احتجاج کا نام سنتے ہی بی جے پی سرکار کی نانی مر جاتی ہے
اور اگر یہ اعلان مسلمانوں کی جانب سے ہو تو اس کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔
پچھلے دنوں ویلفیئر پارٹی نے آفرین فاطمہ کی والدہ پروین فاطمہ کے گھر پر
غیر قانونی طور سے بلڈوزر چلانے اور ان کے والد جاوید محمد کی بلاجواز
گرفتاری کے خلاف دہلی میں جنتر منتر پر احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا۔ یہ ان
کا حق ہے اور جنتر منتر احتجاج کے لیے مختص ہے۔ وہاں دنیا بھر کے مظاہرے
ہوتے رہتے ہیں لیکن ڈبلیو پی آئی کے اعلان نے امیت شاہ کے تحت کام کرنے
والی دہلی پولیس کو بے چین کردیا ۔ اس نے جنتر منتر پر دفع 144نافذ کرکے اس
کی اجازت منسوخ کردی حالانکہ یہ سراسر زیادتی تھی۔ یہ معاملہ یہیں پر نہیں
رکا بلکہ دہلی کی پولیس نے شاہین باغ کے علاقہ میں ویلفیئر پارٹی کے
کارکنان کی پکڑ دھکڑ شروع کردی ۔ ان کی بس میں سوار دہلی کے اندر سیر و
سیاحت کو جانے والے لوگوں کو اپنے ساتھ کالکا جی پولیس اسٹیشن میں لے گئے۔
ویلفیئر پارٹی کے صدر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کو پہلے تو شاہین باغ پولیس
تھانے میں ایس ایچ او سے ملنے کے بہانے اپنے ساتھ لے گئے اور اس کے بعد
وہاں حراست میں لے کر کالکا جی پہنچا دیا گیا ۔ آگے چل کر جب کوئی بہانہ
نہیں ملا تو روسوا ہوکر چھوڑ دیا۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس ہنگامہ کی ضرورت کیا تھی؟ جنتر منتر پر اگر ہر کسی
کو احتجاج کرنے کا حق ہے تو ویلفیئر پارٹی کو کیوں نہیں ہے۔ یہ لوگ آخر
مسلمانوں کے احتجاج سے اس قدر خوفزدہ کیوں ہیں ؟ حالانکہ بھارتیہ جنتا
پارٹی اور کانگریس کے موجودہ نسل میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اول الذکر کو
اقتدار وراثت میں نہیں ملا۔ ان لوگوں نے چونکہ آزادی کی جنگ میں حصہ نہیں
لیاتھا اس لیے وہ احسان جتا کر بھی ووٹ نہیں مانگ سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ
انہیں اقتدار میں آنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے اور مختلف تحریکیں چلا کر
اپنا حلقۂ اثر بڑھاناپڑا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کشمکش کرکے حکومت
بنانے والوں کے سامنے جیسے ہی کوئی تحریک اٹھتی ہے ان کے ہاتھ پیر پھولنے
لگتے ہیں ۔ اگنی پتھ پر اگنی ویروں نے جب اپنا زور دکھانا شروع کیا توان کے
سامنے بھی حکومت بے بس ہوگئی۔
اگنی پتھ کی مخالفت میں سب سے زیادہ ہنگامہ این ڈی اے کی حکومت والے صوبہ
بہار میں ہوا ۔ وہاں مذکورہ اسکیم کے خلاف چوتھے دن طلبہ تنظیموں نے بہار
بند کی کال دےدی ۔ اس بند کوسب سے بڑی حزب اختلاف آر جے ڈی اور بائیں بازو
کی جماعتوں کی حمای حاصل تھی ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ این ڈی اے میں شامل ہند
عوام مورچہ اور وکاسیل انسان پارٹی بھی بند کی حمایت کے لیے مجبور ہوگئے
تھے ۔ ریاستی بند کی کال دینے والوں میں روزگار سنگھرش متحدہ محاذ اور فوج
