کانپور تشدد کے بعد یوگی پھر سے اپنے پرانے اوتار(رنگ
ڈھنگ )میں آگئے۔ ظاہر ہے اداکاری کی ایک حد ہوتی ہے اس کے بعد حقیقت عیاں
ہوجاتی ہے۔ کہتے ہیں سادھو کی انا نہیں ہوتی مگر یوگی کا آہنکار ان کا سب
سے بڑا دشمن ہے اور وہ کئی بار رسوا ئی کا سبب بن چکا ہے مگر وہ اس سے سبق
نہیں سیکھتے بلکہ الٹا سبق سکھانے لگتے ہیں ۔ کفیل خان کے معاملے میں متھرا
سے لے دہلی تک ہر جگہ عدالت نے پھٹکار لگائی لیکن ان کی عقل ٹھکانے نہیں
آئی ۔ سی اے اے تحریک میں شامل مظاہرین کے پوسٹرس کو نہ صرف الہ باد ہائی
کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا بلکہ سپریم کورٹ نے جرمانے کی رقم واپس کرنے
کا حکم دے دیا پھر بھی بات سمجھ میں نہیں آئی ۔ اب پھر کانپور میں وہی
غلطی دوہرائی جارہی ہے۔ پچھلے پوسٹر میں پتہ بھی تھے اس بار نہیں ہیں ۔ یہ
عجیب دوغلا پن ہے کہ نوپور اور نوین تو اپنا پتہ عوامی نہ کرنے کی گہار لگا
تے ہیں۔ ان کو پولس کا تحفظ بھی فراہم کردیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس بے قصور
مظاہرین کو گرفتار کرکے ان کی تصویر سمیت پوسٹر چسپاں کردئیے جاتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کو چاہیے کہ وہ سبق سکھانے کے بجائے اب سبق
سیکھیں ۔ مسلمان اگر ڈرپوک ہوتے تو سی اے اے کے بعد پھر سے احتجاج نہ کرتے
۔ یہ قوم نہ ڈرتی ہے اور نہ جھکتی ہے۔نوپور شرما اور نوین جندل کے معاملے
میں ڈرنے اور جھکنے والوں کو ساری دنیا نے دیکھ لیا ۔ اس بات کی گواہی خود
بی جے پی کے رکن پارلیمان سبرامنم سوامی نے اپنے حالیہ ٹویٹ میں دی ۔ انہوں
نے لکھا مودی سرکار کے آٹھ سالہ دورِ اقتدار میں بھارت ماتا کو شرم سے سر
جھکانا پڑا ہے۔ اس کی مثالیں پیش کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ہم لداخ پر چینیوں
کے سامنے رینگے، روسیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے، کواڈ میں امریکیوں کے
سامنے میاوں میاوں کرنے لگے لیکن چھوٹے قطر کے آگے تو شاسٹنگ ڈنڈاوت
(سربسجود) ہوگئے۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کی خرابی تھی۔یہ تو قدیم ہندو
سمراٹ کا بیان ہے لیکن جدید یودھا کپل مشرا کہتا ہے’’ان کا ملک اسلامی ملک
ہے۔ وہ مسلمانوں کے حقوق کی بات کررہے ہیں۔ کھلے عام معاشی بائیکاٹ اورمذہب
کے نام پر ملازمت سے نکالنے بات ہورہی ہے۔یہ صرف ہندو مذہب ہے جس کے خلاف
مذاق اور گالی کو سزا نہیں ملتی بلکہ انعام دیا جاتا ہے۔ہندو اس دنیا میں
دوسرے درجہ کا شہری ہے‘‘۔ مودی یگ میں اگر ہندوتوا نواز رہنما یہ اعتراف
کرنے لگیں تو کوئی کیا کرے؟
کانپور کے تشدد پر نہایت مختصر اور جامع تبصرہ سماج وادی پارٹی کے قومی صدر
اکھلیش یادو نے کیا۔ انہوں نے امن کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ عزت مآب صدر،
وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے شہر میں رہتے ہوئے بھی پولیس اور خفیہ
ایجنسیاں کی ناکامی کی وجہ سے بی جے پی ترجمان نوپور شرما کے ذریعہ دیئے
گئے اشتعال انگیزبیان سے ، کانپور میں جو بدامنی پھیلی ہے ، اس کے لئے بی
جے پی لیڈر کو گرفتار کیا جائے‘‘۔ سچائی یہی ہے کہ اگر نوپور شرما اور نوین
جندل کی بروقت گرفتاری عمل میں آجاتی تو نہ بند ہوتا اور نہ تشدد پھوٹتا۔
