ملت میں موجودہ بیداری خوش آئند ہے

وطن عزیز میں امت مسلمہ پر ہونے والے نت نئے حملوں نے عوام کو تو پہلے ہی فکر مند کردیا تھا اب رہنماوں نے اس پر بڑی سنجیدگی سے غورو خوض شروع کردیا ہے جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس سلسلے میں دہلی سے دیوبند تک اور ممبئی سے کیرالا تک مختلف سرگرمیاں ہورہی ہیں۔ دیوبند کے اندر جمیعت العلماء ہند کے اجلاس سے دونوں دھڑوں کے اتحاد کا ملنے والا اشارہ خوش آئند ہے۔ دہلی میں نوید حامد صاحب کی قیادت میں مشاورت کا اجلاس ہوا ۔ اس میں جماعت اسلامی ، جمیعت اہلحدیث کے علاوہ مولانا توقیر رضا خان صاحب کے علاوہ ملک بھر کے دانشوروں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ اس کے بعد سابق رکن پارلیمان محمد ادیب صاحب نے دانشوران ملت کے ساتھ موجودہ حالات پر گفت و شنید کی ۔ ممبئی میں مولانا سجاد نعمانی بھی اس طرح کی ایک نشست کرچکے تھے اور کیرالا میں پاپولر فرنٹ کے بہت بڑے جلسہ میں بھی ملت کی رہنمائی کی گئی۔

کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یہ سب الگ الگ کیوں ہورہا ہے؟ اگر سب ایک ساتھ ہوتے تو اچھا تھا ۔ یہ اچھی خواہش ہے لیکن مشکل بلکہ غیر ممکن ہے۔ ویسے سب ساتھ نہ سہی تو الگ الگ کوششوں میں بھی کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ ان سرگرمیوں میں تصادم نہ ہو ۔ امت میں فی الحال باہمی مخالفت کا رحجان خاصہ کم ہوا ہے اور اس کا کریڈٹ مودی اور یوگی کے ذریعہ پیدا کردہ حالات کو جاتا ہے۔ ملک میں مسلمانوں کی تعداد کم و بیش بیس کروڈ ہے ۔ ملک کت طول و عرض میں مسلمان مختلف حالات سے برسرِ پیکار ہیں۔ ان مختلف النوع داخلی و خارجی صورتحال کے لیے کوئی ایک حکمت عملی کارگر نہیں ہوسکتی ۔ اس لیے امت سبھی باتوں کو سنتی ہے اور مقامی سطح اس کی روشنی میں حسبِ ضرورت اور قابلِ عمل حکمت وضع کرتی ہے۔ ان سب کا یکساں ہونا نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔ یہ نہایت معقول رویہ ہے اس سے بلا وجہ پریشان ہونا مناسب نہیں ہے۔

علماء اور دانشوروں کی اس رہنمائی کے علاوہ موجودہ حالات کو سمجھنے میں دہلی کے جہانگیر پوری کے اندر برپا ہونے والے حالیہ فرقہ وارانہ جھڑپوں کی بابت روہنی عدالت کے جج سے بھی مدد ملتی ہے۔ انہوں نے تشدد کے جس بنیادی سبب کی نشاندہی فرمائی تھی اس پر توجہ ہونی چاہیے ۔ یہ بات اس لیے اہم ہے کیونکہ اکثر فساد کے ذیلی اور جزوی وجوہات میں جھوٹ ملا کر بات کا بتنگڑ بنا دیا جاتا ہے تاکہ اصل وجہ کی پردہ پوشی کی جائے۔ عدالت نے غیر قانونی جلوس کو روکنے میں ناکامی پر دہلی پولیس کی سرزنش کی اور اس معاملے کی تحقیقات کرکے ملوث افسران کی جوابدہی طے کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایڈیشنل سیشن جج گگن دیپ سنگھ نے کہا کہ غیر قانونی جلوس کو روکنے اور ہجوم کو منتشر کرنے کے بجائے پولیس افسران کو راستے میں اس کے ساتھ دیکھا گیا۔ انہوں نے ایف آئی آر کے مندرجات کا حوالہ دے کر کہا کہ انسپکٹر راجیو رنجن کی قیادت میں جہانگیر پوری پولیس اسٹیشن کا عملہ مذکورہ غیر قانونی جلوس کے ساتھ جا رہا تھا یعنی اسے تحفظ فراہم کررہا تھا جبکہ اس کا کام تو پہلے ہی مرحلے میں مجمع کو منتشر کردینا تھا۔

