انسانی حقوق کو پامال کرنا اور اس کے خلاف اٹھنے والی
آوازوں ڈرا دھمکا کر کچل دینا موجودہ سرکار کا طرۂ امتیاز ہے۔ معروف نڈر
سماجی جہد کار تیستا سیتلواد کی حالیہ گرفتاری اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس
کی بھرپور مذمت کی جانی چاہیے۔ اس معاملے میں اگر کوتاہی کی گئی تو ظلم و
جبر کے خلاف چلنے والی جدوجہد کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا اور ظالموں کے
حوصلے بلند ہوجائیں گے۔ مقبول سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ کے گھر پر ہفتہ
ایک انتقامی کارروائی میں گجرات اے ٹی ایس نے چھاپہ مار کر انہیں حراست میں
لے لیا۔ ان کے وکیل وجے ہیرے مٹھ نے اے ٹی ایس پر بلا اطلاع گھر میں گھسنے
کے بعد مار پیٹ کرکے اپنے ساتھ لے جانے کا الزام لگایا۔تیستا سیتلواد پر
پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ 468 (دھوکہ دہی کے ارادے سے جعلسازی) اور 471
(جعلی دستاویز یا الیکٹرانک ریکارڈ کا استعمال کرنا) کے تحت الزامات عائد
کیے ہیں لیکن بظاہر اس کا مقصد ان تمام لوگوں کو خوفزدہ کرناہے جو سرکاری
مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور ااس کو
ببانگِ دہل ادا کرتے ہیں۔ تیستا ستیلواد اگر ڈر جانے والوں میں سے ہوتیں تو
2014 کے بعد ابھی تک قانونی جنگ نہیں لڑتیں ۔وہ تو ان لوگوں میں سے ہیں جن
کے بارے میں مجروح سلطانپوری نے کہاتھا؎
روک سکتا ہمیں زندان بلا کیا مجروحؔ
ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں
اس بار تیستا ستیلواد کے ساتھ معطل آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ، گجرات کے
سابق پولیس ڈائریکٹر جنرل آر بی سری کمار اور چنددیگر افراد بھی سرکار کے
نشانے پر ہیں ۔ ان سب کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرلی
گئی ہے۔ ان سب پر جھوٹے ثبوت گھڑ کر قانون کے عمل کا غلط استعمال کرنے کی
سازش کرنے کا الزام لگایا گیا ہےجس کا ہدف متعدد افراد کوسزائے مو ت کے
حامل جرم کا مجرم ٹھہرانا قرار دیا گیا ہے۔ایس آئی ٹی کے مطابق یہ آئی پی
سی کی دفعہ 194 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی اپنے
انٹرویو میں کہاہے کہ ذکیہ جعفری نے ’’کسی اور‘‘ کی یعنی تیستا کی ہدایت پر
کیس کی پیروی کی تھی اور سابقہ یو پی اے حکومت نے ان کی این جی او (سیٹیزنز
فار جسٹس اینڈ پیس) کا تعاون کیا تھا۔یہ ادارہ گجرات فسادزدگان کو قانونی
مدد فراہم کرنے کیلئے مشہور ہے۔ تیستا سیتلواڑ نے اس تنظیم کی سکریٹری کے
طور پر مظلومین کی غیر معمولی خدمات انجام دے چکی ہیں اور ان کی کوششوں سے
کئی لوگوں کو انصاف ملا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مودی سرکار کی آنکھوں میں تیستا
کھٹکنے لگیں اور اب تو انہیں احمد آباد کرائم برانچ نے سابق آئی پی ایس
افسر آر بی سری کمار کے ساتھ گرفتار کرلیا ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق سری کمار کے ذریعہ وزیر اعلیٰ کی میٹنگ میں شامل ہونے
کا دعویٰ سیاسی طور پر سنسنی خیز، بے بنیاد اور جھوٹاتھا ۔ جسٹس اے ایم
کھانولکر ، جسٹس دنیش مہیشوری اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی بنچ نے تیستا
سیتلواد پر ذکیہ جعفری کے جذبات کو خفیہ طور پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے
استعمال کرنے کا الزام لگا کر مزید تحقیقات کی ضرورت پر زور دےدیا اور اس
