مسلم لیگ ن کی جانب سے انتظامی بنیادوں پر
صوبوں کی تقسیم اور نئے صوبوں کے قیام کی حمایت اورمسلم لیگ ق کی جانب سے
اس سلسلہ میں باقاعدہ قرار داد پنجاب اسمبلی میں پیش کرنے کے بعد تو یہ
تاثر کچھ زیادہ ہی زور پکڑتا جارہا ہے کہ نئے صوبوں کے قیام کا وقت اب قریب
ہی ہے اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی جانب سے جلد ہی سرائیکی خطے کے
عوام اپنے الگ صوبے کے دیرینہ مطالبے کے پورا ہونے کی خوشخبری سنیں گے کہ
بیان کے بعد بعض حلقے یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ پنجاب کی تقسیم سے شروع ہونے
والا سلسلہ صرف پنجاب ہی تک محدود نہیں رہے گا اور سرائیکی صوبے کے قیام کے
بعد دیگر صوبوں کے قیام کا مطالبہ بھی مزید زور پکڑ جائے گا اور اگر پنجاب
کی تقسیم ہوتی ہے تو پھر مسلم لیگ ن انتظامی بنیادوں کو بنیاد بناکر پہلے
کراچی، پھرسندھ اور ہزارہ صوبوں کے قیام کے لئے کمرکس لے گی اور یوں ملک
میں ایک نئی انارکی جنم لے گی جو پہلے ہی سے مسائل کے انبار تلے دبے عام
آدمی کو اپنے ”خدمتگاروں“ سے مزید دور کردے گی۔نئے صوبوں کا قیام اور پہلے
سے موجود صوبوں کی انتظامی تقسیم کوئی انہونی بات نہیں ، اکثر ممالک میں
عوامی مفادات کے پیش نظر نئے صوبے اور ریاستیں بنتی آئی ہیں لیکن بدقسمتی
سے ہمارے ہاں اس مطالبے کے پیچھے عوامی کے بجائے سیاسی مفاد ہے اور اسی
سیاسی مفاد کی خاطر ماضی میں بھی ایسے ہی نعرے لگانے والوں کے طرز عمل کے
پیش نظر اب کی بار بھی نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ محض ایک سیاسی نعرہ ہی
دکھائی دے رہا ہے جس کا حاصل شاید کچھ بھی نہیں ہوگا۔
ممکن ہے بہت سے ہم عصروں کو ہماری اس رائے سے اختلاف ہو لیکن سچ ہمیشہ سچ
ہی رہتا ہے اور سچ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سے لے کر مسلم لیگ ن اورپنجاب
اسمبلی میں نئے صوبے کے قیام کے لئے قرارداد جمع کروانی والی ق لیگ سمیت
سبھی کی سبھی جماعتیں مفادات کے اس دھارے میں بہہ رہی ہیں جس کی منزل صرف
اور صرف اقتدار اورسیاست میں ہمیشہ ”ان“ رہنے کے سوا کچھ نہیں اور یہ سلسلہ
کچھ نیا نہیں بلکہ کئی عشروں سے جاری ہے ہاں البتہ موجودہ دور حکومت میں اس
میں کچھ زیادہ شدت ضرور آگئی ہے اور اس میں سیاست کے ساتھ ساتھ تعصب کاعنصر
بھی کچھ زیادہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی کرتے اگر تھوڑا سا
پیچھے جائیں توایوب خان کے آخری دور میں ون یونٹ کے خلاف ایک بھرپور مہم
شروع کی گئی اس مہم میں وہ سیاست دان پیش پیش تھے جن کی ون یونٹ میں دال
نہیں گل رہی تھی ظاہر ہے کہ اگر پورے ملک کی ایک کابینہ ایک گورنر اور ایک
وزیر اعلیٰ ہو گا تو بہت سے سیاست دانوں کو اقتدار کو دور کھڑے للچائی
نظروں سے دیکھنا پڑے گا اور اگر چار صوبے ہونگے تو چار سیاست دانوں کو
گورنر ی مل جائے گی ، چار وزیر اعلیٰ ہونگے اور چار اسمبلیوں میں بیسیوں کو
وزارتیں ، مشاورتیں اور دیگر اقتداری عہدے مل جائیں گے اس سے جو نقصان ہو
گا وہ کسی کے پیش نظر نہ تھا۔
ایوب خان نے ببانگ دہل کہا تھا کہ میں ملک کے ٹکڑے ٹکڑے نہیں کر سکتا ، جب
ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا تب بھی وہ اس بات کے حامی تھے کہ ملک میں
وحدت برقرار رہے ، مگر بعد میں آنے والی قیادت نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ
ملکی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ، اس کا جو منطقی انجام ہونا تھا وہ ہو ہی
گیا اور اب مغربی حصہ جو چار صوبوں پر مشتمل تھا اور مسائل کے ساتھ ساتھ
تعصب کی لعنت سے دو چار ہو گیا. یہ تعصب کی لعنت ان چھوٹے چھوٹے گروپوں کی
جانب سے بڑھائی گئی جو ملکی سطح پر اپنی جگہ نہیں بنا سکتے تھے ، گو آج تک
ان کی سیاست کا محور وہی کنویں ہیں جن کے یہ مینڈک ہیں مگر اس سے ملکی
سالمیت کو جو نقصان پہنچ رہا ہے ، وہ آنے والے دنوں میں ناقابل تلافی ہو گا
، اٹھارویں ترمیم میں صوبائی خود مختاری کی بات کھل کرکی گئی ہے جو
