کھڑک سنگھ

آپ نے یہ مشہور مقولہ کبھی نہ کبھی تو ضرورسنا ہوگا کہ’’ کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں’’۔اس مقولے کے پیچھے ایک سچی داستان ہے پہلے وہ داستان سن لیں پھر آپ کو بتاؤں گا کہ یہ منقولہ آج کے دور میں کس طرح دوبارہ حقیقت بن کر سامنے آگیا ہے۔ سردارکھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے اور پٹیالہ کے سب سے بااثر بڑے جاگیردار اور گاں کے پنچایتی سرپنچ بھی تھے۔ایک دن معمولات سے بیزار ہوکر سردارکھڑک سنگھ اپنے بھانجے کے پاس گئے اور کہا کہ’’ شہر کے سیشن جج کی کرسی خالی ہے مجھے جج لگوا دو(ان دنوں میں کسی بھی سیشن جج کے آرڈر انگریز وائسرائے کیا کرتے تھے)۔ یہ سن کر مہاراجہ پٹیالہ کی ہنسی چھوٹ گئی اور کھلکھلا کر بولے ماموں آپ اور جج ۔۔ نہ بھئی نا یہ ناممکن ہے؟
سردار کھڑک سنگھ نے کہا دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں
مہاراجہ پٹیالہ نے کہا آپ تو پڑھے لکھے نہیں ہیں جج کیسے بن سکتے ہیں
سردار کھڑک سنگھ نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوکہا اکبر بادشاہ کون سا ایم اے پاس تھا وہ میری طرح ان پڑھ تھا لیکن تاریخ کا سب سے کامیاب اور بارعب مغل بادشاہ تھا۔ ماموں کی بات سن کر مہاراجہ پٹیالہ لاجواب ہوگئے انہوں نے ناچار وائسرائے کے نام ایک چٹھی لکھ کر سفارش کی کہ ان کے ماموں کھڑک سنگھ کو سیشن جج لگا دیں۔بھانجے سے چھٹی لکھوا کر کھڑک سنگھ سیدھاوائسرائے کے پاس جاپہنچا اور اپنے بھانجے کی چٹھی پیش کی۔، وائسرائے نے خط پڑھا اور پھر کھڑک سنگھ سے کچھ سوالات پوچھنے لگا تاکہ یہ جان سکے کہ کھڑک سنگھ جج بننے کے اہل ہے یا نہیں۔
وائسرائے نے سردار کھڑک سنگھ سے پوچھا’’ ٹمہارا نام؟
سردارکھڑک سنگھ نے ترنت اپنا نام بتادیا
وائسرائے۔ تعلیم؟
سردارکھڑک سنگھ۔’ نے اک شان ِ بے نیازی سے کہا’تسی مینو جج لانا اے یاں سکول ماسٹر؟’’
یہ بات سن کروائسرائے ہنستے ہوئے ’’سردار جی میرا مطلب قانون کی کوئی تعلیم بھی حاصل کی ہے یا نہیں اچھے برے کی پہچان کیسے کرو گے؟
سردارکھڑک سنگھ نے موچھوں کو تاؤ دیا اور بولا ’’بس اتنی سی بات بھلا اتنے سے کام کے لیے گدھوں کی طرح کتابوں کا بوجھ اٹھانے کی کیا ضرورت ہے ، میں کئی سالوں سے پنچائت کے فیصلے کرتا آرہا ہوں ایک نظر میں بھلے چنگے کی تمیز کرلیتا ہوں۔
وائسرائے نے دل میں سوچا چلوآزمانے میں کیا ہرج ہے جج کا جج شغل کا شغل۔۔ جس نے سفارش کی ہے وہ جانے اور اس کاماموں۔وائسرائے نے عرضی پر دستخط کردئیے اور کھڑک سنگھ کوجسٹس لگانے کا فرمان جاری ہوگیا۔وہ اپنے آرڈر لے کر پٹیالہ لوٹے اور اگلے دن بطور جسٹس کمرہ عدالت میں جا پہنچے ۔ اتفاق سے اسی روزپہلا کیس قتل کا تھا۔کٹہرے میں ایک طرف چار ملزم اور دوسری جانب ایک روتی ہوئی خاتون کھڑی تھی تھی۔جسٹس کھڑک سنگھ اپنے سر پر سڑا سی پگ باندھے کرسی پر براجمان تھے کیس شروع ہونے سے پہلے اس نے چاروں جانب دیکھ کر حالات کا جائزہ لیا فریقین کو غور سے دیکھا اور پھر معاملہ سمجھ گئے۔ایک پولیس افسر کچھ کاغذ لے کر آیا اور بولا ’’مائی لارڈ، یہ عورت کرانتی کور ہے اس کا الزام ہے کہ ان چار لوگوں نے اس کے شوہر کو قتل کیا ہے۔’’جسٹس کھڑک سنگھ نے عورت سے تفصیل پوچھی۔عورت بولی’’سرکار دائیں جانب والے کے ہاتھ میں برچھا تھا اور برابر والے کے ہاتھ میں درانتی اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں سوٹے تھے، یہ چاروں کماد کے اولے(پیچھے)سے نکلے اورمیرے کھسم(شوہر)کو جان سے مار دیا۔’’جسٹس کھڑک سنگھ نے چاروں کو غصہ سے دیکھا اور پوچھا ’’کیوں بدمعاشو، تم نے بندہ ہی مار دیا؟’’دائیں طرف کھڑے ایک ملزم نے کہا’’نہ جی سرکار میرے ہاتھ میں تو کئی تھی’’ ،دوسرے نے کہا’’ میرے ہاتھ میں بھی درانتی نہیں تھی ،ہم تو صرف بات کرنے گئے تھے اور ہمارا مقصد لڑائی نہیں صرف اسے سمجھانا تھا۔