کانپور کے اندر اگر انتظامیہ چوکس ہوتا تو یہ تشدد ہر گز نہیں ہوتا ۔ پولیس
اور خفیہ ایجنسی حالات کا اندازہ لگانے اور اپنی ذمہ داری نبھانے میں بری
طرح ناکام ہوگئی اور اب اس کی پردہ پوشی کے لیے خاطر پوسٹر اور بلڈوزر کا
سہارا لیا جارہا ہے۔ یہ ضرورت اس لیے آن پڑی کیونکہ یوگی سرکار کو یہ غرہّ
ہے کہ اس کی موجودگی میں تشدد نہیں ہوسکتا حالانکہ یہ غلط دعویٰ ہے۔
امسال یوم جمہوریہ کے موقع پر الہٰ باد کے اندر طلباء کا زبردست احتجاج
ہوا۔ اس کو بھی سختی سے کچلا گیا ۔ ہاسٹل میں گھس کر طلباء کو زدوکوب کیا
گیا مگر نہ پوسٹر لگا اور نہ بلڈوزر چلا۔ ان مظاہرین کے خلاف این ایس اے
اور گینگسٹر ایکٹ کے تحت بھی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس لیے یوگی انتظامیہ کی
یہ حرکت یکطرفہ بغض و عناد کی بنیاد پر ہے۔ یوگی میں اگر سبق سکھانے کی
خاطر بلڈوزر چلانے کی ہمت تھی تو لکھیم پور میں کسانوں پر گاڑی چڑھانے والے
آشیش مشراکے گھر پر چلا دیتے لیکن وہ وکاس دوبے نہیں تھا۔ آشیش کے والد
اجئے مشرا وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ ہیں اس لیے یوگی ڈر گئے ۔ اب جو
خود ڈرتا ہو اس سے بھلا کون ڈرے گا ؟ اب یہ کہا جارہا ہے کہ کانپور کی نئی
سڑک پر تقریباً 100 غیر قانونی عمارتوں پر بلڈوزر چلانے کی تیاری چل رہی
ہے۔ پہلے مرحلے میں ان 15 عمارتوں کو نشانہ بنایا جائے گا جنہیں ضلعی
انتظامیہ نے مقفل کردیا تھا، مگرسیل توڑ دی گئی۔ سوال یہ ہے تشدد سے قبل
انتظامیہ کہاں سورہا تھا اور اب اچانک ان غیر قانونی عمارتوں کا خیال کیوں
آیا؟ کیا یہ ماورائےقانون اپنا زور دکھا کر عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش
نہیں ہے؟
اتر پردیش کے کانپور میں احتجاج کے دوران تشدد کے معاملے میں یوگی آدتیہ
ناتھ کی سختی کے بعد پولیس نے 1000 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے
جن میں 40 نامزد ہیں اور24 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ تشدد کے دوران 20
سے زائد وائرل ویڈیوز کی بنیاد پر پولیس کی 10 ٹیمیں ملزمان کی گرفتاری کے
لیے چھاپے مار رہی ہیں۔ پولیس کارروائی سے ایسا نہیں لگتا کہ ساری ویڈیوز
کو غیر جانبداری کے ساتھ دیکھا جارہا ہے کیونکہ سوشیل میڈیا میں تو ایسی
ویڈیو بھی نظر آئیں جن میں پتھر بازی کرنے والے ہندو نوجوانوں کو سراہا
جارہا ہے۔ پولیس کی موجودگی میں گیروا گمچھا باندھے پتھر پھینکنے والوں کی
ویڈیوز ملت ٹائمز جیسے دلیر چینلس نے نشر کیں تو ان کی بنیاد پر ملزمین کو
گرفتار کرنے کے بجائے الٹا چینل کے مدیر شمس تبریز قاسمی کے خلاف مقدمہ درج
کرلیا گیا ۔اسے کہتے ہیں اندھی نگری چوپٹ راج۔
پولیس کی یک طرفہ کارروائی کی وجہ سے مسلمانوں میں جو غم و غصہ ہے اس کی
ترجمانی شہر قاضی عبدالقدوس ہادی نے کی ۔ انہوں نےکہا کہ تشدد دو نوں
فریقین شامل تھے۔ پولیس نے ایک فریق کے خلاف کارروائی کی ہےلیکن دوسری طرف
کے لوگوں پر کوئی کارروائی نہیں کی جارہی، جبکہ وہ بھی جرم کے لیے یکساں
طور پر ذمہ دار ہیں ۔قاضی عبدالقدوس ہادی اپنے دعوے کی حمایت میں بتاتے ہیں
کہ ایف آئی آر کے اندر نامزد تمام 36 افراد کا تعلق ایک ہی طبقہ سے ہے۔
