کیا پاکستان پھر کبھی ہیروز پیدا کر پائے گا؟

آج پاکستان اگر عالمی طاقتوں سے آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کرتا ہے تو اسکے پیچھے ڈاکٹر قدیر خان کی دن رات کی محنت شامل ہے جنہوں نے اپنی زندگی ملک پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے وقف کر دی۔ ورنہ پاکستان کا حال بھی فلسطین، لیبیا ، شام جیسا ہوتا۔ عالمی طاقتیں پاکستان کی خیر خواہ کیوں بنتی ہیں۔ کیونکہ اسکے پاس دفاع کی صلاحیت موجود ہے اور پاکستان پوری دنیا میں خطے کے اعتبار سے اہم ترین جگہ ہے۔ جو پوری دنیا کی معیشت میں بہترین کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن انکی مجبوری ہے وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے تو انہوں نے دوسرا طریقہ اپنایا۔معیشت کو تباہ کرنا۔ ملک کے اثاثے گروی رکھ کے بھاری قرض دینا۔ جب پاکستان بالکل معاشی طور پر تباہ ہو جائے گا تب انکا آخری ہدف پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہونگے۔ کہ یہ ہمارے حوالے کر دیں۔ آپکا سارا قرض معاف کردیں گے۔ اور یوں انکا ہدف مکمل ہو جائے گا۔

اور کیا آپ جانتے ہیں جب محسن پاکستان قدیر خان سے آخری انٹر ویو لیا گیا تو اس میں پوچھا کہ زندگی میں کسی بات کا پچھتاوا بھی ہے تو ڈاکٹر صاحب نے ٹھنڈی آہ بھری اور فرمایا " پاکستانی قوم کے لیے کام کرنے کا" یقینا وہ یہ کہنا چاہتے ہوں گے بے ضمیر اور مردہ قوم کے لیے کام کرنے کا۔ لیکن انہوں نے پھر بھی جاتے جاتے اس قوم کی لاج رکھ لی۔ آخری عمر میں نظر بند کیا گیا اور انہیں آخری عمر میں ذلیل و رسوا کیا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو جب پھانسی کے لیے لے جایا جا رہا تھا تو انکے وکیل یحی بختیار سے انہوں نے جو آخری الفاظ کہے وہ یہ تھے" بزدل قوم کے بہادر لیڈروں کا یہی انجام ہوتا ہے"۔ بزدل کہنا تو غلط ہو گا۔ ایک مردہ قوم یا زندہ لاشیں کہنا ٹھیک ہو گا جن کو اندھیرے میں جینے کی عادت ہو چکی ہے۔ غلامی کرنے کی عادت ہو چکی ہے۔ پہلے راجاؤں کی غلامی کی۔ پھر انگریزوں کی اور اب نام نہاد سیاستدانوں کی۔
خدا نے کس جنوں میں آ کے انسان کو پیدا کیا تھا لیکن وہ انسان جو اشرف تھا افضل تھا وہ کیڑوں سے بھی حقیر ہو گیا۔ رینگتے رہو، سڑتے رہو اور مرو۔ کیوں جیے معلوم نہیں کیوں مرے معلوم نہیں۔ آج تمہاری خاموشی کل تمہارے بچوں کے لیے موت کا پھندا بن جائے گی۔ یہ قانون والے یہ سیاست دان انہوں نے اپنا ایمان بیچ دیا۔

لیکن کیا فرق پڑتا ہے ہمیں تو اپنی روٹی سے ہی فرصت نہیں ہمیں تو بس پنجرے میں وقت پہ روٹی ملتی رہے۔ آزادی کا ہم نے اچار ڈالنا ہے؟۔