میں بھرتی جوان مورچہ پیش پیش تھے ۔ ان تنظیموں نے مرکزی حکومت کو اگنی پتھ
اسکیم واپس لینے کے لیے 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا بصورتِ دیگر بھارت بند
کی دھمکی دی۔ اس نام نہاد پرامن بند کے دوران بہار میں مظاہرین نے 14
ٹرینوں کو نذر آتش کر دیا۔ اس کے سبب ریاستی حکومت نے اگلے 48 گھنٹوں کے
لیے 12 اضلاع میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند کر دی ہے۔
این ڈی اے والے جو کچھ کشمیر میں کرتے تھےوہی سب بہار میں کرنا پڑا ۔ ایسے
سبرامنیم سوامی کا فقرہ یاد آتا ہے کہ وہ توقع کررہے تھے کشمیر میں
ہندوستان جیسا پر امن ماحول ہوجائے گا مگر شاہ جی کی مہربانی سے پورا ملک
میں کشمیر جیسی بد امنی پھیل رہی ہے۔ حالیہ تشدد میں جہاں بہار کے اندر ایک
مسافر کی دم گھٹنے سے موت ہوگئی وہیں جنوب کی ریاست تلنگانہ کے سکندرآباد
میں پولیس فائرنگ میں ایک شخص ہلاک ہوگیا۔ اس کے علاوہ ہریانہ کے اندر فوج
کی مشق کرنے والے ایک نوجوان کے خودکشی کی خبر بھی میڈیا آچکی ہے۔ مشتعل
نوجوانوں نے احتجاج ٹرینوں کو آگ لگانے کے علاوہ نجی، سرکاری گاڑیوں اور
ریلوے اسٹیشنوں میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے ہائی ویزو ریلوے لائنیں بلاک کر
دیں۔یہ احتجاج ابھی تک ملک کی 13 ریاستوں تک پھیل ہی چکا ہے ایسے میں اگر
بھارت بند کا اعلان ہوجائے تو وہ یقیناً کامیاب ہوگا۔ اس نے ملک بھر کے
محبان وطن کے دلوں کاتار چھیڑ دیا ہے۔ اگنی پتھ نے وزیر اعظم کی ایک نوجوان
مخالف شبیہ بناکر ان کے والدین کو بھی سرکار کا دشمن بنا دیا ہے۔
ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب لال کرشن اڈوانی مارگ درشک منڈل میں بیٹھ کر
حسرت بھری نگاہوں سے راہ نہیں تکتے تھے ۔ وہ رام رتھ یاترا میں بیٹھ کر ملک
بھر میں آگ لگاتے پھرتے تھے۔رام مندر تحریک کے وقت یہ نعرہ لگتا تھا ’ جس
ہندو کا خون نہ کھولے ، خون نہیں وہ پانی ہے۔ جنم بھومی کے کام نہ آئے وہ
بیکار جوانی ہے‘۔ اس ملک گیر پر تشدد احتجاج کا اختتام 6؍ دسمبر 1992؍کو
ایودھیا میں ہوا۔ عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کے باوجود اس کے نتیجے میں
بابری مسجد شہید کردی گئی ۔ اس جرم کی سنگینی کو ہر عدالت نے تسلیم کیا اور
سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کو اس کے ارتکاب میں ناکامی کے سبب سزا بھی
سنائی گئی ۔ بابری مسجد کی شہادت کو نہ صرف ملک کے انصاف پسند لوگوں نے
بلکہ عدلیہ اور اس وقت کے میڈیا نے بھی ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار
دیا لیکن سنگھ پریوار نے اس ظلم عظیم کو عوامی غصہ کے اظہار کانام دے کر
جائز ٹھہرا یا اور اپنا دامن چھڑالیا ۔ یہ تفصیل اس لیے بیان کی گئی کہ ایک
ناجائز کام کے لیے اگر رام بھکتوں کو غصہ آسکتا ہے تو اہانت رسولﷺ پر
مسلمانوں کو بھی کا خون کھول سکتا ہے۔
اڈوانی کی رام رتھ یاترا کو لالو پرشاد یادو نے روکا ضرور مگر کچلا نہیں اس
