آئی ایم ایف اور گورنمنٹ کے درمیان پی ٹی آئی کے
دور میں کئے گئے منجمد معاہدے پر قیاس آرائیاں اور بیانیہ اتحادی حکومت کے
خلاف جارہا ہے کہ مالیاتی ادارے کی سخت شرائط عائد مانی جا رہی ہے، عوام پر
مہنگائی کا بوجھ اور ٹیکسوں کا انبار لاد دیا وغیرہ وغیرہ۔یہ سب حقیقتاََ
برا لگتا ہے لیکن اس کے زمینی حقائق کو سمجھے بغیر دہائیاں دینا سمجھ میں
نہیں آتا۔ کیا آئی ایم ایف یا کوئی مالیاتی ادارہ کسی بھی ملک کو دعوت دیتا
ہے کہ ہمارے پاس بنکوں میں اربوں ڈالر بلاوجہ سڑ رہے ہیں، آئیں انہیں
استعمال کریں۔ آخر ہم ان اداروں کے پاس جاتے ہی کیوں ہیں؟۔ ہم سے مراد
حکومت ہے کیونکہ کوئی غریب یا متوسط طبقے کا فرد تو اُدھار پر گھر کا راشن
بھی صرف ایک دو بار لے سکتا ہے، تیسری بار رقم ادا نہ کرنے پر دوکاندار
راشن دینا ہی بند کردیتا ہے، اس کو اس بات سے سروکار نہیں ہوتا کہ اس حاجت
مند کے گھر میں بچے بھوکے اوردودھ کو بلک رہے ہوں گے اور شائد بیماری کا
بھی شکار اور ان کے پاس سرکاری اسپتال جانے تک کے کرایہ کے پیسے بھی نہ
ہوں، وہ میڈیکل اسٹور سے بھی دوائی کہاں سے خریدے گا، اگر کوئی مر گیا تو
کفن دفن اورخیرات کرنے کا خرچہ تک اس کے پاس نہیں ہوتا، وہ بھی محلے والے
اپنی مدد آپ کے تحت کرتے ہیں، تو ان حالات میں دوکاندار ترس کھانے کی
پوزیشن میں اس لئے نہیں کیونکہ اس نے کوئی خیراتی ادارہ نہیں کھولا کہ مخیر
حضرات سے ہزار روپے لے کرسو روپے تقسیم کرے اور نو سو روپے مبینہ طور پر
خود رکھ لے یا غریب کے نام پر خیرات لے کر اپنے لئے محل بنالئے۔
بس کچھ ایسی ہی صور ت حال آئی ایم ایف جیسے اداروں کی ہے کہ وہ صرف یہ
دیکھتے ہیں کہ ان کی رقم اور سود انہیں بر وقت مل سکے گا یا نہیں، کیا
حکومت کے پاس اتنے ذرائع ہیں کہ وہ ان کی رقم لوٹا دے۔ یقینی طور پر ایسا
نہیں ہوتا، اسی لئے تو حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے، پھر
ادارہ ان کا معاشی پوسٹ مارٹم کرتا ہے کہ شاہی اخراجات کیا ہیں، آمدنی
اٹھنی خرچا روپیہ کیوں ہے۔ جو چیز مہنگے داموں درآمد کیگئی، اس کو نقصان
میں آگے کیوں فروخت کیا جارہا ہے بالخصوص ان لوگوں کو جن کے مالی وسائل
مضبوط اور مستحکم ہیں یعنی مراعات یافتہ طبقے کو سبسڈی کیوں دی جا رہی ہے،
اور پھر یہی وہ سخت مرحلہ ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کو حکومت سے ضمانت لینی
پڑتی ہے کہ وہ فلاں فلاں شعبے میں کٹوتی کرے، سبسڈی ختم کرے، حکومت اپنے
اخراجات کنٹرول کرنے کے لئے ان کے طے کردہ ضوابط پر چلے اور جن سے رقم نکل
سکتی ہے، ان سے کولہو کے بیل کی طرح رقم نکلوائے۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں
نہیں دیکھا گیا کہ زراعت کے شعبے پر قابض جاگیرداروں، وڈیرا شاہی،سرداروں
مَلکوں سے ٹیکس لینے کی سخت شرائط رکھوائی جاتی ہوں، کیونکہ وہ جانتے ہیں
کہ ان سے شائد ہی کچھ نکلے، اس لئے عوا م کا تیل پسینہ نکالا جائے، انہیں
نچوڑا جائے۔ سو پھر حکومت اور ورزا ء اپنے پر تعیش اخراجات کم اور ختم کرنے
کے بجائے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہوئے سب کچھ آئی ایم ایف جیسے مالیاتی
