حکومتِ ہند نے ’اگنی پتھ‘(آگ کا راستہ) کے نام سے ایک
اسکیم کے تحت نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرنے کا اعلان کیا تو ملک بھر میں
آگ لگ گئی ۔ لگتا ہے اس نام میں ہی کوئی خرابی ہے۔ 1990 میں اسی نام سے یش
جوہر نے ایک فلم بنائی جو فلاپ ہوگئی اور اس کے صدمہ نے فلمساز کی جان لے
لی۔ امیتابھ بچن جیسے سُپر اسٹار پر متھن بھاری پڑگیا اور بچن پھر ہیروسے
کیریکٹر ایکٹر بن گئے ۔یش کے بیٹے کرن جوہر نے 2012 میں اسی فلم کو پھر سے
بنایا ۔ فلم تو چلی مگر رتک روشن کا کیرئیر تقریباً ختم ہوگیا ۔ ایسا لگتا
ہے یہ سرکاری اسکیم بچن اور روشن کی طرح مودی اور شاہ کا بیڑہ بھی غرق کردے
گی ۔ ہندوستان کے دوسرے وزیر اعظم لال بہادر شاستری جملہ ڈیڑھ سال وزیر
اعظم کے عہدے پر فائزر ہے اس کے باوجود ان کا نعرہ ’جئے جوان جئے کسان ‘
امر ہوگیا۔ اس کے برعکس وزیر اعظم نریندر مودی اپنے دورِ اقتدار کے آٹھ
سال پورے کرچکے ہیں۔ انہوں نے پہلے کسان مخالف قانون بنا کر کسانوں کے پیٹ
پر لات مارنے کی کوشش کی ۔ اس کے خلاف جب کسان سڑکوں پر آگئے تو مجبوراً
وہ کالے قانون واپس لینے پڑے ۔ اب مودی سرکار فوجی جوانوں کی پیٹھ میں چھرا
گھونپنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی بیشتر ریاستوں کےنو
جوان احتجاج کررہے ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ مودی سرکار جب کسانوں کی ہمدردی کا دم بھرتی ہے تو
کاشتکار اس کے خلاف کمر بستہ ہوجاتے ہیں اور جب نوجوانوں سے خیر خواہی کا
دعویٰ کیا جاتا ہے جوان مظاہرے کرنے لگتے ہیں ۔ ایسے میں راہل گاندھی نے تو
ان کی جنم پتری کھول کر سب کے سامنے رکھ دی ۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا
:’اگنی پتھ کو نوجوانوں نے مسترد کیا ۔ زراعی قوانین کو کسانوں نے مستر
دکردیا۔ نوٹ بندی کو ماہرین معاشیات نے رد کیا ۔ ۔ جی ایس ٹی کو تاجروں نے
مسترد کردیا ۔ ملک کی عوام کیا چاہتی ہے ۔ یہ بات وزیر اعظم نہیں سمجھتے
کیونکہ انہیں اپنے ’دوستوں‘ کی آواز کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا ‘‘۔ یہ
فہرست ادھوری ہے کیونکہ موجودہ حکو مت کو تو کشمیری پنٖڈتوں نے بھی دھتکار
دیا جن کی ہمدردی کا یہ سترّ سے پاکھنڈ کرتے رہے اور ان کی حفاظت نہیں
کرسکے۔ یہ حکومت ہر محاذ پر بری طرح ناکام ہوگئی اور کی دووجوہات ہیں۔ اول
تو سرکار کی نیت میں کھوٹ ہے۔ اس لیے اس کی کتھنی اور کرنی میں فرق ہوتا ہے
۔ دوسرے یہ لوگ اتنے پھوہڑ انداز میں سازش رچتے ہیں کہ عوام کو فوراً اس کا
احساس ہوجاتا ہے اور وہ احتجاج کرنے لگتے ہیں ۔
حالیہ احتجاجی مظاہروں سے مودی سرکار کی دیش بھکتی کا پاکھنڈ پوری طرح بے
نقاب ہوچکا ہے۔ اس لیے کہ جو جوانوں اور کسانوں کا دشمن ہو وہ بھلا قوم کا
بہی خواہ کیوں کرہوسکتا ہے؟ تعجب کی بات یہ ہے کہ سرکار بیروزگار نوجوانوں
کو ملازمت دینے کا ارادہ کرتی ہے تو وہ اس کا استقبال کرکے حکومت کا شکریہ
اداکرنے کے بجا ئے ریل کے ڈبوں کو آگ لگانے لگتے ہیں ۔ ہریانہ کے روہتک کا
رہنے والا 23 سالہ نوجوان لجوانا نامی گاوں میں پھانسی لگا کر خود کشی
کرلیتا ہے۔ اس کے والدین کا دعویٰ ہے کہ فوج میں جانے کی تیاری کررہا تھا ۔
ظاہر بات ہے جب اس کو پتہ چلا ہوگا کہ بھرتی کی آخری عمر 21 ؍ سال ہے اور