جسٹس گگن دیپ کے مطابق یہ عمل بنیادی طور پر مقامی پولیس کی جانب سے مذکورہ بلا اجازت نکلنے والے جلوس کو روکنے میں مکمل ناکامی کا عکاس ہے۔انہوں نے سینئر افسران کے ذریعہ معاملے کے اس پہلو نظر انداز کرنے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے پولیس چیف کو تحقیقات کرواکے قصوروار افسران کا احتساب کرنے کا حکم دیا تاکہ مستقبل میں پولیس کی ناکامی کے سبب ایسے واقعات رونما نہ ہوں ۔ جسٹس گگن دیپ سنگھ کے بے لاگ تبصرے سے مندرجہ ذیل باتیں نکل کر آتی ہیں :
فساد کا بنیادی سبب بنا ایک غیر قانونی جلوس تھا
پولیس نے اسے منتشر کرنے کے بجائے اس کو تحفظ فراہم کیا
پولیس اہلکار اور تشدد کے ذمہ دار ایک دوسرے کے یارِ غار یعنی باہم ملے ہوئے ہیں
آئندہ تشدد کو رونما ہونے سے روکنے کے لیے کوتاہی کرنے والےپولس اہلکاروں کا احتساب کرکے ان کو اس کی سزا دینا چاہیے

اس کے برعکس حکومت اور انتظامیہ کے اشارے پر کام کرنے والا نمک خوار ذرائع ابلاغ اپنا بیان جلوس سے نہیں بلکہ مسجد سے شروع کرتا ہے۔ وہ نہیں بتاتا کہ یہ پہلا نہیں بلکہ تیسرا جلوس تھا۔ اس کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ مسلمانوں کی جانب سے پہلے دو جلوسوں پر نہ تو کوئی اعتراض ہوا اور نہ کسی ردعمل کا اظہار ہوا۔ انہوں نے مذکورہ جلوسوں کو نظر انداز کردیا کیونکہ وہ مذہبی جلوس تھے ۔ تیسرا بلا اجازت نکلنے والا جلوس مذہبی نہیں بلکہ فسادی جلوس تھا ۔ اس میں شامل لوگ تلواریں لہرا رہے تھے ۔ ان کے پاس بندوق بھی تھی۔ افطار کے عین پہلے وہ جلوس مسجد کے سامنے رک زور زور سے ڈی جے بجانےاور وہ اشتعال انگیز نعرے لگانے لگا۔ پولیس کے تحفظ نے اس کا حوصلہ اس قدر بلند کردیا کہ اس نے مسجد میں داخل ہوکر وہاں گیروا پرچم لہرانے کی کوشش کی۔ اس کے شواہد موجود ہیں ۔
پولیس اگر اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے ہوئے اس جلوس میں شامل بلوائیوں کو روک کر منتشر کردیتی تو تشدد نہیں پھوٹتا لیکن اس نے پہلے تو جلوس نکلنے دیا اور پھر اس کو اپنی من مانی سے نہیں روکا ۔ اس کے بعد مسلمانوں سے کیا توقع کی جائے ؟ وہ اپنی مسجد میں گھس کر گیروا پرچم لہرانے والوں کا شکریہ ادا کریں ؟بفرضِ محال جو ناممکن ہے انہوں نے اگر ایسا کیا ہوتا تو وہ بلوائی ان کے گھروں میں گھس جاتے ۔ آخرفسادیوں کو کہیں نہ کہیں تو روکنا ہی پڑتا۔ یہی ہوا پانی جب سر سے اونچا ہوگیا تو مسلمانوں کا فطری ردعمل سامنے آیا ۔اپنا اوراپنے شعائر کا دفاع کرنا ان کی دینی ذمہ داری اور آئینی حق ہے۔ مسلم نوجوانوں نے جب اپنے بنیادی حق کا ستعمال کیا تو فسادیوں کی ہیکڑی نکل گئی ۔ بلوائی جئے شری رام کی پٹیاں پھینک کر اور تلواریں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ یہ ردعمل نہیں ہوا ہوتا تو ہر روز جلوس نکلتا لیکن اب وہ دوبارہ شرارت کرنے سے قبل دس بار سوچیں گے ۔ پولیس جس انصار پر فساد بھڑکانے کا الزام لگا رہی ہے اس کا ویڈیو موجود ہے۔ اس نے ایک ہندو نوجوان کو چاقو سمیت رنگے ہاتھ پکڑا اور سمجھا بجھا کر چھوڑ دیا ۔ اس کے باوجود اسے ماسٹر مائنڈ بناکر پیش کیا جارہا ہے اور عدالت بھی اسے پولیس ریمانڈ پربھیج رہی ہے۔

