دور جدید میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کاراز
مملکت کے آئین اور اسکے تحت طرز حکومت میں پوشیدہ ہے۔ان ترقی یافتہ ممالک
میں رائج جمہوری سیاسی ماحول، اختلاف رائے کی مکمل آزادی سمیت دیگر بنیادی
انسانی حقوق کی فراہمی نے ان ممالک کی عوام او ر حکام کے درمیان مناسب
توازن برقرار رکھا ہوا ہے۔ اور جیسے ہی اس توازن میں گراوٹ پید ا ہوجائے یا
اسکا خدشہ ہوتو آزاد عدلیہ اس بگڑے ہوئے توازن کوبرقرار رکھنے میں اپنا
بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔ سادہ الفاظ میں اگر جمہوریت کا مطلب سمجھنے کی
کوشش کی جائے تو جمہوریت کا مطلب اکثریت کی رائے کو کہا جاسکتا ہے۔اور
جمہوریت جہد مسلسل کا نام ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریت امریکہ اور
برطانیہ کی بات کی جائے تومروجہ جمہوری اقدار نے صدیوں کا سفر طے کیا ہے۔
برطانیہ میں جمہوری سفر کا آغاز 13 ویں صدی عیسوی کے آغاز میں میگنا کارٹہ
معاہدہ سے شروع ہوا اور اسی طرح امریکہ میں چار صدی پہلے موجودہ جمہوری
نظام کی بنیادیں قائم ہوئیں۔اور اگر بات کی جائے تو برصغیر پاک و ہند کی تو
یہاں پرجمہوریت کی عمر بہت قلیل ہے۔ 20ویں صدی کے وسط میں پاکستان اور
بھارت نے برطانوی راج سے چھٹکارا پالیا۔ بھارت کی خوش قسمتی رہی کہ انکی
آزادی کے بعد کسی قسم کا غیر جمہوری اقدام وقوع پذیر نہ ہوسکا جبکہ بدقسمتی
سے پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل کبھی بھی دائمی سطح پر قائم نہ ہوپایا۔
پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ آزادی کے 9 سال بعد تک مملکت کا
نظام حکومت بغیر کسی آئین کے چلایا جاتا رہا اور پاکستان کاپہلا آئین 1956
میں بنا اور وہ بھی ملٹری ڈکٹیٹر شپ کی نظر ہوگیا۔ کبھی مارشل لاء تو کبھی
جمہوری حکومت۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کی صحیح معنوں میں سیاسی تربیت
نہ ہوپائی۔سات دہایاں گزرنے کے بعد پاکستان میں مذہبی فرقہ پرستی سے زیادہ
سیاسی فرقہ پرستی نے جگہ بنا لی ہے۔ گالی گلوچ، الٹے سیدھے ناموں سے
پکارنا، ذاتیات پر سرعام حملے، جھوٹے الزامات کی بھرمار، لڑائی جھگڑے یہ تو
معمول کی بات لگتی ہے۔سیاسی اختلاف کو کفر و اسلام اور جنت دوزخ کا معاملہ
بنا دیا گیا۔ سیاسی قائدین کی زبانیں ایک دوسرے کے خلاف آگ برساتی ہوئی نظر
آتی ہیں۔ نہ کوئی رواداری رہی اور نہ ہی برداشت۔شاید یہی وجہ تھی کہ
پاکستان کے جید علماء کرام میں صف اول کے عالم دین جناب تقی عثمانی صاحب نے
مملکت میں پائی جانے والی سیاسی فرقہ پرستی کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے اس
مرتبہ عید الفطر کے خطبہ میں روایتی باتیں کرنے کی بجائے سامعین سمیت تمام
پاکستانیوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی بھرپور کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ ”ہاتھ