کی آڑ میں سرکار کو ان پر ہاتھ ڈالنے کا بہانہ مل گیا۔ گودھرا میں سابرمتی
ایکسپریس کے ایک کوچ کے اندر7 2؍ فروری 2002 آگ لگ گئی اور اس میں ایودھیا
سے لوٹنے والے 59؍ افراد ہلاک ہوگئے ۔ ان واقعات کے بعد گجرات میں فسادات
پھوٹ پڑے ۔ اس تشدد میں احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی کے اندر ذکیہ جعفری کے
شوہر اور کانگریس کے سابق رکن پارلیمان احسان جعفری کو 68؍ افراد کے ساتھ
قتل کردیا گیا ۔ وزیر داخلہ کو سابرمتی ایکسپریس کے ہلاک شدگان کا تو بہت
غم ہے لیکن گلبرگ سوسائٹی اور دیگر مقامات پر ہلاک ہونے والے ہزار سے زیادہ
مسلمانوں کی ہلاکت کا کوئی افسوس نہیں ہے۔ ان معاملات کی تحقیق کے لیے
2008؍میں سپریم کورٹ نے اپنی نگرانی میں ایک ایس آئی ٹی تشکیل دی اور اس
نے آٹھ فروری 2012 کو مودی سمیت 63 دیگر لوگوں کو کلین چٹ دے کر کلوزر
رپورٹ داخل کردی ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف ’مقدمہ چلانے
لائق کوئی ثبوت‘ نہیں ہے۔میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت نے اس کلین چٹ کی
توثیق کی تھی ظاہر ہے گجرات میں مودی کے زیر ِ اقتدار اور کیا توقع ہوسکتی
ہے۔
ذکیہ جعفری نے ایس آئی ٹی کی مذکورہ رپورٹ کے خلاف گجرات ہائی کورٹ میں
عرضی داخل کی جسے ہائی کورٹ نے 2017 میں مسترد کر دیا ۔ اس کے بعدانہوں نے
ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو قبول کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں فسادات کے پیچھے
ایک بڑی سازش کا الزام لگاتے ہوئے ایک احتجاجی عرضی دائر کردی اور اسے بھی
اب عدالت عظمیٰ نے خارج کر دیا ہے ۔ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران ذکیہ جعفری
کے وکیل کپل سبل نے پوچھا تھا کہ ایس آئی ٹی نے سی ڈی آر کی جانچ نہیں
کی، گواہان سے بات نہیں کی، فون کی تفتیش کیے بغیر آخر کس بنیاد پر حتمی
رپورٹ داخل کر دی ؟ انہوں نے یہ سوال بھی کیا تھا کہ گلبرگ سوسائٹی کے
واقعہ میں دھماکہ خیز مادہ لانے اور استعمال کرنے والوں کے خلاف کوئی
کارروائی نہیں کی گئی۔ گلبرگ معاملہ کی تفتیش کرنے والی ایس آئی ٹی یہ سب
کیوں نہیں کیا؟ ان اہم سوالات کو عدالت اور میڈیا دونوں نے نظر انداز کردیا
جبکہ ہر کوئی وزیر اعظم کی کلین چٹ پر بغلیں بجا رہا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ
امت شاہ نے تو اپنے انٹرویو میں نریندر مودی پر الزام لگانے والوں سے معافی
مانگنے کا مطالبہ بھی کردیا ۔
امیت شاہ کو یہی مطالبہ اپنے وزیر اعلیٰ یوگی سے کرنا چاہیے جن کو عدالت نے
مظاہرین کے پوسٹر چھاپنے اور ان سے وصول شدہ جرمانہ لوٹانے کا حکم دیا تھا
۔ عدلیہ نے یوگی کے ذریعہ کفیل خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے
ہوانہیں باعزت بری کردیا تھا۔ اگنی پتھ اسکیم کے خلاف تشدد کو قابو میں
رکھنے کی ذمہ داری شاہ ریاستی حکومت پر ڈالتےہیں لیکن گجرات کی حکومت سے
سرزد ہونے والی مجرمانہ کوتاہی کو قبول نہیں کرتے ۔ یہ دوہرا معیار ہے؟
ابھی حال میں پریاگ راج اور دیگر شہروں کے اندر بلڈوزر چلانے کے معاملے میں
اترپردیش سرکار بغلیں جھانک رہی ہے۔ میڈیا کے اندر تو بڑے طمطراق سے اس
کارروائی کو تشدد سے جوڑا جاتا ہے مگر عدالت کے اندر اس کو غیر قانونی
تعمیرات و تجاوزات قرار دے کر اپنا بچاو کیا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک منافقت ہے
