جون اور جنون

ماہ جون کو موسم گرما کی شدت سے منفرد شناخت اور شہرت ملی ،" جون"کامہینہ اورپسینہ ایک ساتھ آتا ہے۔جون سال میں ایک بار لیکن سوشل میڈیا کی دنیا میں جو مخصوص شتر بے مہار چھچھورے دندناتے پھررہے ہیں ان کے رویوں میں "جنون" بار بار آتا ہے ،آپ جنون کوجہالت کانام بھی دے سکتے ہیں ۔ انتہاپسندانسا ن کاجنون دوسرے انسان کے خون سے اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ "جون "کی گرمی میں کئی طرح کے فائدے بھی ہیں تاہم" جنون" نے آج تک انسانیت اور معاشرت کو وحشت اورکشت وخون کے سوا کچھ نہیں دیا۔ جنون سے نجات کیلئے معاشرے میں تعمیری فنون کوفروغ دیاجائے، تاہم"ٹک ٹاک" کی نجاست اورنحوست سے حیاء کابندٹوٹ گیا جبکہ بے حیائی کاعذاب کسی سیلاب کی طرح امڈآیا ہے،اسلامی معاشروں میں اس قسم کی ابلیسی ایپس کی مستقل بندش ناگزیر ہے۔اخبارات سے درخواست ہے وہ اخلاقیات سے نابلد گمراہ عناصر کوٹک ٹاک سٹار نہ لکھیں۔" دُعا"زہرہ کاواقعہ یقیناکسی "بددعا" کاشاخسانہ ہے،اسلام نکاح کیلئے بیٹیوں کی پسندناپسند پوچھنے کاحامی ہے لیکن ماں باپ کیخلاف بغاوت کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا، بچوں کومادرپدرآزادی ان کی بربادی کانکتہ آغاز بن جاتی ہے۔ جوماں باپ کو"دکھی" کرتے ہیں وہ خود بھی" سکھی "نہیں رہ سکتے۔جودین فطرت بیٹیوں کی پسندکواہمیت دیتا ہے کیا وہ ماں باپ کی مرضی کاحامی نہیں ہوگا ۔ یادرکھیں جہاں پیسہ پیشہ بن جائے وہاں سے اخلاقیات کاجنازہ اٹھ جاتا ہے،سوشل میڈیا نے ہماری شاندار سوشل روایات کی عمارت کوزمین بوس کردیا ہے ۔ ہمارا معاشر ہ اسلامی تعلیمات ، مشرقی روایات سے انحراف اورعدم برداشت کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ہمیں انفرادی اوراجتماعی سطح پرتعصب اورتشدد پرقابوپانا ہوگا،منافرت کے سومنات پاش پاش کرناہوں گے۔بدگمان اوربدزبان لوگ معاشرے کاناسورہوتے ہیں ،معاشروں کیلئے خوش گمان اورخوش الحان افراد کادم غنیمت ہوتا ہے ۔ معاشرے میں مایوسی اورافواہیں پھیلانا مجرمانہ فعل ہے ،جوعناصرایساکرتے ہیں ان کامحاسبہ کیاجائے۔ابوجہل کی باقیات سے درخواست ہے وہ مستقبل جو خود ان میں سے کسی نے نہیں دیکھا اسے بنیادبناتے ہوئے پاکستانیوں کے اذہان میں اوہام ،ابہام ، وساوس اوراماوس کاڈر پیدانہ کریں ۔صمیم قلب سے دعا ہے اﷲ ربّ العزت گمراہ عناصر کے مذموم ارادو ں سے ہماری ریاست اورپاک فوج سمیت ریاستی اداروں کواپنی پناہ میں رکھیں۔

