بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سابق ترجمان نوپور شرما
کو گرفتار کرنے کے لیے ممبئی پولیس کی ایک ٹیم دہلی پہنچی تو روپوش ہوگئی
۔مہاراشٹر کے وزرات داخلہ کا ماننا ہے کہ ممبئی پولیس کے پاس نوپور شرما کو
گرفتار کرنے کے لیے کافی ثبوت موجود ہے- رضا اکیڈمی کی جانب سے درج شکایت
کے بعد بھیونڈی پولیس نے بھی نوپور شرما کے خلاف معاملہ درج کیا تھا- مزے
کی بات یہ ہے کہ نوپور شرما کودہلی پولیس نے سیکورٹی فراہم کررکھی ہےاور دو
پولیس اہلکار اس کی خدمت میں تعینات رہتے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ چھپتی پھر
رہی ہے اور 5 دنوں تک ممبئی پولیس کی ٹیم کے ہتھے نہیں چڑھی۔ اس سے قبل بی
جے پی کے سابق رہنما نوین کمار جندل نے ٹویٹ کیا کہ اس کے خاندان کو اسلامی
بنیاد پرستوں سے خطرہ ہے اور پھراپنے خاندان کو دہلی سے باہر بھیج دیا۔
کوئی وزیر داخلہ اگر اپنے چہیتوں کو دارالخلافہ کے اندر تحفظ دینے میں
ناکام ہوجائے تو اسے اقتدار میں رہنے کا حق نہیں ہے۔
مہاراشٹر میں نوپور کے خلاف سمن سے مودی بھگتوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور
نہ ان پر ممتا بنرجی یا اکھلیش یادو کی جانب سے گرفتاری کا مطالبہ اثر
انداز ہوتا ہے لیکن جب مرکزی سرکار کے تحت کام کرنے والے اقلیتی کمیشن کی
طرف سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ دہلی پولیس کیا کارروائی کررہی ہے اور اسے
گرفتار کرکے کیفرِ کردار کیوں نہیں پہنچایا جاتا ؟ تب ان لوگوں کو تشویش
لاحق ہوجاتی ہے کیونکہ اس کے بعد نوپورکو تحفظ دینے والی دہلی پولیس کو ایف
آئی آر درج کرنا پڑتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اسے کمزور کرنے کی خاطر
نوپور کے ساتھ مزید تیس لوگوں کو لپیٹ لیا جاتا ہے۔ مودی بھگت اس وقت بھی
اپنی تضحیک محسوس کرتے ہیں جب نوین جندل کو اپنا خاندان دہلی سے باہر کسی
نامعلوم مقام پر منتقل کردینا پڑتا ہے۔ یہ امیت شاہ کی کس قدر بڑی توہین ہے
کہ ان کے دہلی میں وزیر داخلہ رہتے بی جے پی کا ایک سابق رکن خود کو
راجدھانی میں غیر محفوظ کرنے لگے اور اپنے خاندان کو روپوش کرنے پر مجبور
ہوجائے ۔ سچ تو یہ نوین کی اس بزدلی نے پورے سنگھ پریوار کی ہیکڑی نکال دی
ہے۔
دہلی کے علاوہ کانپور میں بھی پہلے بی جے پی کی بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے
سابق ضلع سکریٹری ہرشت سریواستو کو اور پھر گوروو راجپوت کومحمد ﷺ کے خلاف
توہین آمیز بیان کے لیے گرفتار کیا جاتا ہے۔ اس بابت بجا طور پر کانپور کے
پولیس کمشنر وجے مینا کا کہنا ہے کہ جو کوئی بھی مذہبی جذبات کے ساتھ
کھلواڑ کرے گا، اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔ اسی طرح کانپور ہی میں
ایک مسلم بزرگ دوکاندار کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے غنڈے تشار شکلا کی ویڈیو
کےنشر ہوتے ہی اسے بھی دھر دبوچا جاتا ہے۔ یہ بھی بیرونی دباو کا اثر ہے
ورنہ یوگی راج میں ایسا نہیں ہوتا تھا ۔ اب تو بعد نمازِ جمعہ اترپردیش کے
کئی شہروں میں مظاہرہ کرکے ببانگِ دہل مسلمانوں نے اپنے غم غصے کا
جرأتمندانہ اظہار کیا ہے۔ یہ احتجاج دہلی ، کولکاتہ ، چندی گڑھ اور جموں
جیسے کئی مقامات پر ہوا۔ بی جے پی سرکاروں کے ان اقدامات نے ہندوتوا کے بڑے