جوڑ کر کہتا ہوں کہ خدا کے لئے نفرتوں کے بیج بونا ختم کردو، اسی جذباتیت
اور گالی گلوچ کی وجہ سے آدھا ملک ہم گنواں بیٹھے، اب آدھا رہ گیا ہے، خدا
کے لئے اس کی تو حفاظت کرلو! ہمارے معاشرے کے درمیان نفرتیں پھیلائی جارہی
ہیں، اشتعال انگیز یاں کی جارہی ہیں، ایک دوسرے پر حملوں کی تیاریاں ہورہی
ہیں، بلکہ حملے کئے جارہے ہیں، اور مسلمانوں کی جو وحدت ہے اس کو پارہ پارہ
کرنے کی کوشش کی جارہی ہے…دنیا میں سیاسی اختلافات کہاں نہیں ہوتے، لیکن ان
اختلافات کو دشمنیوں میں تبدیل کردینا، عداوت میں تبدیل کردینا، ایک دوسرے
کے خون کا پیاسا ہوجانا ہرگز درست طریقہ نہیں‘یاد رکھو! یہ سیاسی اختلافات
کوئی کفر و اسلام کا معرکہ نہیں، لیکن ایک دوسرے پرجھوٹے الزامات لگانا،
ایک دوسرے کو ایسے مطعون کرنا جیسے وہ اسلام کے دائرے سے ہی خارج ہے، وہ
ہمارا مسلمان بھائی ہی نہیں ہے، افسوس ہے کہ سارا رمضان ہمارا اس آفت میں
گزرا ہے، کیا یہ پاکستان اس لئے بنا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے گلے کاٹیں۔
اختلاف کو اختلاف کی حد میں رکھیں، آپ کا جو سیاسی نظریہ ہو، اعتدال کو،
سنجیدگی کو، متانت کو، سمجھ بوجھ کو اختیار کریں، اور جذباتیت کا خاتمہ
کریں، ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں، ٹھنڈے دل و دماغ سے فیصلے کریں۔ اگر ہم نے
اپنا یہ رویہ نہ بدلا، تو پھر یاد رکھو کہ جس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے
اپنی رحمت سے ہمیں پاکستان عطا فرمایا، خطرہ ہے کہ کہیں ہم سے یہ نعمت چھین
نہ لے، آدھا ملک ہم گنواں بیٹھے اسی جذباتیت کی وجہ سے، اسی گالی گلوچ کی
وجہ سے، اسی ناسمجھی کی وجہ سے، اب آدھا رہ گیا ہے، خدا کے لئے اس کی تو
حفاظت کرلو! جو بات زبان سے نکالو وہ تمہاری سولہ آنے سچی ہونی چاہئے،
دوسروں پر الزام تراشی سے پہلے سوچ لو کہ کیا تم اللہ کے پاس جاکر اس الزام
کو ثابت کرسکو گے، اگر نہیں ثابت کرسکوگے تو جہنم کے انگارے تمہارا مقدر
ہیں‘اپنی زبان کو قابو میں لاؤ، اپنی سوچ کو قابو میں لاؤ، اپنی فکر کو
قابو میں لاؤ، اعتدال پیدا کرو، سنجیدگی پیدا کرو، ایک دوسرے کی بات ٹھنڈے
دل سے سمجھنے کا حوصلہ پیدا کرو‘ میں آپ حضرات سے اس عظیم اجتماع کے اندر
یہ گزارش کرتا ہوں، یہ درخواست کرتا ہوں، ہاتھ جوڑ کر یہ کہتا ہوں کہ خدا
کے لئے نفرتوں کے بیج بونا ختم کردو، نفرتوں کو اپنے دل سے نکال دو، اشتعال
انگیز یاں ختم کردو، اور ٹھنڈے دل و دماغ سے اللہ سے رجوع کرکے مانگو کہ یا
اللہ کون سا راستہ ہمارے لئے بہتر ہے، اور اس پر عمل کرو“۔مجھ سمیت تمام
پاکستانیوں کو جناب تقی عثمانی صاحب کی درج بالا نصیحت پر عمل کرنے کی اشد
ضرورت ہے۔ اللہ کریم پاکستان اور پاکستانیوں کے حال پر رحم فرمائے۔ آمین ثم
آمین |