ہمارے ہاں پندرہ سترہ سال کے ناتجربہ کار بھی سوشل میڈیا پرتجزیہ کاربنے بیٹھے ہیں اوران شریرنوجوانوں کے شر سے کوئی محفوظ نہیں۔پرجوش نوجوان اپنے کپتان سے ضرور محبت کریں لیکن انہیں کپتان کیلئے پاکستان یعنی اقتدار کی سیاست کیلئے بیش قیمت اقداراور ریاست کوداؤپرلگانے کاکوئی حق نہیں پہنچتا ،ا س طرح پی ٹی آئی کے جنون اورمسلم لیگ (ن) میں کیا فرق رہ جائے گا۔ماضی میں عدالت سے میاں نوازشریف کی تاحیات نااہلی کے بعدپاک فوج نے(ن) لیگ کے جنون کاسامنا کیا اوراب کپتان کیخلاف اندرونی وبیرونی سازش کے نتیجہ میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ریاستی اداروں سے ا ظہاربیزاری بھی ریاست کیخلاف سازش شمار کی جائے گی۔کپتان کے وزیراعظم منتخب ہونے میں ان کی تیسری اہلیہ کاکوئی ہاتھ نہیں تھا لیکن ان کی سبکدوشی میں بشریٰ بی بی سمیت عثمان بزدارکے کلیدی کردارسے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ کپتان کواقتدار سے ہٹانے میں یقینا امریکا اوراس کے مقامی سہولت کاروں نے ایک منظم سازش رچائی اور اپنے مہروں کی مدد سے بساط بچھائی لیکن آغاز سے انجام تک کپتان بھی قدم قدم پر غلطیاں کرتے رہے ۔ راقم نے کئی بار کپتان کومخاطب کرتے ہوئے لکھا،"بزدار کوبچاتے بچاتے کپتا ن اپنااقتدار داؤپرلگابیٹھے گا"۔اگر حکمران اندر سے کمزور نہ ہوتوطاقتور سے طاقتور دشمن کی بیرونی سازش بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی۔امریکا اوراس کے سہولت کاروں نے کپتان کی اندرونی کمزوریوں اورغلطیوں کافائدہ اٹھایا،تخت لاہورپر"بزدار" کی بجائے کوئی" بردبار" براجمان ہوتاتوکپتا ن کوہٹانااس قدر آسان نہیں تھا۔ افسوس اقتدار سے بیدخلی کے باوجود کپتان نے اپنی اندرونی کمزوریوں،غلطیوں اورسیاسی ناکامیو ں کاجائزہ نہیں لیا ،اس وقت بھی بیسیوں بزدار پی ٹی آئی کاہراول دستہ ہیں۔،اگرکپتان نے ممتازقانون دان حامدخان کومنالیا ہے توان کی صلاحیتوں سے استفادہ بھی کریں۔کپتان نیوٹرل کی گردان اوران کے حامی افواج پاکستان کی جان چھوڑدیں۔وزارت عظمیٰ سے محرومی کے بعد کپتان کوایوان چھوڑنے کامشورہ کس نے دیا ، پی ٹی آئی کے منتخب ممبران سینیٹ سمیت صوبائی اسمبلیوں میں تو براجما ن ہیں توپھر انہیں قومی اسمبلی میں آنے اورطاقتور اپوزیشن کاکرداراداکرنے میں کیا پرابلم ہے ۔ایک طرف کپتان نے پنجاب میں ضمنی الیکشن کیلئے اپنے امیدوارمیدان میں اتارے ہیں تودوسری طرف انہوں نے پارلیمنٹ میں متحدہ حکومت کیلئے میدان خالی چھوڑدیا ہے،ان کے اس دوہرے معیار سے پی ٹی آئی ورکرز بدگمان اورپریشان ہورہے ہیں۔اگرکپتان اپنے ٹیم ممبرز کے ساتھ ایوان میں جمہوری سیاسی انداز سے مزاحمت کر تا توشایدوہاں سے نیب کاجنازہ نہ اٹھتا اورکئی ملین اوورسیزپاکستانیوں کوووٹ کے بنیادی حق سے محروم نہ کیاجاتا۔بہتر ہوگاکپتا ن نیوٹرل سے گلے شکوے کرنے کی بجائے اپنی توپوں کارخ قومی چوروں کی طرف موڑیں اورعوامی عدالت میں ان کا بھرپورمحاسبہ کریں۔ریاست کی سا لمیت کو خطرات سے بچانے کیلئے کپتان خود بھی ریاستی اداروں پربیجا تنقید کاسلسلہ بندکردیں اوراس کے ساتھ ساتھ انہیں ا پنے کارکنان کوبھی دوٹوک انداز سے روکنا ہوگا۔کپتان کوبزدار والے بدترین تجربے سے سیکھتے ہوئے اب عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس (ریٹائرڈ)میاں ثاقب نثار،حامدخان اورمیاں اسلم اقبال سمیت اپنی جماعت کے بردبار افراد سے مشاورت کرناہوگی۔

