار میں ایک سے زیادہ گاڑیاں موجود ہیں۔ ستم یہ بھی
ہے کہ بہت سے افسران پٹرول کے معاملے میں اس قدر سخی واقع ہوئے ہیں کہ
’چوری کا کپڑا، لاٹھی کے گز‘ کے مصداق اُن کی پرچیاں چلتی ہیں، اُن کے
قریبی دوست احباب سرکاری پٹرول سے اپنی گاڑیاں چلاتے ہیں۔ ٹیکس تو کسی نہ
کسی مد میں ہر پاکستانی ادا کرتا ہے، مگر ہمارے سرکاری افسران کو غریب عوام
کے خون پسینے کے ٹیکس سے عیاشیاں کرتے ہوئے کبھی غیرت نہیں آئی۔ ستم بالائے
ستم تو یہ بھی کہ ہمارے عوام نے بھی کبھی اس غیظ وغضب کا اظہار نہیں کیا۔
دو دہائی قبل بہاول پور میں ڈاکٹر منصور باجوہ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن تعینات
تھے، انہوں نے آرڈر جاری کیا کہ کوئی سبز نمبر پلیٹ والی گاڑی دفتر کے
اوقات کے بعد باہر دکھائی نہ دے، بڑے بڑوں نے اپنی ذاتی گاڑیاں گھروں سے
منگوا لی تھیں۔ اگر ایک افسر یہ کر سکتا ہے، تو حکومت کیوں نہیں؟ مگر مفاد
نہیں ، اخلاص چاہیے، جو کہ ناپید ہے۔
ہمارے حکمرانوں کی واردات بھی ملاحظہ فرمائیں، جب کبھی معزز ممبرانِ
پارلیمنٹ کی تنخواہوں یا مراعات وغیرہ میں اضافہ کا بِل پیش ہو جائے تو یہ
تمام محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں، کبھی کسی نے یہ
نہیں کہا کہ بھئی غریب عوام کا بھی خیال کریں۔ یہ معزز ممبرانِ اسمبلی
سیاست کو عبادت کا نعرہ لگا کر الیکشن میں جاتے ہیں، تو اپنی عبادت کا خراج
عوام کے خون سے کیوں نچوڑتے ہیں؟ کون ساممبر پارلیمنٹ ہے، جو کروڑ پتی
نہیں(الا ماشاء اﷲ)؟ جب ہیں بھی کروڑ پتی، الیکشن پر بھی کروڑوں خرچ کرتے
ہیں، تو یہ غریب لوگ تنخواہ اور مراعات کے کیونکر مستحق قرار پاتے ہیں؟ پھر
اجلاس میں جائیں نہ جائیں،یا لڑائی مار کٹائی سے بھر پور اجلاس ہو ، یا
وہاں جا کر اونگھتے رہیں، ٹی اے، ڈی اے مل کر رہے گا۔ کیا پاکستان میں اور
بھی کوئی ایسا ادارہ ہے، جو کام کئے بغیر خزانہ بھی لُوٹے اور استحقاق بھی
سب سے زیادہ وصول کرے، جب وقت آئے تو گھوڑا منڈی بھی لگ جائے؟ ہمارے وزراء
وغیرہ کے بعد پارلیمانی سیکریٹریز، قائمہ کمیٹیوں کے ممبران اور بھی نہ
جانے کس کس مد میں کتنے کروڑ اُڑائے جاتے ہیں۔ ملک کے مشکل معاشی حالات میں
تو مراعات کا تو مکمل خاتمہ ہو جانا چاہیے، بڑی تنخواہوں والوں کی تنخواہ
سے بھی کٹوتی ہونی چاہیے۔ کون حکمران آئے گا جو حُکماً مراعات ختم کرے گا،
جو بچت کے لئے عیاشیاں کم کرے اور کروائے گا؟ عمران خان سے بھی کسی حد تک
یہ توقع تھی،مگر بُری طرح مایوسی ہوئی، جو حکمران بیوروکریسی اور حکومتوں
کی عیاشیوں کو ختم کرے گا، وہ تاریخ میں اپنا نام امر کر جائے گا۔
|