انسانوں کے ساتھ ساتھ معاشرے اور
ریاستیں بھی بنتی،پھلتی اور بالآخر ختم ہو جاتی ہیں یہی نظام قدرت ہے ،ہر
عروج کا زوال اور ہر زوال کے بعد عروج ایک مقبول مقولہ ہے جس کا مظاہر ہم
دیکھتے رہتے ہیں ۔معروف مورخ دان ابن خلدون نے قوموں کے عروج و زوال کے
فلسفے میں 120 سالوں کو اہم قرار دیا ہے جس میں قومیں بنتی ،ترقی کرتی اور
پھر زوال کا شکار ہو جاتی ہیں ۔دیگر اقوام کی طرح مسلمانوں کو بھی ترقی اور
تنزلی کے ادوار دیکھنے پڑے جب تک وہ اپنے مرکز سے مضبوط رہے عدل و انصاف
پرقائم رہے عروج پر گامزن رہے جہاں بگاڑ آیا وہاں زوال شروع ہو گیا ۔فارس
ہو یا روم، تخت مصر اور سلطنت عثمانیہ ہو یا پھر سلطنت مغلیہ کا جلال ،مرکز
اقتدار سے انہیں آخر کار محروم ہونا پڑا۔لہذا جو یہ کہتے ہیں کہ امریکہ کو
زوال نہیں فطرت کے اصول کا بھی باغی ہے ۔
امریکہ ان یورپی بھگوڑوں کی سرزمین ہے جو یورپ کے اندھیروں سے بھاگنا چاہتے
تھے اور ان کی خوش قسمتی کہ ان کی نئی دنیا آباد کرنے کی خواہش سے قبل ہی
کولمبس امریکہ دریافت کر چکا تھا ا ور پھر 4 جولائی 1776 کو امریکی
کالونیوں نے ایک معاہدی کے تحت اپنی ریاست قائم کی ۔ ابتداءمیں یہاں کے
آباد کاروں کو مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن محنت ان آباد کاروں
کا خاصا تھا یہی وجہ ہے کہ ترقی کی منزل سرعت سے طے ہوتی گئی اور بیسویں
صدی کے دوسرے نصف تک امریکہ ایک عالمی طاقت اور قوت کی صورت میں سامنے آ
چکا تھا لیکن طاقت کا نشہ عموماً خرمستی اور شکست کا سبب بنتا ہے اور یہی
حال امریکہ میں آج کل دیکھا جا رہا ہے۔
امریکہ کا غیر جانبدار طبقہ اب یہ کہنے پر مجبور ہو چکا ہے کہ جس سرعت سے
واشنگٹن نے افغانستان اور عراق کو فتح کرنے کا اعلان کیا تھا کئی سال گزرنے
کے باوجود ابھی تک یہ ممالک اس کے قابو میں نہیں آئے ۔خاص کر افغانستان میں
امریکہ کی صورتحال خاصی پتلی ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ویت نام
اور کمبوڈیا کی لڑائی کی طرح افغان جنگ میں بھی امریکی انتظامیہ مجبور ہو
گئی ہے کہ جن طالبان کے خلاف اس نے ہتھیار اٹھائے تھے اب وہ اسی کے ساتھ
مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہتا ہے ۔ افغان سرزمین پر طالبان کی گرفت ایک
بار پھر مضبوط ہو رہی ہے ،امریکہ نواز افغان صدر حامد کرزئی کے لئے مشکلات
بڑھ گئی ہیں ان کے بھائی کے قتل کے علاوہ کرزئی کے مشیروں کو بھی چن چن کر
مارا جا رہا ہے ۔صدر کرزئی خود بھی کئی بار قاتلانہ حملوں کا نشانہ بن چکے
ہیں ۔امریکہ ،برطانیہ،سپین،کینیڈا سمیت کئی ممالک اپنی افواج کے انخلاءکا
اعلان کر چکے ہیں۔ 2014 میں امن و امان کا انتظام افغان فوجیوں اور پولیس
کو منتقل کرکے نیٹو افواج کا افغانستان چھوڑے جانے کا منصوبہ بھی بن چکا ہے
کہ امریکہ اور اس کے ہم نوالہ وہم پیالہ افغان سرزمین پر جن مقاصد کے لئے
آئے تھے اس میں وہ کافی حد تک ناکام ر ہے ہیں ، خود امریکہ کے جنگی اخراجات
بڑھ چکے ہیں ،فوجیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو چکا ہے 6 اگست کو افغان صوبہ
و اردک کے تنگئی گاؤں میں جدید ترین چینوک ہیلی کاپٹر مار گرایا گیا جس میں
