با محمد ہوشیار‎‎

عقیدہ کے متعلق فلسفیوں کا کہنا ہے یہ انسان کے عقلی و منطقی سوالوں کے جواب میں گتھیوں میں الجھی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ جب کے دوسری جانب مذہبی پیروکار عقیدے کو فطری لائحہ عمل سے تشبیہ دیتے ہیں۔

دنیا کے کم و بیش 8 ارب انسان سینکڑوں مذاہب کے پیروکار ہیں تمام مذاہب کی بنیاد عقائد سے جڑی ہوتی ہیں۔ یہ عقائد فطری و غیر فطری، منطقی و غیر منطقی، عقلی و معجزاتی تمام قسم کے عوامل کا مجموعہ ہے۔ البتہ تمام عقائد اور مذاہب میں پیغمبر، رسول، نبی، گرو، اوکلی اوتار، بدھا اور ان جیسے بہت سے راہنما ہیں جن کی پیروی مذاہب کے لیے عقیدے کا درجہ رکھتی ہیں۔

تمام مذاہب کے راہنماؤں نے اپنی زندگی میں ان اصولوں کو نافذ کر کے خود کو پیروکاروں کے سامنے مشعل راہ بنا کر پیش کیا جس سے متاثر ہو کر لوگوں نے اس مذہب و عقیدے کو اختیار کیا۔ دنیا میں سب سے زیادہ پیروکار ابراہیمی مذاہب (اسلام، عیسائیت و یہودیت) سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ اس کے بعد غیر ابراہیمی مذاہب (ہندو مت، بدھ مت و سکھ مذہب) کے پیروکاروں کی کثیر تعداد شامل ہیں۔

ابراہیمی و غیر ابراہیمی مذاہب کے بنیادی عقائد کا واضح فرق کائنات کے خالق کی کھوج سے جڑا ہے۔ ابراہیمی مذاہب کے عقائد میں کائنات کی تخلیق صرف ایک منبع سے منسوب ہے اسکو خدا کا نام دیا گیا ہے جبکہ غیر ابراہیمی مذاہب میں ایک یا ایک سے زائد خداؤں کے عقائد کا عمل دخل نظر آتا ہے۔

عیسائیت ڈھائی ارب پیروکاروں کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے جبکہ اسلام دو ارب پیروکاروں اور 50 سے زائد ممالک پر پھیلا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ اسلام بطور مذہب کے تمام عقائد، نظریات و عبادات کا منبع و سر چشمہ صرف ایک واحد ذات ہے۔ اسلام کو ابراہیمی مذاہب کے آخری مذہب کا درجہ بھی حاصل ہے۔ اسی نسبت سے اسلامی شریعت تمام سابقہ شریعتوں کا مجموعہ ہے اور نبوت آخری نبوت ہے۔

گزشتہ صدی کے سب سے بڑے پیروکار و عاشق امام احمد رضا خاں بریلوی کا کہنا ہے:
"ہم نے خدا کو واحد و یکتا اسلیے مانا۔ کیوں کہ ہمارے نبیﷺ نے خدا کو واحد و یکتا مانا"

یہ وہ ایک سادہ کلیہ ہے جو دین اسلام کے پیروکاروں کے عقیدے کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ اسلام کے داعی و پیروکاروں کی آخری پیغمبر و نبی حضرت محمدﷺ سے نسبت کا یہی معیار ہے جو ان کے عقیدے کی کاملیت پر مہر ثبت کرتا ہے۔

باقی مذاہب کی مانند اسلام کی شریعت و عقیدے کا منبع و سرچشمہ سرکارﷺ کی اسوہ حسنہ میں پہناں ہے۔ اسوہ حسنہ جو افعال، اقوال، عبادات، احکامات و ہدایات سے کا مجموعہ ہے۔ چونکہ سرکارﷺ کی ذات معصوم الخطاء اور تقدیس کے ارفع منصب فائز ہے اس تناظر میں جب کوئی اپنی کم علمی اور جاہلیت کی بنیاد پر سرکارﷺ کی ذات یا اسوہ حسنہ پر رائے دیتا ہے تو وہ نہ صرف صریح بہتان و گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے بلکہ اربوں لوگوں کی دل آزاری کا موجب بھی بنتا ہے۔

مسلمانوں کے عقیدہ ختم نبوت و ناموس رسالت کو اختر شیرانی نے ایک جملے میں مکمل کر ڈالا ہے:
"باخدا دیوانہ باش و با محمدﷺ ہوشیار"