چار سال بعد اسے سبکدوش کردیا جائے گا تو اس نے مایوس ہوکر خود کو ہلاک
کرلیا ہوگا ۔ جنوب کے شہر سکندر آباد میں مظاہرے کے دوران ایک نوجوان
پولیس کی گولی سے ہلاک ہوگیا ۔ ٹرین میں آگ لگنے کے بعد بہار میں ایک
مسافر دم گھٹنے سے فوت ہوگیا ۔ اس کے باوجود چاپلوسی کی یہ انتہا ہے مختلف
وزراء اس حماقت پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کررہے ہیں ۔
دو سال قبل سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کے دوران یوگی حکومت کا
سفاک چہرا عوام کے سامنے آیا تھا جب اس ظلم وجبر کا بے دریغ مظاہرہ کیا
تھا۔ پولیس کی زیادتی کے بعد پوسٹرس اور جرمانہ وصول کیا گیا تھا۔ آگے چل
کر الٰہ باد ہائی کورٹ نےجب پوسٹرس کو پرائیوسی کے حق کی خلاف ورزی قرار دے
دیا تو ذلیل ہوکر اسے ہٹانا پڑا اور سپریم کورٹ پھٹکار لگا کر جرمانہ واپس
کرنے کا حکم دیا توساری ہیکڑی نکل گئی ۔ یوگی انتظامیہ کو مجبوراً رسوا
ہوکر رقم لوٹانا پڑا ۔سی اے اے کے بعد جب کسانوں کی تحریک چل پڑی تو یوگی
جی کے ہاتھ پیر پھولنے لگے ۔ ہریانہ کے ساتھ اترپردیش کے گاوں میں بی جے پی
امیدواروں کا کھدیڑا ہونے لگا ہے تو عقل ٹھکانے آئی اور آندلن جیوی کہہ
کر تحقیر کرنے والے وزیر اعظم کو ایوان پارلیمان میں اپنی غلطی تسلیم کرنی
پڑی۔ بعید نہیں کہ موجودہ اگنی پتھ(آگ کاراستہ) پر بھی تلوے جلانے کے بعد
حکومت کو پیچھے ہٹ کر برنول لگانا پڑے ۔
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف تحریک کی قیادت بیشتر
مسلمانوں نے کی ۔ اس کے بعد چلنے والی کسانوں کی تحریک کے قائدین میں زیادہ
ترسکھ رہنما شامل تھے ۔ کسان تحریک کے بعد ملک میں بڑا احتجاج نوپور شرما
کے ذریعہ اہانت رسول ﷺ والے بیان پر ہوا ۔ ظاہر ہے یہ مظاہرہ بھی مسلمانوں
کا تھا ۔ اس معاملہ میں مسلم ممالک کے دباو میں نوپور شرما کے ساتھ نوین
جندل کو ہٹانے کے بعد حکومت کو اپنی صفائی پیش کرنی پڑی لیکن پھر ایک بار
یوگی نے اپنی سفاکی کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا ۔ یہ معاملہ ابھی تھما بھی
نہیں تھا کہ اگنی پتھ اسکیم کے خلاف بیشتر ہندو جوان میدان میں اتر گئے اور
انہوں نےدیگر ریاستوں کے علاوہ اترپردیش میں بھی احتجاج کیا ۔ بہار میں
مظاہروں کی ہوا ایک دن بعد اترپردیش پہنچی تو نوجوانوں نے بلند شہر، گونڈہ،
گورکھپور، علی گڑھ، اناؤ، ہاتھرس، فیروزآباد اور آگرہ میں احتجاج کرکے
حکومت سے فوج میں تقرری کے پرانے طریقہ کار کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔
بلند شہر میں بھور کراسنگ اور کھرجا بس اسٹینڈ پر بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
فی الحال ملک بھر کا نوجوان یہ کہہ رہا ہے کہ مودی حکومت نے انہیں ایک بار
پھر انہیں بے وقوف بنا دیا ہے۔ا ٓٹھ سال قبل مودی جی نے وعدہ کیا کہ ہر سال
دو کروڈ نئی ملازمتیں نکلیں گی ۔ اس کے بجائے نوکریاں کم ہوگئیں۔ اب وہ دس
لاکھ ملازمتوں کی بات کررہے ہیں اس میں سے چالیس ہزار فوج میں اور وہ بھی
صرف چار سال کے لیے۔ یہ کیا مذاق ہے ؟ نوجوان کو محسوس ہورہا ہے کہ کوئی یہ
نہیں ہے سوچتا محض چار سالوں کے اندر سبکدوش ہونے والے اگنی ویروں کو
دوبارہ روزگار کہاں اور کیسے ملے گا؟ پچھلے دو سالوں میں کورونا کے باوجود