’’ سردارکھڑک سنگھ نے غصہ سے کہا’’ معاملہ جو بھی ہو، بندہ تو مرگیا نا؟’’ ملزمان کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں کھڑک سنگھ اپنے سامنے پڑے کاغذات کو پکڑا ملزمان کے نام پوچھنا شروع کردئیے اچانک ایک کالا کوٹ پہنے ایک وکیل آ کھڑا ہوا اور بولا مائی لارڈ، رکئے، یہ کیس بڑا پیچیدہ ہے جناب قتل کا مقدمہ ہے ، یہ ایک زمین کا پھڈا تھا اور جس زمین پر ہوا وہ زمین بھی ملزمان کی ہے بھلا مقتول وہاں کیوں گیا تھا؟
’’جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر سے پوچھا ’’یہ کالے کوٹ والا کون ہے ؟’’
پولیس والے نے جواب دیا’’جناب یہ ان چاروں کا وکیل ہے۔
کھڑک سنگھ بولا’’ ایسے بتاؤ نا مطلب تو ہوا کہ ملزمان کا بندہ ہوا نا جو، ان کی طرف سے بات کررہا ہے۔’’
سردارکھڑک سنگھ نے وکیل صفائی کو بھی ان چاروں ملزمان کے ساتھ کھڑے ہونے کا حکم دیا اور پھر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کردیئے۔فیصلے میں لکھا تھا (ان چاروں قاتلوں اور ان کے وکیل کو کل صبح صادق پھانسی پر لٹکا دیا جائے)۔کھڑک سنگھ کا فیصلہ سن کرپورے پٹیالہ میں ہلچل مچ گئی، لوگ کھڑک سنگھ کے نام سے تھر تھر کانپنے لگے کہ کھڑک سنگھ مجرموں کے ساتھ ساتھ ان کے حمائتی وکیلوں کو بھی پھانسی دے دیتا ہے۔اس فیصلے کے بعد اچانک جرائم کی شرح صفر ہوگئی، کوئی بھی وکیل کسی مجرم کا کیس نہ پکڑتا۔ جب تک کھڑک سنگھ پٹیالہ جج رہے ریاست میں خوب امن رہا۔ آس پڑوس کی ریاست سے بھی لوگ اپنے کیس کھڑک سنگھ کی عدالت میں لاتے اور فوری انصاف پاتے۔اس واقعہ کے بعدمشہور ہوا کہ کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کی کھڑک سنگھ کایہ منقولہ آج کے دور میں پوری دنیا کو دیکھنے کو مل رہا ہے۔انڈین کسان سکھ جس طرح انڈیا میں کھڑک رہے ہیں اس سے انڈیا کے ایوانوں کی کھڑکیاں کھڑک کھڑک کر ٹوٹ رہی ہیں۔ مسلمان،سکھ ،عیسائیوں پر مشتمل اقلیتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے انڈیا نے جس ڈھٹائی کے اپنے آپ کودنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قراردے رہاہے اور دوسری طرف جس اندازمیں خالصتان کا جھنڈا لہرایا گیاہے وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا بھارتی حکمران تو سردارکھڑک سنگھ جتنے بھی انصاف پرورنہیں ہیں حالانکہ وہ اسی ملک کا شہری تھا۔ آج ایک طرف انڈیا میں یوم جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جمہوریت کا گلا گھوٹنے والا سلوک کیا جارہاہے نچلی ذات کے ہندؤں کا جینا عذاب بنادیا گیاہے ، سکھ اور تامل ناڈو میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقلیتوں سکھ برادری کے ساتھ ان دنوں جو سلوک کیا جارہا ہے وہ سب کچھ دنیا دیکھ رہی ہے اور سوال پوچھ رہی ہے کہ اس سال انڈیا کے یوم جمہوریت کو دنیا بھرمیں یوم سیاہ کے طور پر کیوں منایا گیا ؟جس کا مطلب ہے مودی مسائل کی دلدل میں پھنس چکاہے ۔ریاستی جبرو تشدد،مسلم کش فسادات ،سکھوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں،نچلی ذات کے ہندؤں پرمظالم کی بناء پر بھارتی حکومت کاچہرہ اور دامن دونوں سیاہ ہوتے جارہے ہیں یہی حالات رہے تو سیاسی مبصرین پرملا کہہ رہے ہیں مودی بھارت کا گوربا چوف ثابت ہوگا۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 383482 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.