مسلمان جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ پولیس یہی ناانصافی کرے گی لیکن ان کے پاس اپنی مدافعت کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے اور وہ جس حد تک ممکن ہے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ انہیں یہ بھی پتہ ہے عدالت کا ہر جج گگن دیپ سنگھ کی مانند حق بات نہیں کرے گا ۔ ویسے موصوف بھی مسلم ملزمین کو ضمانت دینے کی جرأت کا مظاہرہ نہیں کرسکے اور پولیس سے یہ نہیں پوچھا کہ جلوس میں شامل بلوائی کیوں گرفتار نہیں کیے گئے ؟ ویسے ہر کسی اپنی ملازمت محفوظ رکھنی ہوتی ہے اس لیے موجودہ جابرانہ نظام میں گگن دیپ صاحب نے جو کیا وہ بھی بہت ہے ۔ فساد کے پہلے ، بعد اور دوران اس کی سب سے بڑی قیمت عام مسلمان چکاتا ہے۔ اس کا گھر جلتا ہے۔ اس کو دوکان لٹتی ہے۔ وہ نہ صرف زخمی ہوتا ہے بلکہ جامِ شہادت بھی نوش فرماتا ہے۔ دین اور قوم کےعزت و ناموس کا تحفظ زبانی جمع خرچ سے نہیں بلکہ اسی طرح ہوتا ہے۔

عام مسلمان چونکہ ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر قلم چلانے والے دانشوروں اور علمائے کرام سے زیادہ حقیقت پسند ہوتے ہیں اس لیے اول تو وہ کسی کو چھیڑتے نہیں ہیں اور اگر کوئی چھیڑے تو چھوڑتے نہیں ہیں ۔ یہ ان کا حق ہے جس سے دنیا کا کوئی قانون ان کو محروم نہیں کرسکتا ۔ ایسے میں جب کوئی دانشور ملت کے غم میں ان کو اشتعال انگیزی سے بچنے کی تلقین فرماتا ہے تو بلا واسطہ اعتراف کرلیتا ہے کہ فساد کی بنیادی وجہ مسلم نوجوانوں کا مشتعل ہوجانا ہے۔ ایسا کرنے سے مسلمانوں کے خلاف گھڑے جانے والے جھوٹ کی نادانستہ تائید ہوجاتی ہے۔ اس لیے ملت کے علماء و دانشوروں کو چاہیے کہ وہ فساد سے قبل انتظامیہ سے رابطہ کرکے اس کو قابو میں کرنے کے لیے حتی الامکان کوشش کریں۔ جہاں کہیں فساد کا امکان ہو وہاں وفد کی شکل میں جاکر پولیس کو اپنی ذمہ داری نبھانے پر مجبور کریں ۔ اس میں کامیابی نہ ہو تو تشدد کے بعد فساد زدگان کے آنسو پونچھیں۔ ان کا حوصلہ بڑھائیں ۔ ان کی مالی مدد کریں ۔ بے قصور گرفتار شدگان کی رہائی کے لیے قانونی چارہ جوئی کا اہتمام کریں اور فسادیوں کوعدالت سے سزا دلانے کی سعی کریں۔ اس کے بجائے محض صبر و تحمل کی تلقین پر اکتفاء کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس وعظ و نصیحت کے بغیر بھی لوگ تو یہی کریں گے۔ ملت کے ناصحین کرام سے نوجوانان ِ امت کا یہی التماس ہے؎
اہل نصیحت جتنے ہیں ہاں ان کو سمجھا دیں یہ لوگ
میں تو ہوں سمجھا سمجھایا مجھ کو کیا سمجھاتے ہیں


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2075 Articles with 1284102 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.