وزیراعظم شہباز شریف کے نام پہلا کھلا خط

جناب وزیر اعظم ۔ ایک ہفتہ پہلے لاہور کے جوبلی ٹاؤن میں 600 بستروں پر مشتمل انڈس ہسپتال کی افتتاحی تقریب میں آپ مہمان خصوصی تھے ۔اس تقریب کے دوران آپ نے دو مخیر افراد کو سٹیج پر بلایا ۔ پہلے شخص کا نام فیصل آفریدی تھا انہوں نے آپ کی ترغیب پر ہسپتال کو چلانے کے لیے پانچ سالوں میں دس ارب روپے دینے کا اعلان کیا ۔تالیوں کی گونج میں دوسرے بزنس مین گوہر اعجاز کو سٹیج پر بلایا گیا تو انہوں نے بھی ہسپتال چلانے کے لیے اوپن چیک دینے کا اعلان کیا لیکن آپ کے اصرار پر انہوں پانچ سالوں میں دس ارب دینے کا وعدہ کرلیا بلکہ گوہر اعجاز نے ہسپتال میں سو بستروں کا ڈائلسز سنٹر بھی بنوانے کا اعلان کیا ۔یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے ایک اشارے پر چند منٹوں 20 ارب روپے جمع ہوگئے ۔پاکستان میں ایسے ہی مخیر حضرات ہزاروں میں ہیں جو آپ کی اشارے پر کھربوں روپے عطیہ کرسکتے ہیں۔ ایسے مخیرافراد کے ہوتے ہوئے بجلی اور پٹرول کی حد سے زیادہ قیمتیں بڑھانے کی کیا ضرورت تھی ۔ آپ کے وزیرخزانہ نے یکے بعد دیگرے دو مرتبہ تیس تیس روپے فی لیٹر پٹرول بڑھا پٹرول پمپ مالکان کو راتوں رات کھرب پتی بنا دیا جبکہ عوام کے جسم میں بچا ہو ا خون بھی نچوڑ لیا گیا ۔ اگر امریکہ کے دشمن روس سے پٹرول سستے داموں نہیں خریدا جاسکتا تو ایران سے ہم انتہائی سستا تیل کیوں نہیں خرید لیتے ۔مجھے ایک دوست نے بتایا کہ ایران میں پٹرول 12 روپے فی لیٹر فروخت ہورہا ہے وہی پٹرول پاکستان پہنچنے کے بعد 21 روپے فی لیٹر دستیاب ہوسکتاہے۔کیا کسی مقدس کتاب میں لکھا ہے کہ مہنگا تیل سعودی عرب ہی سے خریدنا ہے۔ہمارے کئی بجلی گھرگیس سے چلتے ہیں اور پاکستانی عوام کا بڑا حصہ بھی گیس سے ہی استفادہ کرتا ہے جبکہ ایران سے گیس خریدنے کا معاہدہ زرداری دور میں ہوچکا ہے۔پھر ہم کیوں ایران سے تیل اور گیس نہیں خرید رہے جو ہمارا ہمسایہ بھی ہے اور مسلمان بھائی بھی ۔جناب وزیراعظم ایک بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں پندرہ بیس ہزار تنخواہ لینے والا مزدور اپنی موٹر سائیکل میں جیب سے پیسے نکال کر پٹرول خریدتا ہے لیکن اس ملک کی اشرافیہ اورتمام سرکاری چھوٹے بڑے افسراور حکومتی زعما، جی بھر کے مفت کا نہ صرف پٹرول استعمال کرتے ہیں بلکہ انہیں بجلی ، گیس اور سرکاری گاڑیاں بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔عوام بجلی کے ایک ایک یونٹ کو ترستے ہیں جبکہ اشرافیہ کے گھروں اور دفتروں میں رات دن دس دس ایئرکنڈیشنر چلتے ہیں ۔چونکہ بل حکومتی اداروں نے پے کرنا ہوتا ہے اس لیے مال مفت دل بے رحم والی بات ہو جاتی ہے۔ آپ کے وزیرخزانہ فرماتے ہیں کہ اب آئی ایم ایف خوش ہو چکا ہے اب پٹرول کی قیمت بڑھانے کی ضرورت نہیں۔اس حوالے سے یہی عرض کروں گا جب آئی ایم ایف کی جانب سے پے منٹ ہوجائے تو پٹرولیم مصنوعات کی پرانی قیمتیں بحال کر دی جائیں۔آپ کے مشاہدے میں یہ بات بھی لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ پنشن کی مد میں ادا ہونے والی سالانہ رقم600 ارب سے تجاوز کرچکی ہے جو عوام کی ٹیکسوں سے ادا ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی سے ایک قانون پاس کرایا جائے کہ ہرسرکاری ملازم کو یہ آپشن دیا جائے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن لینا چاہتا ہے یا نہیں۔جو پنشن لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کی تنخواہ سے ایک معقول رقم منہا کرلی جائے ۔وہ جمع شدہ رقم نیشنل سیونگ بچت میں جمع کروا کر اس کا منافع ریٹائر ملازمین کو ہر ماہ بطور پنشن ادا کردیا جائے ۔ جیسے اولڈ ایج بینیفیٹ پنشن والا ادارہ کرتا ہے لیکن یہ سخت زیادتی ہے کہ غریب عوام کا خون سرکاری مفت خوروں میں 600ارب روپے کی رقم کی شکل میں مفت تقسیم کیا جاتا رہے۔جب تک یہ قانون پارلیمنٹ میں پاس نہیں ہوتا اس وقت تک گزارا الاؤنس کی شکل بیس یا تیس ہزار روپے بطور پنشن ادا کی جاتی رہے لیکن یہ سراسر زیادتی ہے کہ 90فیصد لوگ ریٹائرمنٹ عمر کے بعد بے وسائل ہوکر بھوکے مرتے رہیں اور اپنی اولاد کے محتاج ہو کر رہ جائیں۔ سرکاری ملازم ہوں یا پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے، یا محنت مزدوری کرنے والے ، سب کو ایک ہی نظر سے دیکھنا ہوگا۔حضرت عمرؓ کا فرمان تھاکہ مجھے روز قیامت، باز پرس سے ڈر لگتا ہے کہ دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا نہ سوئے۔یہاں عالم یہ ہے کہ 60سال سے بعد سرکاری مفت خوروں کو چھوڑ کر ہر عمررسیدہ شخص نہ صرف بھوکا رہنے پر مجبور ہے بلکہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بھیک تک مانگنے پر مجبورہو چکا ہے۔سرکاری ملازم چار ہاتھوں سے کام نہیں کرتے کہ انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی لاکھوں روپے پنشن کی شکل میں ہر ماہ دیئے جائیں اور باقی عمررسیدہ لوگوں کو دھکے کھانے پر مجبور کردیا جائے۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 665523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.