کرپشن حکمران اور آنے والا بجٹ

پاکستان میں ایک غریب طبقہ اہیسا بھی ہے جسکی ؐماہانہ آمدن چالیس ہزار روپے سے کم ہے۔ایک سرکاری محکمے میں کلاس چہارم کے فرائض انجام دینے والے لاکھوں، کروڑوں افراد کی ماہانہ آمدن چالیس اور پچاس ہزار روپے سے کہیں کم ہے۔ یہ کتھا تو ایک سرکاری ملازم کی ہے لیکن دیہاڑی دار مزدوروں اور مستریوں کی آمدن کا جائزہ لیں تو وہ بھی پچاس ہزار سے کم بنتی ہے۔ اگر مزدور یومیہ ایک ہزار لیتا ہے اور مستری 1500 کماتا ہے اور اگر وہ بغیر چھٹی پورا مہینہ کام کرتا ہے جو ممکن نہیں تو پھر بھی ان کی آمدن پچاس ہزار سے کم بنتی ہے۔ اور یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ اسے روزانہ کام مل جاتاہو مہنگایئی اتنی زیادہ ہے کہ تعمیراتی کا م ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے‘ اس وقت ملک بھر میں پبلک اور گھروں میں ڈرائیور کے فرائض انجام دینے والے 10 سے 12 ہزار اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ میں کام کرنے والے کو 20 سے 25 ہزار تک اوسط تنخواہ دی جارہی ہے جو اونٹ کے منہ می زیرے کے برابر ہے۔’کئی تو ایسے ہیں جن کو بیس ہزار روپے بھی نہیں ملتے۔ اس کے مقابلے میں مہنگائی میں پانچ سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اور ایسے لوگ تعلیم سے کوسوں دور ہیں اور بیماری میں دوائی لینے کی ہمت نہیں رکھتے اور وہ ان بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے یں جسے ہم اﷲ کی مرضی کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔
غریب آدمی جب گوشت تین چار سو روپے کلو ملتا تھا ہفتے میں بمشکل ایک مرتبہ گوشت کھا لیا کرتا تھا تو اب وہ گوشت دیکھنے کو بھی ترستا ہے کھانا تو بڑی دور کی بات ہے اب بڑا گوشت سات سو روپے کلو میں بھی کوئی نہیں دے رہا۔ مرغی کا گوشت 700 روپے کلو اور بکرے کا گوشت 1500 روپے کؒو ہو چکا ہے۔ ’پہلے اگر لوکل ٹرانسپورٹ کا کرایہ دس، پندرہ روپے تھا تو اب یہ چالییس، پچا س روپے ہے۔ پہلے بجلی کا بل اگر تین، چار ہزار آتا تھا تو اب،8 ہزار روپے آ رہا ہے۔ اسی طرح اگر سوئی گبیس کا بل 500 روپے آتا تھا تو اب وہی بل 800 روپے آتا ہے۔ پہلے غریب آدمی دال اور سبزی کھا کر گزارہ کر لیتا تھا مگر اب تو دالوں، سبزیوں کی قیمتیں بھی آسمان تک پہنچ چکی ہیں۔

حکومت آنے والے بجٹ میں اس ملک کے اکثریتی لوگوں کے لیے بجٹ بنائے مگر ایسا نہیں ہوگا کیونکہ یہ ہماری خواہش تو ھو سکتی ہے مگر ایسا ہونا صرف مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ جتنی لوگوں کی آمدن اور تنخواہ ہے اس سے یوٹیلٹی بل ادا نہیں ہو سکتے۔ حکومت ان بلز کو کم کرے اور اگر کم نہیں کر سکتی تو اس میں کم آمدن والوں کو خصوصی چھوٹ دی جائے۔اسی طرح پیٹرول کی قیمت انی ذیادہ ھو گئی ہے کہ گریب آدمی کی کمر تو کر رکھ دی ہے۔