لیے کہ احتجاج کرنا عوام کا حق ہے۔ اس وقت کے حکمرانوں نے اسے اس لیے بزور
قوت نہیں کچلا بلکہ برداشت کرلیا کیونکہ انہیں اپنے اقتدار سے زیادہ عوام
کے حقوق کی پروا تھی ۔ زمانہ بدل گیا کل کے احتجاج کرنے والوں کے ہاتھوں
میں اب سرکار کی باگ ڈور آگئی۔ ان کا مقصدِ حیات ہر حال میں اقتدار سے
چپکے رہنا ہے اس لیے وہ احتجاج سے بہت زیادہ ت خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ ان کو
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر مظاہرے ہونے لگے تو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے گا
اس لیے جب جے این یو کے طلباء صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو انہیں ٹکڑے
ٹکڑے گینگ کہہ کر بد نام کیا جاتا ہے ۔ کنہیا کمار کو ساتھیوں سمیت عدالت
کے احاطہ میں سنگھ کے غنڈوں سے زدو کوب کروایا جاتا ہے ۔ اس سے بھی بات
نہیں بنتی تو ہاسٹل میں گھس کر مارپیٹ کی جاتی ہے۔ یہ سب سرکاری تحفظ میں
ہوتا ہے تاکہ مخالفین کی آواز کو کچلا جاسکے۔ مہاراشٹر میں بھیما کورے
گاوں کے بہانے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ملک کی نامور شخصیات کو
پابندِ سلاسل کردیا جاتا ہے۔
سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جامعہ سے تحریک اٹھتی ہے تو طلبا کے خلاف
حیوانیت کا ننگا ناچ کیا جاتا ہے اوراس ظلم کا ارتکاب کرنےوالی پولیس کے
خلاف اقدام کرنے کے بجائے طلبا پرسنگین مقدمات درج کرلیے جاتے ہیں ۔ دہلی
میں کپل مشرا جیسے لوگوں کی مدد سے فساد برپا کیا جاتا ہے۔ آگے چل فسادیوں
کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے بجائے انہیں بچا لیا جاتا ہے مگر اس کے بہانے
سے سی اے اے تحریک کے اہم رہنماوں کو فسادی قرار دے کر جیل بھیج دیا جاتا
ہے تاکہ کوئی حکومت کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت نہ کر سکے ۔ ملک بھر میں
رام مندر کی تحریک چلا کر اقتدار میں آنے والوں کو یہ خوف ستاتا رہتا ہی
کہ کہیں ان کے اپنے حربے سے مخالفین ان کو ٹھکانے نہ لگا دیں ۔ اس لیے
حکومت کی مخالفت کو ملک دشمنی قرار دے کر بدنام کیا جاتا ہے لیکن یہ تماشہ
بہت دنوں تک چلنے والا نہیں ہے۔ اب ان کے دن لد چکے ہیں۔ اب عوام کے دل سے
ان کا خوف نکل گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں تیستا سیتلواد کی گرفتاری
پر زبردست مظاہرے ہوئے اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہی ۔ وہ انہیں روک
نہیں سکی ۔ اس سے قبل نوپور معاملہ میں یہ لوگ مظاہرین کے ساتھ بیٹھ کر بات
چیت نہیں کرسکے ۔ کسانوں کی ا ور سی اے اے کی تحریک چلی تو اس وقت بھی یہ
لوگ ان کا پروقار اندا ز میں مقابلہ نہیں کرسکے ۔ ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ
پہلے بدنام کرو پھر طاقت کا استعمال کرو اس کے بعد یاتو خاموش ہوجاو یا
توبہ کرلو۔ مودی سرکار کی اس کمزوری کا اعتراف ملک کے عوام جلد یا بہ دیر
کریں گے اور وہی ان اس سرکار کا اختتامیہ ہوگا۔
|