تاریخ نے جتنے بھی انقلاب دیکھے ہیں اس میں ہمیشہ عوام ہی نکلے ہیں۔ پاکستان بنا تھا خود دار لوگ نکلے تھے۔ اپنی اولادیں اور والدین قربان کیے۔ جائدادیں قربان کیں اور آزادی حاصل کی کیونکہ وہ زندہ لوگ تھے۔ بھوکے رہنا گوارا کر لیا۔ جان قربان کرنا گوارا کر لیا۔ بچے کٹانا گوارا کر لیا۔ والدین کو قربان کرنا گوارا کر لیا۔ لیکن غلامی کا طوق اپنے گلے میں پہننے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے ہمت کی اور خدا نے انکو سرخرو کر دیا۔ ہمارے آباو اجداد نے ہمیں ایک طرح سے تو آزادی دلائی لیکن ہمارے یہ سیاستدان ہمیں پھر سے پوری طرح غلام بنانے کے درپے ہیں۔ اور یہ ہماری عزت و ناموس کو بیچنا چاہتے ہیں۔ یہ سرور کونین ﷺ کی ناموس کو بیچنا چاہتے ہیں۔ عمران خان اتنا کڑوا کیوں لگتا ہے کیونکہ اس نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کے سرور کونین ﷺ کی ناموس کا دفاع کیا۔ جس اسلام کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑا جاتا تھا۔ اور پوری دنیا میں اسلاموفوبیا زور پکڑ رہا تھا۔ اس نے عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کی قرارداد منظور کرا لی۔ عمران خان کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک نے سرور کونین کی شان میں گستاخی کرنے کو جرم قرار دے دیا۔ اور پھر سب سے اہم وجہ عمران خان 56 اسلامی ممالک کا بلاک بنانے کی طرف جا رہا ہے۔ جس سے امریکہ کی معیشت خاک میں مل جائے گی۔ ڈالر تباہ ہو جائے گا اور پاکستان آسانی سے اپنا قرضہ اتار سکے گا۔ لیکن برسوں کی محنت وہ اتنی آسانی سے خاک میں کیسے ملنے دے سکتے ہیں۔ وہ اپنا ہر حربہ آزمائیں گے اور وہ پوری طرح کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ ترکی میں جب یہی کام ہونے لگا آرمی بھی طیب کے خلاف ہو گئی۔ طیب کی ایک کال پر قوم نے خود داری اور غیرت کا ثبوت دیا۔ سڑکوں پہ نکل آئے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔ لیکن چند جانیں دے کر پورے ملک و قوم کی سالمیت کو بچا لیا۔ اس قوم میں اتنی غیرت کہاں کہ یہ سڑکوں پہ جان گنوانے نکلے۔ یہ تو مردہ قوم ہے۔ زندہ قومیں جان قربان کرنا جانتی ہیں لیکن غلامی کا طوق کبھی گلے میں برداشت نہیں کرتی۔ اگر آج امریکہ اپنی مرضی کی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ عمران خان کی شکست نہیں ہے۔ بلکہ پوری قوم کی شکست ہے۔ یہ پورے 57 اسلامی ممالک کی شکست ہے۔

یہ سرور کونین ﷺ کے ناموس پہ پہرہ دینے والوں کی شکست ہے۔ یہ عمران خان کی شکست نہیں بلکہ یہ اسلام کی شکست ہے۔

جنرل حمید گل نے کہا تھا جب بھی کبھی پاکستان میں کوئی ایسا سربراہ آیا اور اس نے امریکہ کی لائف لائن بند کی تو آپ دیکھ لیجئے گا کہ پاکستان میں موجود اسرائیل کے تمام ایجنٹس اکٹھے ہو جائیں گے۔ اور وقت انکی یہ بات حرف بہ حرف ثابت کر چکا ہے۔

امریکہ عمران خان کا دشمن نہیں بلکہ اس سوچ کا دشمن ہے جو خان اپنی قوم کو دے چکا ہے۔ کیونکہ امریکہ خود کو بانجھ ہوتا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ امریکہ کی اجارہ داری صرف پاکستان سے نہیں بلکہ 57 اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ باقی بھی کئی ممالک سے ختم ہو جائے گی۔

یہ عالمی طاقتیں اپنا پورا زور لگائیں گی عمران خان کے ساتھ بھٹو جیسا سلوک کرنے کی۔ خدا نہ کرے وہ اپنے ان مردود ارادوں میں کامیاب ہوں؟ اگر وہ ایسا کر جاتے ہیں تو یقین مانو پاکستان کی مٹی پھر صدیوں صدیوں ایسے ہیروز کو ترسے گی۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کبھی کوئی اسلام اور پاکستان کی حمایت میں اپنی آواز بلند نہیں کرے گا۔ نکلو اپنے ملک کے لیے۔
نکلو اپنے دین اسلام کے لیے
نکلو اپنے بچوں کی آزادی کے لیے
نکلو اپنے چاہنے والوں کے لیے
نکلو امریکہ کی غلامی سے نجات کے لیے
نکلو اسرائیل کی غلامی سے نجات کے لیے
نکلو سرور کونین ﷺ کے ناموس کی حفاظت کرنے کے لیے
نکلو حسین علیہ السلام کا دین بچانے کے لیے۔
صدیق اکبر کو ماننے والو۔ نکلو
عدل فاروقی کی تمنا کرنے والو۔ نکلو
عثمان ذوالنورین کو چاہنے والو نکلو۔
علی المرتضی کو چاہنے والو نکلو
آج پھر خیبر تمہیں آواز دیتا ہے

دنیا جہان کے مرحب اسلام کے خلاف پھر اکٹھے ہو گئے ہیں۔ علی المرتضی کی روح تمہیں آواز دیتی ہے۔ مرحب آج پھر اسلام کو للکار رہا ہے۔
دنیا کو ہے پھر معرکہء روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا

اس جان کا کرو گے بھی کیا جو سرور کونین کے ناموس کی حفاظت نہ کر سکے۔ اس جان کا کرو گے بھی کیا جو آپکے بچوں کی آزادی کی وجہ نہ بن سکے۔۔۔

اگر آج نہیں نکلو گے تو پھر تاریخ یہ موقع تمہیں کبھی نہ دے گی۔۔
ابن محمد یار
محمد والا تحصیل لالیاں ضلع چنیوٹ

 

Usman Nadeem
About the Author: Usman Nadeem Read More Articles by Usman Nadeem: 4 Articles with 3194 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.