ہیلی کاپٹر کی تباہی نے امریکہ کو ہلا رکھ دیا

نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق امریکہ افغانستان میں اس بری طرح سے پھنس چکا ہے کہ اب جان چھڑانا بھی چاہے تو جلدی چھوٹنے والی نہیں۔ جدید اسلحے سے لیس اس کی جدید افواج کو آئے روز کوئی نہ کوئی ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے۔ سپر پاور ہونے کے باجود اس کی افواج ابھی تک کسی بھی افغان صوبے کا مکمل کنٹرول حاصل نہیں کرسکیں۔ وقتاََ فوقتاََ وہ مختلف علاقوں میں فتح کے جھنڈے گاڑنے کا اعلان تو کرتے رہتے ہیں مگر عملی طورپر انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی حکام اپنی پوری فوجی قوت آزمانے کے بعد اب طالبان سے مذاکرات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ مگر جس طرح حال ہی میں طالبان نے اپنی کاروائیوں میں اضافہ کیا ہے لگتا یہی ہے کہ وہ بھاگتی امریکی افواج کو زیادہ سے زیادہ مالی اور جانی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ حال ہی میں دو امریکی چنیوک ہیلی کاپٹر وں کی تباہی کے واقعات جن میں کئی امریکی اور افغان فوجی ہلاک ہوگئے طالبان کے ان عزائم کی واضح نشاندہی کررہے ہیں۔ پہلا واقعہ صوبہ وردک میں پیش آیا ۔ جہاں طالبان نے ایک امریکی چنیوک ہیلی کاپٹر کو مار گرایا۔ جس کے نتیجے میں 31 امریکی اور 7 افغان فوجی ہلاک ہوگئے جن میں اسامہ بن لادن کو مارنے والے دستے سیلز یونٹ 6 کے 25 کمانڈوز بھی شامل تھے۔ ان میں سے 20 سیلز نے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد کے کامیاب آپریشن میں حصہ لیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ گزشتہ دس سال میں افغان جنگ کے دوران کسی ایک واقعے میں امریکیوں کا یہ سب سے بڑا جانی نقصان ہے۔ اس سے پہلے 28جون 2005ءکو طالبان نے راکٹ حملے میں 16 امریکی فوجی ہلاک کئے تھے۔ دوسرا واقعہ صوبہ پکتیا کے ضلع زرمت میں ہوا۔ جہاں طالبان نے ایک اور امریکی چنیوک ہیلی کاپٹر مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے جس میں طالبان ترجمان کے مطابق 33 امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ رائٹرز کو بھیجے گئے ٹیکسٹ پیغام میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ مجاہدین نے 48گھنٹوں میں دوسرا بڑا شکارکیا ہے۔ تاہم ایساف کے ترجمان واضح کیا کہ نیٹو کے ہیلی کاپٹر نے ہنگامی لینڈنگ کی، اس واقعہ میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔اس طرح اس واقعہ کی صداقت کے بارے میں ابھی تک شکوک شبہات پائے جاتے ہیں۔

صدر بارک اوباما نے ہیلی کاپٹر کی تباہی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنی زندگیاں قربان کرنیوالے امریکی اہلکاروں کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔اوبامہ کے اظہار افسوس کے برعکس بہت سے تجزیہ نگار اس واقعے کو کوئی اور ہی رنگ دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ سی آئی اے کا 9/11، اسامہ کی ایبٹ آباد اور پاک فوج کے جنرل ضیاءکے طیارے کی تباہی جیسا کوئی منصوبہ ہوسکتا ہے۔ ان کے مطابق سی آئی اے چونکہ امریکی حکومت اور فوج سے زیادہ بااختیار بلکہ طاقتور ہے اس لئے اسامہ کی ہلاکت کی سچائی پر پردہ ڈالنے کے حوالے سے وہ ماضی کی طرح کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ان کے اس موقف میں کافی صداقت نظر آتی ہے کیونکہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی نہ تو کوئی ویڈیو سامنے آئی ہے اور نہ ہی کوئی تصاویر موجود ہیں۔ اسامہ کی ہلاکت کے زندہ ثبوت وہی 20 نیوی سیلز تھے جو ہیلی کاپٹر میں اکٹھے سوار تھے اور اکٹھے ہی ہلاک ہوگئے۔ اس طرح اب یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ ہیلی کاپٹر حادثہ میں تباہ ہوا یا پھر یہ طالبان کے غضب کا نشانہ بنا۔