یادرکھیں فیلڈ مارشل جنرل (ر)ایوب خان آسودہ خاک ہوگیا لیکن پاک فوج کے جرنیل اورجوان دفاع وطن کیلئے جام شہادت نوش کرتے رہے ۔جنرل (ر)آغا محمدیحییٰ خان کی تنازعات اورتضادات سے بھرپور کہانی میں جنرل رانی کانام بھی آیا لیکن اس کی آمریت کاسورج بھی ڈوب گیا تاہم ہمارے جانباز مادروطن کی سا لمیت کیلئے جانیں قربان کرتے رہے ۔ضیائی آمریت اورپرویزی آمریت کاسیاہ دوربھی قصہ پارینہ بن گیا لیکن افواج پاکستان نے پاکستان کے ساتھ اپنی قابل رشک کمٹمنٹ پرآنچ نہیں آنے دی ۔یادرکھیں پاک فوج ایک ڈسپلن ادارہ ہے اوراگرڈسپلن کواِس پروفیشنل ادارے کاحسن قراردیاجائے توبیجا نہ ہوگا۔پاک فوج ایک بہتا ہوا دریا ہے ، اس کے سپہ سالارآتے اورچلے جاتے ہیں لیکن اس دریا کی "روانی "اوردشمن کیخلاف اس کی" طغیانی "میں کوئی فرق نہیں آتا۔ پاک فوج کے کسی سپہ سالار کاکوئی فیصلہ یااقدام آپ کوناپسندہوسکتا ہے لیکن اس بنیاد پرکسی نادان کو پاک فوج کیخلاف اپنی ناپاک سوچ کے اظہار کاحق نہیں پہنچتا ۔ماضی میں ہمارے ہاں سب سے زیادہ پولیس کو تنقید بلکہ توہین کا نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن اب مخصوص گمراہ عناصرسوشل میڈیا پرجعلی "آئی ڈیز "بناکر پاک فوج پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں، بدقسمتی سے ابوجہل کے ان پیروکاروں نے تنقید اور توہین میں فرق مٹا دیا ہے۔یادرکھیں پاک فوج پاکستان کا قابل قدراورقابل فخرادارہ ہے ،جس کی وفاداریاں اورتوانائیاں ریاست کیلئے وقف ہیں ۔ پاکستان اورپاکستانیوں کادفاع کرتے ہوئے شجاعت اورشہادت کی بنیاد پرنشان حیدرکے مستحق قرارپانیوالے کیپٹن راجامحمدسرور شہید ،نائک سیف علی جنجوعہ شہید ،میجر طفیل محمدشہید، میجرراجا عزیز بھٹی شہید ، پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید ، میجر محمداکرم شہید،میجر شبیر شریف شہید،محمدحسین جنجوعہ شہید ،لانس نائک محمدمحفوظ شہید ،کیپٹن کرنل شیرخان شہیداور لالک جان شہید کی قربانیاں ہم پرقرض اورافواج پاکستان کی تکریم وتعظیم ہمارا فرض ہے۔یادرکھیں پاکستان کے ایٹمی طاقت کویقینی بیرونی خطرات سے بچانا اوراسے پایہ تکمیل تک پہنچانا افواج پاکستان کاکریڈٹ ہے ۔افواج پاکستان پرتنقیدکرنیوالے روزمحشر معبود برحق ،بانیان پاکستان اورافواج پاکستان کے شہیدوں کاکس طرح سامناکریں گے۔

جس طرح صفائی ستھرائی پرمامور ورکرز کو" کوڑے والا" کہنا جائز نہیں اس طرح مادر وطن کے محافظوں کو چوکیدار کہنا انتہائی نامناسب ہے۔ ہمارے گھروں میں ہماری ماؤں کا بظاہر کردار ملازماؤں کا ہے لیکن ماں کو ماں ہی کہا جاتا ہے ، ہم میں سے کوئی انہیں کام والی ، کپڑے دھونے والی ، صفائی کرنیوالی اور کھانا بنانیوالی نہیں کہتا بلکہ فطری طور پرسبھی ماں کہتے اور اپنی اپنی ماں پر جان چھڑکتے ہیں۔ شب و روز انتھک محنت کے باوجود "ماؤں" کو ان کی انمول "وفاؤں" کے بدلے کوئی تنخواہ نہیں ملتی بلکہ وفاؤں کا جواب وفاؤں سے دیا جاتا ہے۔ یادرکھیں مادروطن کے سرفروش اورفرض شناس محافظ ہمارے محسن ہیں ،دشمن کا تعاقب کرتے ہوئے میدانوں میں ان کا دوڑنا بھاگنا اور سردراتوں کو جاگنا ہماری نیند کو پرسکون بنانے کیلئے ہے، ہمارے اور محافظوں کے درمیان تنخواہ نہیں وفا کا رشتہ ہے جس کو کمزور کرنا ہمارے اور ہماری محبوب ریاست کی سا لمیت کے حق میں نہیں۔جس طرح کسی مسلمان کے ناپسندیدہ فعل کاملبہ اسلام پرنہیں گرایاجاسکتا ، جس طرح چندپاکستانیوں کی مجرمانہ سرگرمیوں کی پاداش میں پاکستان کوکٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاسکتا اس طرح کسی جرنیل کے اقدام کومتنازعہ قرارد ینے والے پاک فوج کواپنے انتقام کانشانہ نہیں بنا سکتے۔14اگست 1947ء سے آج تک افواج پاکستان کاکوئی قدم پاکستان کیخلاف اٹھا ہے اور نہ آئندہ اٹھے گا ۔یادرکھیں پاک فوج کاحاسد،ناقد یادشمن پاکستان کے ساتھ دوستی کاداعی نہیں ہوسکتا۔
 
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90539 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.