لوگ لوکل ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والوں کو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں تیل کی قیمتوں میں اضافے سے سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے ایک غریب آدمی جو چنگ چی رکشے میں سفر کر لیتا تھا اب اسکی پہنچ سے اسے بھی دور کر دیا گیا ہے اور ایک غریب آدمی کرایوں میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے اب اس سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ جن کے بچے کالج میں پڑھتے ہیں انکے بچے اب پڑھنے سے دور کر دئے گئے ہیں کہ وہ اس مہنگائی میں تعلیم افورڈ نہیں کر سکتے۔ ایسے میں ٹیکس کم کیے جائیں اور بغیر سود قرضے فراہم کیے جائیں۔ اس وقت تمام چھوٹے کاروبار آخری ہچکیاں لے رہے ہیں۔عوام حکومت سے بجٹ سے پہلے مطالبہ کرتے ہیں کہ انکے کاروبار کو ختم ہونے سے بچایا جائے۔ اس کے لیے عوام پر عائد کردہ ٹیکسوں جن میں ایک سال کے اندر پچاس فیصد سے زائد اضافہ ہوا، کمی کی جائے۔’لوگوں کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے اگر لوگ کاروبار ہی نہیں کریں گے تو حکومت ٹیکس کس سے وصول کریگی۔ اس لیے اس بجٹ میں ٹیکسز میں خاطر خواہ کمی کی جائے۔لوگوں کیکاروبار ختم ہیں اور کاروبار کو چلتے رہنے کے لیے بھی سرمایے کی ضرورت ہوتی ہے۔حکومت کو چاپئے کہ اس بجٹ میں چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو بغیر سود کے قرضے دئے تاکہ وہ اپنے کاروبار کو بچا سکیں ’یوٹیلٹی بلوں پر عائد کردہ ٹیکس ختم کیے جائیں اور اشیائے خوردونوش اور ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں میں کمی جائے۔
اس مہنگائی اور اس طوفان کا واحد حل ایک ہی ہے کہ ہمارے حکمران ہم سے جمع کیا ہوا ٹیکس صرف ملک و قوم کی ترقی، تعلیم اور تحقیق پر خرچ کریں نہ کہ اپنے اللوں تللوں پر اور غیر ملکی دوروں پر خرچ کریں اور حج کیلئے کروڑوں روپے عوام کے دئے ہوئے ٹئیکس سے ادا کر کے 200 اور 300 لوگوں کو حج کراوایا جائے۔ جو حرام اور اسکا کوئی ثواب نہی ہے بلکہ یہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔

’ظلم کی انتہا ہے کہ بیوروکریٹس، عدلیہ اور جرنیلوں کی تنخواہیں بیس بیس لاکھ روپے ہیں۔ سرکاری افسران کے پاس پانچ پانچ گاڑیاں اور تنخواہوں کو چھوڑ کر پتا نہیں کیا کیا مراعات ہیں۔‘ ریٹائرد ججوں کی 8 اور 9 لاکھ روپے تو صرف پینشن ہے اور دوسری مراعات علیحدہ ہیں اور اسی طرح فوجی جرنیلوں کی مراعات ہیں جن پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ پرائیویٹ فیکٹری ملازمیں جنکی پینشن 8500 روپے ماہانہ مقرر ہے ہمیں بتاتے ہوئے شرم آ تی ہے کہ کیا کوئی دیکھنے والا اورسننے والا ہے یا سب اندھے اور بہرے ہو چکے ہیں کہ 8500 روپے تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نیہیں ہین اور حکمرانوں کو شرم ا نی چاہئے اسطرح کا مزاق کرتے ہوئے۔ ہم کہتے ہیں کہ کرپشن کو بڑھاوا دینے میں سب سے زیادہ حکمرانوں کا ہاتھ ہے جو خود بھی اربوں روپے کی لوٹ مار کرکے اس پیسے کو بیرونی ممالک میں منتقل کرتے ہیں اور غریب عوام ایک ایک پیسے کیلئے ترستی ہے کرپشن نہیں ہوگی تو اور کیا ہوگا جب ایک غریب کلرک چپڑاسی، کمپوڈر، وغیرہ اٌپنے گھر کا چولہاجلانے سے قاصرہونگے اور انکے بچے بھوکے مر رہے ہونگے تو کیا وہ کرپشن نہیں کرینگے؟؟؟؟؟؟؟

صحت، تعلیم، مہنگائی کیخلاف مظاہرے، سماجی بے چینی، پولیس کے ساتھ تصادم، جلاؤ گھیراؤ، لوٹ مار، توڑ پھوڑ اور معاشی کٹوتیاں ٹیکسوں کی بھرمار ایک معمول بن چکی ہیں۔’’جمہوری حکومتیں‘‘ بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش عوام پر ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن ہمارے محنت کش اور نوجوان زیادہ لمبے عرصے تک یہ سب کچھ برداشت نہیں کریں گے اور سرمایہ دارانہ نظام کبھی بھی حقیقی طور پر جمہوری نہیں ہو سکتا اور ہم ہر اس نظام کیخلاف ہین جس میں طبقات پیدا کئے جائیں۔ ہمیں ایسے نطام کی ضرورت ہے جو غربت اور طبقات کو ختم کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ آؤ ہم سب اس سرمایہ دارانی نظام کے خلاف جدوجہد کریں اور اپنی منزل (سوشل ازم) کو حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کریں اور طبقاتی نظام کو اٹھا کر پھینک دیں۔
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 155661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.