1980 کا سال تھا۔ ایک سادہ سا سیاہ فام امریکی، رچرڈ
ولیمز، اپنے ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک اس کی آنکھیں اسکرین پر
جمی رہ گئیں۔ رومانیہ کی ایک خاتون کھلاڑی ٹینس ٹورنامنٹ جیت کر چالیس ہزار
ڈالر کا چیک وصول کر رہی تھی۔ یہ رقم اس کی سالانہ تنخواہ سے زیادہ تھی۔
رچرڈ کے لیے یہ منظر زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ بن گیا۔
کسی کو کیا معلوم تھا کہ یہی لمحہ کھیل کی دنیا کی تاریخ بدل دے گا۔ اس
لمحے ایک غریب، گمنام، کمزور، مگر خواب دیکھنے والا باپ اٹھا، اور دل میں
فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنی آنے والی بیٹیوں کو ٹینس چمپئن بنائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس وقت رچرڈ کی بیٹیاں پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں، نہ ہی
وہ ٹینس کے بارے میں کچھ جانتا تھا، اور نہ ہی اس کے پاس وسائل تھے۔ لیکن
جو لوگ خواب کو حقیقت سے بڑا مان لیتے ہیں، وہ رکاوٹوں سے نہیں ڈرتے۔
اس نے 78 صفحات پر مشتمل ایک خاکہ تحریر کیا۔ پانچ سال تک ویڈیوز، میگزین
اور معلومات جمع کرتا رہا، خود تھوڑا بہت کھیلنا سیکھا، اور پھر اپنی
بیٹیوں کو ٹینس کے بنیادی اصول سکھانے لگا۔ یہ سبق کسی کوچنگ اکیڈمی میں
نہیں دیا گیا، بلکہ کمپٹن کی پبلک ٹینس کورٹ میں، جہاں خالی ڈبوں سے نکالی
گئی پرانی گیندوں سے پریکٹس ہوتی تھی، اور جہاں قدم قدم پر گینگ وار کا
خطرہ تھا۔
ایک باپ جو اپنی بیٹیوں کے خواب کی حفاظت کرتے ہوئے کئی بار گینگسٹرز کے
ہاتھوں مار کھاتا رہا، جس کی ناک، دانت اور انگلیاں توڑ دی گئیں مگر حوصلہ
کبھی نہیں ٹوٹا۔ اُس نے خود سے کہا تھا: "تاریخ مجھے دانتوں کے بغیر، مگر
ہمت کے نشان کے طور پر یاد رکھے گی۔"
سال گزرے۔ وینس اور سرینا بڑی ہوئیں۔ لوگوں کی نظریں، نسلی جملے، میڈیا کے
تعصب، اور ہر طرح کی رکاوٹوں کے باوجود وہ آگے بڑھتی گئیں۔ ایک دن وینس
ومبلڈن کے سبز میدان میں پہنچی۔ وہ پہلی بار تھی جب سیاہ فام لڑکی کی
گرجدار سرو نے انگریز اشرافیہ کے قدموں تلے زمین نکال دی۔
اور پھر… نیٹ سے ٹکرائی ہوئی ایک گیند نے تاریخ رقم کی۔ وینس ولیمز نے اپنا
پہلا گرینڈ سلام جیتا، اور باپ رچرڈ ولیمز آنکھوں میں آنسو لیے دیوانہ وار
ناچ رہا تھا۔
یہ صرف ایک فتح نہیں تھی۔ یہ اُن سب بچوں کی فتح تھی جو خواب دیکھتے ہیں
مگر وسائل نہیں رکھتے۔ یہ اُن سب باپوں کی جیت تھی جو اپنے بچوں کے لیے
دنیا سے لڑتے ہیں۔
سرینا نے بعد میں 23 گرینڈ سلام ٹائٹلز جیتے، دنیا کی سب سے بڑی کھلاڑی
کہلائیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ ان بہنوں نے ٹینس کورٹ سے باہر بھی نسل
پرستی، نفرت اور تعصب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان کی موجودگی خود ایک بیانیہ
تھی کہ "ہم یہاں صرف کھیلنے نہیں آئے، ہم تاریخ لکھنے آئے ہیں۔"
رچرڈ ولیمز کا خواب، جس پر دنیا ہنستی تھی، آج لاکھوں خوابوں کو حوصلہ دیتا
ہے۔ یاد رکھیں، کبھی کبھی صرف ایک شخص ہی کافی ہوتا ہے۔ اگر اس کے دل میں
یقین ہو، تو خدا بھی اس کے ساتھ چل پڑتا ہے۔
|