ہیلی کاپٹر کی تباہی کے حوالے سے پاکستان اور دنیا کے ذرائع ابلاغ میں ہونے والی ان چہ مگوئیوں پر امریکہ نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کئے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کی درستگی کے لئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ایسی تمام خبریں قطعی طور پر بے بنیاد ہیں۔ ہمیںپاکستانی میڈیا کی جانب سے اس طرح کے صریحاً جھوٹے الزامات شائع کرنے پر سخت مایوسی ہوئی ہے اور ہم ذمہ دار ذرائع ابلاغ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حقائق کو درست طریقے سے بیان کریں۔ امریکی حکومت اس خوفناک حادثے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اس ضمن میں مزید معلومات تحقیقات مکمل ہونے پر مہیا کی جائیں گی۔

اگر یہ کہا جائے کہ چینوک ہیلی کاپٹر کی تباہی کے معاملے نے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ایک طرف تو ان کے ”قابل فخر“ سیلز جان سے گئے دوسری طرف دنیا ان کی اس ”قربانی “ کو شک کی نظروں سے دیکھ رہی ہے اور تیسری جانب یہ واقعہ طالبان کی بہت بڑی کامیابی اور امریکی فوج کے لئے ایک بہت بڑی ہزیمت کا باعث بنا ہے جس کی وجہ سے امریکہ کے اندر بھی کافی شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان سیلز کی لاشیں امریکہ پہنچیں تو میڈیا کو ان کی کوریج سے روک دیا گیا تاکہ عوامی ردعمل سے بچا جاسکے ۔ اس پس منظر میں امریکہ جو 2014ءتک افغانستان سے انخلاءکا پروگرام بنائے بیٹھا تھا شاید اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے اور وہاں سے قبل از وقت ہی راہِ فرار اختیار کرلے۔ دہلی میں متعین امریکی سفیراور امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر کی بھارتی آرمی اور ائر فورس کے سربراہوں سے ہنگامی ملاقات اسی طرف اشارہ کررہی ہے کہ اب امریکہ افغانستان میں بھارت کو الجھا کر وہاں سے رفو چکر ہونے کی سوچ رہا ہے۔ بھارتی وزارت دفاع کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے مطابق بھارتی آرمی چیف اور بھارتی ائرفورس کے چیف امریکی سفیر سے ملاقات کے بعد ائر فورس کے ایک فائٹر طیارے کے ذریعہ سے دہلی ائربیس سے کابل گئے جہاں انہوں نے امریکی فوجی حکام اور نیٹو کمانڈ کے ساتھ ہنگامی ملاقاتیں کی ہیں۔ انتہائی حساس ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی سفیر نے وائٹ ہاؤس میں پینٹاگون سے مشورے کے بعد بھارتی فورسز چیف کے ساتھ یہ ملاقاتیں کی ہیں۔کہا جارہا ہے کہ امریکہ نے غیر اعلانیہ طور پر بھارت کی فوجی کمان سے مدد و تعاون مانگا ہے۔ بھارتی ائرفورس اور بھارتی آرمی کو طالبان کے خلاف کاروائی اور ملا عمر اور ایمن الظواہری کی تلاش کے لئے آپریشن (جیرلی) میں استعمال کیا جائے گا۔

بھارتی فوج کا افغانستان میں کردار کوئی بھی ہو وہ غیر فطری ہوگا اس لئے افغان دلدل میں داخل ہونے سے قبل بھارتی قیادت کو سوچ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر روس اور امریکہ جیسی سپر پاور اپنے جدید اسلحے کے باوجود وہاں غرق ہوگئیں تو اس کے زنگ آلودہ ٹینک، ناکارہ طیارے اور ناتواں جوان افغان طالبان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ افغانستان میں بھارت کا کردار اس لحاظ سے بھی مشکوک اور خطرناک تصور کیا جارہا ہے کیونکہ اس کی ساری توانائیاں افغانستان میں دہشت گردوں کی بجائے پاکستان کو عدم تحفظ سے دوچار کرنے پر صرف ہوں گی۔بہرحال افغانستان سے اپنے انخلاءسے قبل امریکہ خطے میں عدم استحکام کو دوام دینے کا متمنی تھا۔افغان جنگ میں بھارت کی شمولیت سے اس کا کم از کم یہ مقصد پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کو حالات سے باخبر رہنے اور قومی مفاد میں فیصلے اور اسٹریٹجی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 63132 views Columnist/Journalist.. View More