کہ جو دعویٰ میڈیا میں کیا جاتا ہے اس پریہ لوگ عدالت کے اندر قائم رہتے ۔
عدلیہ میں جب شاہ جی کی پارٹی کےلوگوں کو پھٹکار ملتی ہے تو کوئی بھی معافی
کا مطالبہ نہیں کرتا لیکن کوئی فیصلہ جب ان کے اپنے حق میں آجاتاہے تو
مخالفین سے یہ نامعقول مطالبہ کیا جاتا ہے۔ امیت شاہ کے انٹرویو تو معاملہ
معافی کی حدتک تھا لیکن اب تو پولیس نے گرفتاری شروع کردی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ڈالیں تو یہ بات دکھائی دیتی ہے کہ اس میں کسی
بڑی سازش کے بارے میں کسی ثبوت کی موجودگی سے انکار کیا گیا ہے۔ پہلی بات
تو ثبوت مٹا دینے جرم غائب نہیں ہوجاتا۔ گجرات کا فساد ایک حقیقت ہے ۔ مودی
کے دامن سے اس داغ کو کسی عدالت کا کوئی فیصلہ دھو نہیں سکتا۔ اس فساد میں
جن لوگوں نے اپنی جان گنوائی کیا مودی سرکار ان کو انصاف دلا سکی ؟ بار بار
دہلی کے سکھ کش فسادات کا حوالہ دینے والے امیت شاہ کو ان سوالات کا جواب
دینا چاہیے کہ جن لوگوں نے غصہ میں آکراتنا بڑا قتل عام کردیا انہیں کیفرِ
کردار تک پہنچانے کی ذمہ داری کس کی تھی؟ کیا سرکار نے اسے ادا کیا؟ اور
کتنے مجرمین کواس کی سزا ملی؟ کیامودی سرکار نے اس تشدد میں ملوث لوگوں کو
بچانے کی دانستہ کوشش نہیں کی؟ سارے ملزم چھوٹ گئے جبکہ شرجیل امام کو محض
ایک تقریر کے سبب باغی قرار دے برسوں تک کے لیے جیل میں ٹھونس دیا گیا ؟
موجودہ سرکار نے دہلی فساد کے بعد این آر سی کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر
بڑی سازش رچنے کا الزام لگادیا۔ ان میں کچھ لوگ ضمانت پر چھوٹ گئے۔ عمر
خالد کے معاملے میں بھی عدالت نے سازش کا انکار کردیا ۔ بھیما کورے گاوں
معاملے 2018؍ سے کئی نامور دانشوروں اور سماجی کارکنان کو سازش کا الزام
لگا کر پابندِ سلاسل کردیا گیاحالانکہ رونی ولسن وغیرہ کو غلط طریقہ سے
پھنسائے جانے کے شواہد بھی عدالت میں پیش کیے جاچکے ہیں توکیا جب یہ لوگ
رہا ہوکر آجائیں گے تو حکومت یا سرکاری افسران معافی مانگیں گے ۔ اس طرح
کے حکومتی رویہ سے دنیا بھر میں ملک کی ساکھ خراب ہورہی ہے۔ اس تازہ مثال
امریکی کانگریس کی معروف خاتون رکن الہان عمر کے ذریعہ ایوان نمائندگان میں
ہندوستان سے متعلق پیش ہونے والی ایک نئی قرارداد ہے۔ اس میں ہندوستان کے
اندر انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں پر شدید الفاظ میں مذمت
کی گئی ہے۔
یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے ایک حلیف ملک امریکہ میں وزیر خارجہ انٹونی
بلنکن سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے حوالے سے ہندوستان کو،
"خاص تشویش کا حامل ملک" قرار دے کر سرکاری سطح پر اہم اقدام کریں ۔ موجودہ
حکومت نے ملک میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو چھپانے کی خاطر ایمنسٹی جیسے
بین الاقوامی ادارے کو بند کروا دیا۔ اس تنظیم کا مقصد ناانصافیوں کے خلاف
آواز بلند کرنا ہے جو حکومت ہند پسند نہیں تھا اس لیے اس کا گلا گھونٹ دیا
گیا ۔ باہر والوں کی آواز کو دبانا تو بہت آسان ہے لیکن خود اپنے ملک میں
کام کرنے والوں کو خوفزدہ کرنا قدرے مشکل کام ہے۔ تیستا ستیلواد جیسے لوگوں
کو گرفتار کرکےاندرون ملک عدل و انصاف کی خاطر لڑنے والوں کے حوصلوں کو پست
کرنے کی مذموم حرکت کی جارہی ہے جس کی پرزورمذمت ہونی چاہیے۔ ورنہ وطن عزیز
سے انسانی حقوق کا جنازہ اٹھ جائے گا۔
|