31 امریکیوں سمیت37 افراد سوار تھے ،ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں میں وہ
22 کمانڈوز بھی شامل تھے ،جنہوں نے 2 مئی2011 کو ایبٹ آباد میں القاعدہ کے
سربراہ اسامہ بن لادن کو مارا تھا ۔چینوک ہیلی کاپٹر گرائے جانے کی ذمہ
داری طالبان نے قبول کر لی ہے۔ افغان جنگ میں نیٹو کے اب تک 101 ہیلی کاپٹر
گر کر تباہ ہوئے ہیں جبکہ17 کو باقاعدہ نشانہ بنا کر گرایا گیا ہے۔ نائن
الیون کے بعد ایک دن میں ہونے والی یہ سب سے بڑی ہلاکتیں ہیں اور ہلاکتیں
بھی اعلیٰ تربیت یافتہ کمانڈوز کی ہیں جس پر اگر اسے نائن الیون ٹو کہا
جائے تو بے جا نہ ہو گا اور امریکہ اس حوالے سے اتنا محتاط ہے کہ اس نے
پاکستانی اخبارات میں چھپنے والی اس رپورٹ کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جس میں
کہا گیا تھا کہ امریکہ نے حسب روایت کمانڈوز کو خود مار کر اپنے تمام ثبوت
ختم کر دئیے ،دوسری جانب ان 31 لاشوں کے امریکہ پہنچنے پر واشنگٹن سرکار نے
میڈیا کو اس تمام واقعہ کی کوریج سے روک دیا حالانکہ 2009 میں امریکی صدر
اوباما نے جنگوں میں مارے جانے والے فوجیوں کی فوٹیج لینے پر عائد پابندی
ختم کر دی تھی ۔
امریکہ کی عسکری میدان میں شکست کی ایک اور وجہ اس کا معاشی بحران بھی ہے ،اوباما
انتظامیہ آخر کار ریاستی قرضوں کی حد14 سے24 ٹریلین ڈالر تک کرنے میں
کامیاب ہو گئی ہے امریکہ کی کل قومی پیداوار اس کے قرضوں کے برابر آ جانے
سے تاریخ میں پہلی بار اس کی کریڈٹ ریٹنگ پلس تھری سے پلس ٹو پر آ گئی، جس
سے گزشتہ دنوں سینڈک سمیت د نیا بھر کی تمام اہم اسٹاک مارکیٹس میں شدید
مندی رہی اور فی اونس سونے کی قیمت بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی
،امریکی بانڈز کا سب سے بڑا خریدار چین ہے اور خود امریکہ چین کے بہتر
اقتصادی حالات کے باعث وہاں سرمایہ کاری کرنے پر مجبور ہو گیا ہے ا مریکہ
کے بینکس بھی گزشتہ کچھ مدت سے شدید دباؤ کا شکا ر ہیں اور بعض تو دیوالیہ
بھی ہو چکے ہیں ۔
عسکری اور معاشی میدان کےساتھ اگر امریکی معاشرے پر بھی نظر ڈالیں تو وہاں
بھی اخلاقی قدروں میں شدید گراوٹ نظر آ تی ہے ،جھوٹ،جرائم اور جنسی بے راہ
روی نے امریکی معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے یہ وہ تما م اشارئیے ہیں جو
قوموں کے زوال کا سبب بنتے ہیں لیکن گزشتہ روز جس طرح امریکہ نے انٹر سٹ
ریٹ 2 سال تک برقرار رکھنے کا اعلان کرکے اپنی معیشت کو سہارا دیا ہے ایسے
سرعت اقدامات اگر وہ مستقبل میں بھی کرتا رہا تو اس کی بقاءہے بصورت دیگر
ظلم،ناانصافی اور تشدد کی جس پالیسی پر وہ گامزن ہے اس میں ریاستیں ٹوٹ
پھوٹ اور انتشار کا ہی شکا ر ہوتی ہیں اور امریکی سفارت خانے کو یہ برا لگے
گا کہ بدقسمتی سے اس کا ملک اسی ڈگر پر گامزن ہے ۔
(آخر میں ایک اپیل کہ ذہنی و جسمانی پیدائشی معذور بچوں کے علاج کے حوالے
سے لاہور میں انور شاہ ٹرسٹ کے نام سے ایک فلاحی ادارہ کامیابی سے کام کر
رہا ہے ۔آپ اپنے زکواة،صدقات اور عطیات کی ادائیگی کے حوالے سے ڈاکٹر شہزاد
انورمو بائل نمبر0300-9400049 پر رابطہ کر سکتے ہیں۔) |