کیا نہیں ہوا؟ کئی ریاستوں میں الیکشن ہوئے ۔ آئی پی ایل کا ٹورنامنٹ ہوا
لیکن اگر کوئی کام نہیں ہوا تو وہ فوج میں بھرتی تھا ۔ کئی نوجوان مختلف
امتحانات سے گزر کربقیہ کا انتظار کررہے تھے ۔ بیروزگاری آسمان کو چھورہی
ہے اورماہرین کے مطابق فوج میں 96؍ ہزار اسامیاں خالی ہیں ۔ایسے حکومت نے
یہ اعلان کردیا کہ اگنی ویر کی تقرر ی تو ہو گی مگر صرف چار سال کے لیے۔ اس
کے بعد وہ کیا کرے گا یہ کوئی نہیں جانتا۔
سرکار کا کہنا ہے کہ اس کو سبکدوشی کے وقت ساڑھے گیارہ لاکھ ملیں گے لیکن
اس میں سے نصف تو اس کی اپنی تنخواہ سے کاٹ کر جمع کی گئی رقم ہوگی۔ سرکار
اس پر سود کمائے گی اور خود معمولی رقم ملا دے گی ۔ ویسے یہ تو ہر کسی کے
ساتھ ہوتا ہے کہ تنخواہ میں سے جتنا کٹتا ہے اتنا ادارے کو دینا پڑتا ہے ۔
اس میں احسان کی کوئی بات نہیں ہے۔ویسے موجودہ مہنگائی کے زمانے میں گیارہ
لاکھ کے اندر نہ گھر بنتا ہے اور نہ سڑک پر پکوڑے تلنے کے سوا کوئی کاروبار
شروع ہوسکتا ہے۔ اگنی پتھ کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ 75فیصد فوجی تربیت
یافتہ بیروزگار کیا کریں گے ؟ کہا جارہا ہے کہ ان کو پولیس اور نیم فوجی
دستوں میں ترجیح دی جائے گی یعنی کوئی گارنٹی نہیں۔ اب اگر یہ وہاں چلے
جائیں گے تو سماج کے دیگر لوگ جوپولیس وغیرہ میں جاتے تھے وہ کہاں جائیں
گے؟ ان بیروزگاروں میں کچھ تو پردھان سیوک کی مانند چوکیدار بن جائیں گے
اور ایک بڑی تعداد مافیا بن جائے گی ۔ اس طرح سماج کے اندر جرائم پیشہ
افراد کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ اسرائیل کے اندر بڑی تعداد میں موجود
مافیاوں کی موجودگی اسی وجہ سے ہے کیونکہ لازمی فوجی تربیت کے بعد ان کو
فوج میں بھرتی نہیں کیا گیا اس لیے وہ ڈکیت اور غنڈے بن گئے۔
ایک سوا ل یہ بھی ہےکہ کوئی نیتا اگر ایک دن کے لیے ایوان کا رکن بن جائے
تو زندگی پھر پنشن لینے کا حقدار بن جاتا ہے ۔ آئی پی ایل کر کھلاڑیوں کو
جن میں غیر ملکی بھی شامل ہیں پنشن دی جاتی ہے۔ تو کیا اس جعلی دیش بھکت
سرکار کے نزدیک سرحد پر جان لڑا کر ملک کی حفاظت کرنے والے فوجیوں کی حیثیت
ان بدعنوان سیاسی رہنماوں اور کرکٹ کے کھلاڑیوں سے بھی گئی گزری ہے؟ سی پی
ایم کے رہنما سیتارام یچوری نے اس اسکیم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ،
''ایک پیشہ ور فوج بنانے کے بجائے مودی حکومت نے 'ٹھیکے پر فوجیوں' کی
تجویز پیش کی ہے تاکہ پینشن کے پیسے بچا لیے جائیں۔ چار برس کے بعد ان کے
پاس پرائیوٹ ملیشیا کی خدمت کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہو گا۔
اس ملک دشمن اسکیم کو ختم کریں۔'' انفرادی سطح کے علاوہ اس اسکیم کا قومی
سطح پر بھی بڑا نقصان ہے بقول راہل گاندھی ، ہندوستان کو دو محاذوں پر
خطرات کا سامنا ہے، اگنی پتھ مسلح افواج کی آپریشنل صلاحیتوں کو کم کر دے
گی اور اس کے ذریعہ بی جے پی حکومت نے فوج کے وقار، روایات، جرأت اور نظم و
ضبط سے مصالحت کی ہے ۔اس لیے یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ سیاستدانوں کے علاوہ
معروف دانشور اور تجزیہ نگار پرتاپ بھانو مہتا نے اسے آگ کے کھیل سے تشبیہ
دی ہے اور یہی درست ہے۔ اگنی پتھ پر مودی جی آگ سے کھیل رہے ہیں اور ملک و
قوم کو آگ کے شعلوں میں جھونک رہے ہیں۔
|