دنیا کے تمام مذاہب کے مبلغ و پیشواء باہمی بھائی چارے اور امن کی درس دیتے ہیں جسکا بنیادی اصول تمام عقائد کا احترام اور مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی جیسے گھناؤنے فعل کی مذمت کرنا شامل ہے۔ لیکن یہ بات تواتر سے مشاہدے کا حصہ ہے تمام مذاہب کی صفوں میں موجود شرپسند عناصر اپنے ذاتی، سیاسی، سماجی و کاروباری مقاصد کو مقدم جان کر امن و بھائی چارے کے تمام اصولوں کو پس پشت ڈال کر ایسے گھناؤنے فعل کا ارتکاب کرتے ہیں جو دنیا بھر میں موجود مذہبی پیروکاروں کو بے چین اور مشتعل کر دیتی ہے۔

ایسے تمام شرمناک افعال کے تدارک کا واحد حل یہی ہے جتنی بھی دنیا کی مذہبی ریاستیں ہیں وہ اپنے مذہب کے عقائد کے تحفظ کو ریاستی سطح پر یقینی بنائیں اور دنیا کے کسی کونے پر ہونے والی ایسی گھٹیا حرکت کی ریاستی و سفارتی سطح پر مذمت کی جائے۔ متعلقہ ریاست سے اس حرکت پر ان کے ریاستی قوانین کے مطابق سزا کا مطالبہ کیا جائے۔

چند روز قبل ہندوستان میں ایک سیاسی جماعت کی راہنما نے حضرت محمدﷺ کی ذات اقدس کے متعلق نازیبا رائے کا اظہار کیا جس کو پہلے پہل تو سیاسی جماعت نے سراہا مگر بعد ازاں دنیا بھر کے مسلم ممالک کی جانب سے سخت ردعمل کے بعد اس راہنما کی پارٹی رکنیت معطل کر دی گئی اور تحقیقات کا حکم دے دیا۔

مستقبل میں بھی ایسی کسی بھی گھناؤنی حرکت، جس میں کسی بھی مذہبی عقیدے، شخصیت یا مذہبی وابستگی کے معاملے پر نفرت انگیز و نازیبا رائے کا عنصر شامل ہو۔ اس پر پوری دنیا سے غیر جانبدار اور بلاتفریق مذمتی ردعمل ہی روک تھام کا سبب بن سکتا ہے۔

دنیا کے کسی بھی شخص کو انفرادی یا اجتماعی حثیت میں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی بھی دوسرے مذہب کے عقیدے، شخصیات و عبادات کے متعلق نفرت انگیز بیانات دے۔ کیونکہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے نفرت کا ردعمل شدید نفرت کی صورت میں ہی دیا جاتا ہے جو کہ انتشار و فساد کا سبب بنتا ہے۔

تمام مذاہب میں معجزات اور غیر فطری واقعات سے مزین روایات موجود ہیں۔ ان روایات کے پس منظر کو جانے بغیر ان پر رائے دینا صریحا بیوقوفی ہے۔ اسلیے تمام انسانوں کو دوسرے مذاہب میں موجود ایسے موضوعات پر رائے دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ جو روایت آپ کی نظر میں بھونڈی اور غیر عقلی ہو، مگر وہ اس مذہب کے پیروکار کے لیے حرمت کا درجہ رکھتی ہے۔

اسکا بہتر حل یہی ہے جب تک کوئی شخص تمام مذاہب کے عقائد پر مکمل عبور و آگاہی حاصل نہ کر لے وہ کسی بھی عقیدہ و مذہب پر تنقید سے گریز کرے۔

میری ناقص رائے میں دنیا کو کوئی بھی انسان ایسی مقدس ہستی جس کے پیروکار کروڑوں کی بجائے ارب ہا تعداد میں موجود ہوں اس کی توہین یا گستاخی کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ وہ بس اپنے ذہن، فکر، سوچ، استدلال اور تریبت میں موجود نیچ و گھٹیا پن کو دنیا کے سامنے انڈیل رہا ہوتا ہے۔
ایک پنجابی شاعر نے اس عمل کیا ترجمانی کیا خوب انداز سے مکمل کی ہے:
سب غیب آں تو غیب ہے رب وڈا
سوہنے واسطے غیب تاں کوئی نئی
لاریب حضورﷺ دی ذات جیویں
اینج ہور لاریب تاں کوئی نئی
جے ہوندا نائب وی حاکم خود ورگا
تاں بن دا دوجا نائب تاں کوئی نئی
تیری اکھ وچ عیب ہے بد بختا۔۔۔!
میرے نبیﷺ وچ عیب تاں کوئی نئی۔۔۔!
 

Asad Ur Rehman Bhatti
About the Author: Asad Ur Rehman Bhatti Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.