حقیقی آزادی

لفظ آزادی کی قیمت وہی لوگ جانتے ہیں جو 7 دہائیوں سے وطن کو بارود اور گولیوں کی کھن گرج سے آزاد نہ کرواسکے۔ جن کی چوتھی نسل بھی مجاہدین میں شامل ہیں۔ آج کشمیریوں سے پوچھے کہ آزادی کیا ہوتی ہے۔ زندگی کا دو تہائی حصہ جیل میں گزارنے والے یاسین ملک سے پوچھیں۔ جس کی غیرت نے اپیل یا درخواست کرنا بھی گوارہ نہ کیا۔
جس دھج سے گیا کوئی مقتل میں وہ شان سلامت رہتی ہیں
یہ جان تو آنی جانی ہیں اس جان کی کوئی بات نہیں۔

لیکن افسوس جن صاحب کی وجہ سے آج کشمیر ہائی وے کو ہم سری نگر ہائی وے کہتے ہیں وہ اسی سری نگر ہائی وے پر صرف اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کی خاطر دھرنا دینا چاہ رہے تھے۔ جب کشمیریوں کی بات آئی تو ہر جمعہ دس منٹ کھڑے رہ کر احتجاج ریکارڈ کروانے کی بات کی۔ اگست 2019 ابھی اتنی پرانی نہیں ہوئی۔ جب بھارت نے دفعہ 357اور 35A میں آئینی ترامیم کر کے کشمیر کا متنازع علاقے کا سٹیٹس چھین لیا تھا۔ اس وقت کے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین گنڈا پوری شہد پی کر سو رہے تھے۔ حقیقی آزادی والو کی ہی حکومت تھی لیکن کوئی خاطر خواہ اقدام نہ اٹھایا گیا۔

پھر وقت آیا ملک پر معاشی بحران آ گیا۔ ایک طرف کرونا دوسری طرف مہنگائی کا جن بے قابو ہوا۔ سی پیک کو نظر انداز کیا گیا۔ بلکہ صفحہ ہستی سے اکھاڑ پھینکا اور آئی ایم ایف کے سامنے جھولی پھیلائی گئی۔ میں مانتی ہوں تئیس سالوں میں بہت قرضے لئے گئے۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں تھا۔ 2018 میں مالی خسارہ 2260 بلین روپے جبکہ اب 2022 میں 5600 بلین روپے بن رہا اس وقت جی ڈی پی اے 9.2% تھا جو کہ 2018 میں 11.1% تھا۔ قومی ترقی کی رفتار بھی 6 سے 4 فیصد ہو گئی۔ پھر قرضے نا لینے اور کشکول توڑنے اور آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے خودکشی کر لینے کے دعویدار نے آئی ایم ایف کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور سٹیٹ بینک کو گوروں کے حوالے کر دیا۔ اب ہمارے پٹرول کی قیمتیں بڑھانے سے لے کر دال کے بھاؤ تک آئ ایم ایف طے کر رہا ہے۔ ہماری معاشی خود مختاری جو پہلے بھی نہیں تھی۔ اب بالکل گوروں کی لونڈی بن چکی ہے۔

میں یک طرفہ بات نہیں کہنا چاہتی مگر کیا عمران خان جو حقیقی آزادی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ اتنے مضبوط نہیں تھے کہ اس غلامی کے آگے بند باندھ لیتے۔ کیا نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن سے مایوس ہو کر اس قوم نے عمران خان کا انتخاب اس لیے نہیں کیا تھا کہ یہ بندہ کبھی اس قوم کو اغیار کے سامنے جھکنے نہیں دے گا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر سی پیک بنانا یا کوئی اور راستہ اختیار نہیں کیا جاسکتا تھا؟ ایسٹ انڈیا کمپنی جہانگیر (سلیم) کے دور میں قائم وئی 1750اورنگزیب کے دور تک اپنے اثر و رسوخ اتنے بنا چکی تھی کہ ملک کا ہر معاشی فیصلہ اس سے پوچھ کر کیا جاتا تھا۔ پھر احمد شاہ(1754) کا دور آیا اور اس نے پورا ملک ایسٹ انڈیا کے حوالے کر دیا۔ جو کہ ہندوستان کی غلامی کا سبب بنا۔ آج عمران خان بھی اس قوم کے لئے احمد شاہ ثابت ہوا۔ اور راقم الحروف کا غیر جانبدارانہ تجزیہ یہ ہے کہ ایسے شخص کو آزادی کا نعرہ لگانا زیب نہیں دیتا۔ پورے چار سالوں کی کارکردگی کو ایک خط میں لپیٹ کر چھکا لگانے سے اس ملک کا معاشی میچ نہیں جیتا جا سکتا۔

 

Hafsa Saqi
About the Author: Hafsa Saqi Read More Articles by Hafsa Saqi: 49 Articles with 49527 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.