حامیوں کو کس قدر تشویش میں مبتلا کردیا ہے اس کا اندازہ یتی نرسنگھا نند
جیسے لوگوں کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے۔
یتی نرسنگھانند نے دوہفتہ قبل مسلمانوں سے معافی مانگ کر عوامی زندگی سے
کنارہ کشی کا عہد کیا تھا مگر نوپور کی ہمدردی میں اس کے صبر کا پیمانہ
لبریر ہوگیا۔ اس نے کہا نوپور کے ساتھ جو کیا گیا وہ اس کی غلطی نہیں ہے۔
یہ ہندوستان کے بزدل رہنماوں کا اسلام سے ڈر ہے یا وہ بک گئے ہیں ۔ ان کی
وجہ سے یہ درگت ہوئی ہے۔ مودی اور یوگی پر ایسا سنگین الزام تو کسی مسلم یا
سیکولر رہنما نے بھی نہیں لگایا۔ یتی نرسنگھانند نے قرآن اور اسلامی تاریخ
کی کتابوں کے ساتھ 17؍مئی کو بعد نمازِجمعہ جامع مسجد دہلی میں جاکر
مسلمانوں سے رابطہ کرنے کا اعلان کیا تو یوگی کے غازی آباد انتظامیہ نے اس
کو ایک نوٹس جاری کرکے بتایا کہ وہ وہاں جانے کی زحمت نہ کرے اور اپنا
مذکورہ دورہ منسوخ کر دے کیونکہ اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوگی۔
اس پر وہ اڑ گیا تو اس کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرلی گئی۔
یتی نرسنگھانند کے بیان کا خاص پہلو اس کا یہ اعتراف ہے کہ ’مجھے پتہ
ہےوہاں جانے پر میرا قتل بھی ہوسکتا ہے لیکن ایسے جینے سے اچھا تو وہاں
جاکر مرجانا ہے۔ شری پنچ دشنام جونا اکھاڑہ کے مہامنڈلیشور کامودی کے نئے
بھارت میں زندہ رہنے پر جامع مسجد جاکر مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوجانے کو
ترجیح دینا اس کی مایوسی کا غماز ہے۔یتی کےالفاظ میں یہ بڑے شرم کی بات ہے
کہ یوں لگ رہا ہے جیسے اسلامی غلامی اس ملک میں آگئی ہے۔ رام مندر کا سنگ
بنیاد رکھتے ہوئے مودی نے اعلان کیا تھا کہ ملک سے ایک ہزار سالہ غلامی کا
خاتمہ ہوگیا ہے مگر یتی نرسنگھانند کے مطابق وہ آزادی خود انہیں کی
موجودگی میں رخصت ہوچکی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ’ سب اسے تسلیم کرلیں مگر میں
تسلیم نہیں کرپاوں گا ۔ میں جامع مسجد میں جاکر لوگوں کو ان کی کتاب کے
بارے میں معلومات دوں گا‘ ۔ نرسنگھانند دو ہفتہ قبل ہندووں کو گیتا پڑھانا
چاہتا تھا اب مسلمانوں اسلام سکھانا چاہتا ہے۔ وہ خود نہیں جانتا کہ کیا
چاہتا ہے؟ شاید اس کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے۔
نوپور سے ہمدردی رکھنے والے سرپھروں میں یتی نرسنگھا نند کے علاوہ بھوپال
سے رکن پارلیمان اور ناتھو رام گوڈسے کی بھگت پرگیہ ٹھاکر بھی شامل ہیں ۔
پرگیہ کی شخصیت ان کے متنازع بیان کے سبب ایک بار پھر زیر بحث آگئی ہے۔
پرگیہ ٹھاکر نے پیغمبر اسلام پر نازیبا تبصرہ کرنے والی بی جے پی کی معطل
شدہ لیڈر نوپور شرما کی حمایت میں کہا کہ اگر سچ بولنا بغاوت ہے تو سمجھ
لیں کہ ہم بھی باغی ہیں۔ سنگھ پریوار کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے اس میں
بڑا سخت نظم و ضبط پاپا جاتاہے۔ اس نظم و ضبط کا مظاہرہ یوں ہوتا ہے کہ جس
ترجمان کو پارٹی قصور وار ٹھہرا کر نہ صرف معطل کرتی ہے بلکہ نکال باہر
کرکے اس پر ایف آئی آر درج بھی کرواتی ہے اسی ملزم کی ایک رکن پارلیمان
کھلے عام حمایت کرتی ہے۔ اعلیٰ کمان میں ہمت نہیں ہے کہ اس پر کارروائی
کرسکے ۔ اس سے قبل پردھان سیوک نے یہ تو کہاتھا کہ پر گیہ کے گوڈسے کی