1973ءاور 1956کے آئین کا بھی حصہ تھا،مگر اب جو صوبائی خود مختاری کا مطلب
لیا جا رہا ہے وہ اس آئینی روح کے منافی ہے ، جو 1973کے آئین کی بنیاد تھی۔
بقول پروفیسر یحییٰ خالداٹھارویں ترمیم کے بعد علاقائی پارٹیوں کی جانب سے
یہ تاثر دیا جا رہا ہے جیسے صوبے ملک کا حصہ نہ ہوں بلکہ چار مختلف مملکتیں
ہوں جن کا نظام تعلیم اپنا ہے جن کا نظام حکومت اپنا ہے ، جن کی زبان اپنی
ہے جن کا دوسرے صوبوں سے کوئی لین دین نہیں ہے ، شاید یہ ہماری کج فہمی ہو
مگر سیاست دانوں کے تجزیوں اور تقاریر سے تو یہی لگتا ہے کہ پاکستان (جو
بچا کھچا ہے) چار صوبوں پر نہیں بلکہ چار مملکتوں کا ملک ہے ، جس میں چار
طرز حکمرانی ہیں اس کے ساتھ ہی ساتھ بعض سیاسی اور بعض انتظامی مجبوریوں کے
تحت کچھ نئے صوبوں کا بھی مطالبہ ہے۔سیاست دانوں کا ایک حصہ اس بات پر مصر
ہے کہ ملک میں لسانی بنیادوں پر صوبے ہونے چاہیں بعض کا خیال ہے کہ یہ
تقسیم انتظامی ہونی چاہیے لسانی بنیادوں پر بات کی جائے تو ایک عجیب سے
کھچڑی پکتی نظر آتی ہے ملک کی تمام زبانیں کم و بیش سارے ہی صوبوں میں بولی
جاتی ہیں پشتو خیبر پختونخوا صوبے کے علاوہ بلوچستان اور پنجاب کے ان
علاقوں میں جو دریائے سندھ کے کنارے اور صوبہ خیبرپختونخوا کے وسطی اضلاع
کے ساتھ ہیں ایک بہت بڑا حصہ پشتو بولنے والوں کا کراچی میں بھی آباد ہے ،
تو اس طرح جو صوبہ بنے گا وہ بالکل وہی صورت ہو گی جو پاکستان کی ابتداءمیں
تھی یعنی کچھ حصہ مغرب میں ، کچھ مشرق میں اور کچھ جوناگڑھ و منادر کی صورت
میں اس کے بعد جو ملک کا حشر ہم نے دیکھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
سرائیکی صوبے کی بات ہو تو پنجاب کے علاوہ ایک بہت بڑا علاقہ سندھ اور
خیبرپختونخوا صوبے کا سرائیکی بیلٹ میں آتا ہے ، اور اب تو ڈی آئی خان
والوں نے بھی خود کو سرائیکی صوبے کا حصہ بننے کا عندیہ دیدیا ہے اور اے
این پی تو ایک زمانے سے سرائیکی صوبے کی حامی ہے ، ہندکو کو دیکھا جائے تو
ہزارہ کے ساتھ اٹک ، راولپنڈی اور جہلم کا علاقہ ہندکو بولنے والوں کا
علاقہ ہے ، جو ایک صوبہ بن سکتا ہے اور ہزارہ والے تو ایک مدت سے ہزارہ
صوبہ کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور اے این پی بھی تسلیم کرتی ہے کہ ہزارہ
صوبہ ہزارے والوں کا حق ہے اب ایک نئی بات جو شہباز شریف نے روا روی میں
کہہ کر سندھیوں کے دم پر پاؤں رکھا وہ کراچی کو صوبہ بنانے کی بات تھی، اس
پر پی پی پی اور ایم کیو ایم دونوں کی جانب سے سخت موقف سامنے آیا ۔ جہاں
تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے وہ بظاہر شہباز شریف کی بات پر شور مچا تے رہے
مگر اصل میں ان کے دل میں ضرور لڈو پھوٹتے رہے ہونگے کیونکہ اگر لسانی لحاظ
سے صوبوں کی تقسیم ہونا ہے تو کراچی اور حیدر آباد کو ملا کر ایک صوبہ بن
سکتا ہے ، ویسے بھی سندھ تو ایک عرصے سے سندھ دیہی اور سندھ شہری میں تقسیم
ہے صوبائی بجٹ کو ایک عرصے سے سندھ دیہی اور سندھ شہری میں تقسیم کیا جا
رہا ہے انتظامی طور پر بھی سندھ شہری اور دیہی دو حصوں میں منقسم ہے ، تو
کیا حرج ہے کہ بار بار دیہی اور شہری کی تکرار سے دو علیحدہ صوبے ہی بن
جائیں۔باقی رہا بعض سیاسی حضرات کا بہاولپور اور سرائیکی صوبوں کے مطالبے
کا سوال تو یہ سارے لوگ ایک عرصے تک حکمران رہے ہیں اور اس وقت تو انہوں نے
کبھی صوبے کی بات نہیں کی جونہی وہ الیکشن ہارے ، ان کو صوبے یاد آگئے ،
اسی طرح سندھی قوم پرست ہیں ان لوگوں نے بھی ایک عرصے تک اقتدار کے مزے
لوٹے لیکن جب عوام نے ان کو مسترد کر دیا تو یہ نئے صوبوں اور سندھ کے حقوق
کی بات کرنے لگے ، نئے صوبوں کے قیام کے مطالبے کرنے والے دیگر سیاستدانوں
کا طرز عمل بھی کچھ ایسا ہی عندیہ دے رہا ہے جو یہ ثابت کرنے کے لئے کافی
ہے کہ سبھی پھر سے اپنے اپنے مفادات کے لئے اپنی اپنی راگنی الاپ رہے
ہیں،عوام سے کوئی بھی مخلص نہیںاور یہی حقیقت ہے، ناقابل تردید حقیقت۔ |