ان کا سوال ہے ،آخر کیا وجہ ہے کہ دوسرے طبقہ سے وابستہ افراد کے خلاف نہ
تو ایف آئی آر درج کی جاتی اور نہ ہی انہیں گرفتار کیا جاتا؟ ہادی نے یہ
سنگین الزام بھی لگایا کہ جب وہ کانپور پولیس کمشنر کے کہنے پر لوگوں کو
سمجھانے اور امن برقرار رکھنے کی اپیل کرنے کے لئے گئے تو ان کے اور بیٹوں
کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔اس واقعہ کے ویڈیو ثبوت موجود ہیں۔ اس کے باوجود
پولیس نے ان کے ایک معاون کو گرفتار کر لیا۔ایسی اور بھی شکایتیں درج کی
گئی ہیں کہ جو مسلمان جائے واردات سے دور تھے ان پر ایف آئی آر درج کرلی
گئی۔ اس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ وزیراعلیٰ یوگی نے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس
(ڈی جی پی) کو گینگسٹر ایکٹ اور نیشنل سیکورٹی ایکٹ (این ایس اے) لگانے کی
ہدایت جاری کردی اور افسران کو ’ان کی جائیداد ضبط کرنے‘ اور ’ضرورت پڑنے
پر بلڈوزر استعمال کرنے‘ کی ہدایت بھی جاری کی۔
کانپور کے قاضی شہر مولانا عبدالقدوس نے نہایت جری انداز میں الزام لگایا
کہ تشدد ہندوتوا کے ہجوم نے شروع کیا تھا اس لیے ان کے خلاف قانونی
کارروائی کی جانی چاہیے۔ انہوں نے ڈرانے کی کوشش کرنے والوں کی آنکھ میں
آنکھ ڈال کر کہا کہ اگر بلڈوزر کا استعمال کیا گیا اور اسی طرح کی
کارروائی جاری رہی تو عوام کفن پہن کر سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ قاضی شہر نے
مقامی پولس انتظامیہ پر الزام لگا تے ہوئے کہا کہ 50 لوگوں کی گرفتاری کے
بعد اب 40؍ افراد کی فہرست جاری کردی گئی ہے۔ ان کے مطابق یہ اتنی بڑی بات
نہیں ہے کہ اس قدر لوگوں پر ایسی سخت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے پولیس
کمشنر سے ملاقات کرکے مسلم سماج کی بے چینی کو ان تک پہنچانے کی بات بھی کی
ہے جو نہایت معقول اقدام ہے ۔ کانپور کی مسلم تنظیموں نے بجا طور پر پولیس
کی کارروائی کو ’امتیازی سلوک‘قرار دیا ہے۔
ذرائع ابلاغ میں بار بار یہ کہا جارہا ہے چونکہ عمارتوں کے اوپر سے
پتھربازی ہوئی اس لیے انہیں منہدم کیا جائے گا لیکن اگر مسلمان سڑکوں پر
تھے تو ان پر مسلمانوں کی جانب سے پتھراو نہیں ہوسکتا اس لیے جن لوگوں نے
یہ کیا وہی اصل مجرم ہیں اور ان پر کڑی کارروائی ہونی چاہیے۔ سابق ڈی ایم
نیہا شرما نے کہا تھا کہ نئی سڑک کی غیر قانونی عمارتوں سے پتھر پھینکے گئے
اس لیے ان کا غیر قانونی حصہ گرا دیا جائے گا۔ نوپور شرما کی مانند نیہا
شرما کو معطل تو نہیں کیا گیا مگر ان کا تبادلہ کردیاگیا اور وہ منہ بسور
کر رخصت ہوچکی ہیں ۔ کانپور کی مقامی تنظیمیں اور قاضیٔ شہر تو اپنی ذمہ
داری بخوبی نبھا رہے ہیں لیکن قومی سطح کی مسلم اور غیر مسلم تنظیموں کو
بھی مداخلت کرکے معاملہ سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ نوپور اور نوین کے
بعد ایک نئی رسوائی کا سامان ہوجائے گا۔ ویسے ابھی حال ہی میں امریکہ کی
وزارت خارجہ نےدنیا میں مذہبی آزادی سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں
ہندوستان کے اندر اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں پرتشویش کا اظہار
کیا ہی ہے ۔ عربوں کے بعداگر امریکی بھی پھٹکار لگا دیں تو یہ زخم پھر سے
ہرا ہوجائے گا ۔
|