تعریف اور گاندھی کے قتل کی تعریف و الے بہان سے انہیں قلبی تکلیف ہوئی مگر
وہ پرگیہ کا بال بیکا نہیں کرسکے ۔ یہی ڈسپلن اور تربیت ہے تو اس سے محروم
لوگ بہتر ہیں کہ جو جھوٹ موٹ دعویٰ تو نہیں کرتے؟
اپنے ٹوئٹ میں خود پر فخر جتاتے ہوئے پرگیہ نے کہا کہ وہ سچ بولنے کے لئے
بدنام ہیں۔ گیان واپی کا نام لئے بغیر وہ بولیں کہ وہاں شیو مندر تھا، ہے
اور رہے گا۔ اسے فوارہ کہنا غلط ہے۔ یہ عجیب منطق ہے کہ فوارے کو فوارہ
بولنا غلط اور ہندو دیوی-دیوتا و سناتن دھرم پر حملہ ہے۔ اس کے خلاف و ہ
حقیقت بیان کر نے کے نام جھوٹ پھیلانا چاہتی ہیں ۔ پرگیہ نے یہ بھی کہا کہ
’’ہماری اصلیت تم بتا دو تو ہمیں قبول ہے لیکن تمہاری اصلیت ہم بتا رہے ہیں
تو تکلیف کیوں ہے؟ اس کا مطلب کہیں نہ کہیں تاریخ داغدار ہے۔‘‘ پرگیہ کو اس
دعویٰ کے بعد ان حقائق کی فہرست دینی ہوگی کہ جو انہوں نے تسلیم کی ہے۔
مالیگاوں میں بم دھماکے کے لیے اسکوٹر انہوں نے خریدی اور ان کے اپنے نام
پر تھی ۔ وہ اگر ایسا نہیں کرسکتیں تو ان حقائق کی تفصیل دیکھیں جن کا خود
انہوں نے انکار کیا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان دھماکہ کرواکر فون پر اس کی
خوشی منائی ۔ ہیمنت کرکرے جیسے فرض شناس افسر نے گرفتار کیا تو اس کو
بددعائیں دیں اور ان کی موت پر خوشی منائی ۔ اب بھی عدالت پیشی کے وقت وہیل
چیئر پر بیماری کا ڈھونگ رچاتی ہیں اور اس کے بعد کھیل کے میدان میں پہنچ
جاتی ہیں ۔ انسان کو بلند بانگ دعویٰ کرنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانک کر
دیکھ لینا چاہیے۔
نوپور کے حوالے سے پرگیہ ٹھاکا کہنا ہے کہ لا مذہبی یعنی سیکولر لوگوں نے
ہمیشہ کچھ کہنے و الوں کو دھمکیاں دی ہیں۔ اول تو یہ الزام غلط ہے اگر اگر
درست ہوتو تب بھی گوڈسے کو اپنے لیے نمونہ سمجھنے والی پرگیہ کو اس پر
اعتراض کا حق نہیں ہے کیونکہ ناتھورام نے دھمکی دینے کے بجائے گاندھی جی پر
گولی داغ دی۔ اشتراکیوں کی تاریخ اور ذہنیت بیان کرتے ہوئے پرگیہ کہتی ہیں
کہ وہ دیوی دیوتاؤں پر فلمیں بناتے ہیں۔ ہدایت کاری کرتے ہیں، پروڈیوس کرتے
ہیں اور گالیاں دیتے ہیں لیکن یہ آدھا سچ ہے ۔ اس کی تکمیل یہ ہے کہ عوام
اس کو دیکھ کر فلموں کو کامیاب کرتے ہیں اور دیش بھکتی کے فروغ کی خاطر جب
پرتھوی راج چوہان جیسی فلمیں بنائی جاتی ہیں تو شائقین اس کو سپر فلاپ
کردیتے ہیں ۔ پرگیہ کو سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور ان رائے
دہندگان کے سامنے جھولی پسار کر ووٹ کی خاطر نہیں جانا چاہیے۔پرگیہ ٹھاکر
کا دعویٰ ہے کہ ’’یہ بھارت ہندوؤں کا ہے۔ یہاں سناتن زندہ رہے گا اور اسے
زندہ رکھنا ہم لوگوں کی ذمہ داری ہے اور ہم اسے رکھیں گے بھی۔ سناتن دھرم
اپنا مذہب قائم کرتا ہے۔ جو بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے ہے۔‘‘لیکن یہ
بھی ایک حقیقت ہے کہ اسی ہندوستان میں نوپور جیسے ترجمان جب اپنی حدوں کو
پار کردیتے ہیں تو خود ہندوہردے سمراٹ کو اس کے پر کترنے پر مجبور ہونا
پڑتا ہے۔ نوپور اور نوین کی حالتِ غیر پر گائیڈ فلم کا نغمہ یہ معمولی
ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے ؎
کیا سے کیا ہوگیا ہندتوا ، تیرے پیار میں
چاہا کیا ،کیا ملا ہندوتوا ،تیرے پیار میں
|