اداروں پر ملبہ ڈال دیتے ہیں کہ ان کی سخت شرائط ہیں، ان پر عمل کرنا اور
عوام کو قربانی دینا ضروری ہے۔
بھئی عوام چائے پینا کم کیوں کرے جب کہ آپ اپنے پروکوٹول کی ایک گاڑی کم
نہیں کرسکتے۔ سبسڈی کا فائدہ عوام کے بجائے خواص کو ہوتا ہے۔ تو سبسڈی کیوں
اور کس لئے دے رہے ہیں، مراعات یافتہ طبقے کو نوازنے کے لئے۔ واضح رہے کہ
سبسڈی اکثر ایسے اثرات کا باعث بنتی ہے جو پہلی نظر میں ظاہر نہیں ہوتے اور
اس کے نتیجے میں اکثر بہت زیادہ نقصان ہوتے ہیں، مارکیٹ خود سے ہر چیز کو
منظم کرتی ہے، جیسے دنیا خود سے بدل جاتی ہے، اس لئے مارکیٹ میں کسی قسم کی
مداخلت سے گریز کیا جانا چاہیے۔ معاشیات میں حکومت کا کردار ایک ایسا مسئلہ
ہے جس پر جذباتی بحث ہوتی رہتی ہے، مارکیٹ کی معیشت میں کسی بھی حکومتی
مداخلت کو طلب اور رسد کی قوتوں کے ذریعے پیدا ہونے والے توازن کو خطرہ
سمجھا جاتا ہے، تاہم بعض معیشت دان لوگوں کی فلاح و بہبود کو محفوظ بنانے
اور بڑھانے کے لئے ریاستی مداخلت کو ضروری سمجھتے ہیں۔معاشی نقطہ نظر سے،
ریاستی اخراجات کومنتقلی، سبسڈی اور حقیقی اخراجات میں تقسیم کیا جاسکتا
ہے، حقیقی اخراجات سامان اور خدمات کے اخراجات ہیں لیکن ہر دو کے لئے ضروری
ہے کہ کیا آپ کے پاس ایسے رسوخ و ذرائع ہیں کہ معاشی مشکلات سے نکلا جاسکے
تو یہ امر سامنے آتا ہے کہ صرف غریب اور متوسط طبقہ پورا ٹیکس دے رہا
ہے۔سبسڈی،مصنوعات کی قیمتوں اور اقتصادی اشیاء یا پورے اقتصادی حصوں کے
منافع کو تبدیل کرتی ہے اور اس طرح مارکیٹ کے وسائل کی تقسیم کو تبدیل کرتی
ہے۔ مارکیٹ میں ایڈجسٹمنٹ کی قوتیں اپنا اثر کھو دیتی ہیں اور متاثرہ
مارکیٹوں میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ یقیناً سیاست دانوں کے لیے وسائل
کی تقسیم کو مجموعی فلاح و بہبود کے لیے تبدیل کرنے کی وجوہ بھی ہیں لیکن
زمینی حقائق کا ادارک بہرحال ضروری ہے۔
اب ملک میں دی جانے والی سبسڈی کا جائزہ لیتے چلے جائیں، مثلاََ ایک معروف
حکومتی سکیم کے تحت 54 لاکھ 37 ہزار 426 خاندانوں میں 65 ارب 24 کروڑ91
لاکھ اور 12ہزار روپے تقسیم کیے گئے، 80ؒلاکھ سے زائدخاندانوں کو اربوں
روپے دیئے رہے ہیں، کیا اس سکیم سے ان کا معیار زندگی تبدیل ہوا، ان لاکھوں
خاندانوں میں کوئی ایک خاندان غربت کی لکیر سے باہر آیا،تو ایسا بالکل نہیں
ہوا۔تاہم 80لاکھ کے بجائے ہر برس 80ہزار خاندانوں کو روزگار فراہم کردیا
جاتا اور یہی رقم بڑھا کر قرض حسنہ کی صورت میں دے دی جاتی تو وہ اپنے
پیروں پر کھڑے بھی ہوجاتے بلکہ اپنے ساتھ کئی بے روزگاروں کو صاحب روزگار
بنا دیتے۔ اب ایسے منصوبوں کو کوئی بھی نام دے دیں بس اتنا بتا دیں کہ ان
کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آئی ہوگی،یہ بہت افسوس ناک صورت حال ہے کہ ایسا
نہیں ہوا، ہم عموماََ دیکھتے ہیں کہ صدقہ، خیرات اور زکوۃ دینے والا، ہزار
افراد میں دس دس کلو کا آٹابانٹ دیتا ہے لیکن اگر وہ اسی رقم سے مستحق دس
افراد کے مستقل روزگار کا بندوبست کردے تو کیا یہ بھی زیادہ بہتر نہیں۔
|