شہبازشریف صاحب ہر آدمی ایک نفسیاتی مریض بن کر رہ گیا ہے
ایک چلتی پھرتی لاش جس کا صرف ایک ہی مقصد ہے ۔مزید ترقی، مزید پیسہ ،
کاروبار میں اضافہ، بڑے مکان، بڑی گاڑیاں ۔ اس کے برعکس ایک طبقہ جو
مہنگائی کی چکی میں پس کر فاقوں اور خودکشیوں پر مجبور ہے۔ کیا یہ ہمارا
مقصد ِزندگی ہے؟ کیا ہمیں اس لیے دنیا میں بھیجا گیا ہے؟ کیا اس لیے آپ کو
مینڈیڈیٹ ملا ؟ کیا اس شہباز کی پرواز کے قصے کہانیاں عوام کے دلوں دماغ
میں نقش تھے؟اب ڈپریشن، ٹینشن اور اینگزائٹی میں بلا مبالغہ ہر شخص گرفتار
ہو چکا ہے۔ لوگ نیند کی گولیاں پھانک کر زندگی گزار رہے ہیں۔ کثیر تعداد
نفسیاتی امراض کا شکار ہو کر ذہنی امراض کے معالجین کے سامنے کھڑی اپنی
زندگی کی بھیک مانگتی دکھائی دیتی ہے وطن عزیز کے حالات دیکھ کر ہر ذی
شعورانسان حیران ہیں جوتوقعات ، جو خواب آپ سے وابستہ تھے ان پر پانی پھر
گیا ہے۔مہنگائی اور بے روزگار کو کم کرنے کے لیے ابھی تک کوئی باقائد ہ
حکمت عملی و لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔سمجھ نہیں آتا اہل وطن اس کیفیت سے
دوچار ہیں یا سرشار۔
وزراء ٹی۔وی چیلنز پر آکر مسخروں کے انداز میں گفتگو فرما کر عوام کے زخموں
پر نمک چھڑک کر ان کی نمک پاشی کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں وزیر خزانہ
مفتاح اسمعیل کے غیر سنجیدہ بیان نے عوام کے دلوں میں مایوسی کو جنم دیاجب
انہوں نے کہا کہ سٹیل مل ایک روپیہ میں لو اور پی۔آئی۔ اے ساتھ میں فری لے
لو۔ وطن عزیز کی عوام حیران ہے کہ یہ لوگ ہیں جو وطن عزیز کے اداروں کو Buy
one get oneکے زریعے بولیاں لگا کر ملک کو زمین بوس کر رہے ہیں۔اہل وطن اس
بندر بانٹ پر معاف نہیں کریں گے۔سابقہ حکومت کے دور اقتدار میں آپ خود
فرماتے تھے کہ آپ متوسط طبقہ کے وزیراعظم بن کر ان کی امنگوں اور آرزووں کو
پایہ تکمیل تک پہنچائے گے۔اشیاء خوردو نوش گھی، چینی،آٹا ،دالیں ، دودھ،
ادویات میں نمایاں کمی کر کے وطن عزیز کو مثالی ریاست بنائے گے۔ مگر سد
افسوس وطن عزیز کی عوام یا تو پیٹرول پمپس پر پیٹرول ڈلواتے ہوئے آپکو
دعائیں دے رہے ہوتے ہیں یا یوٹیلٹی سٹورز پر عملہ کے ہاتھوں اپنی درگت بنوا
رہے ہوتے ہیں۔یہ قوم اپنی زندگیوں میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حوالے سے
نفسیاتی امراض کا شکاربنتے جا رہے ہیں۔ ہم بحثیت ایک معاشرہ پاگل پن کے
انتہائی حد تک پہنچ چکے ہیں جہاں اب حلال حرام، سچ جھوٹ کی تمیز سرے سے
ناپید ہو چکی ہے۔ آج ہر امیر حیران ہے اور سارے غریب پریشان۔
برآمدات کو بڑھانے اور درآمدات کو کم کرنے کے لیے قابل ِ عمل پالیسیاں
بنائی جائیں وہ اشیاء جو ملک میں ہوتی ہیں ان کی درآمد ر پابندیاں لگائی
جائیں تاکہ ملکی صنعت کو تحفظ حاصل ہو۔ وطن عزیز کو سالانہ پیٹرولیم
مصنوعات پر سالانہ 17ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے گاڑیوں کے استعمال
میں کمی لائے جائے تو حکومت کو سالانہ 300ارب ڈالر تک یعنی گاڑی استعمال
کرنے والا ہرشخص تقریبا 60ہزا روپے کا فائدہ پہنچا سکتا ہے جس سے
ہماراایمپورٹ بل کم ہو گا اور پاکستان کو ادائیگی کے درپیش مشکلات میں واقع
کمی ہو گی ۔ مہنگے موبائل ایک خود ساختہ سٹیٹس بن چکا ہے۔گزشتہ برس تقریبا
2 کھرب 17ارب سے زائد کے موبائل فون درآمد کیے گئے ۔ اگر عوام مہنگے فونز
کی خریداری کا سلسلہ ترک کر دے تو بھاری بلز کی ادائیگی سے بچا جا سکتا ہے۔
پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں بے انتہاء اضافے سے جہاں روزمرہ خوردونوش کی
اشیاء میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تو دوسری طرف مہنگی گاڑیاں منگوانا بھی کوئی
دانش مندی نہیں ہے۔ گزشتہ سال ڈھائی ارب ڈالر سے زائد کی گاڑیاں درآمد کی
گئی ہیں ۔ اگر عوام بحران کے اس شدید دور میں غیر ضروری گاڑیاں بند کر دیں
تو ملک پر معاشی دباو کم ہو سکتا ہے۔
حالیہ دنوں احسن اقبال کے بیان کو سوشل میڈیا پر خوب تنقید کا نشانہ بنایا
گیاکہ دو پیالیاں پینے والا معاشی بحران کو دیکھتے ہوئے ایک پیالی کر دے۔
کیونکہ جو چائے ہم درآمد کر رہے ہیں۔ مالی سال 2021-22میں سرکاری بجٹ
دستاویزات کے مطابق 84ارب روپے سے زائد کی چائے استعمال ہوئی ہے۔امریکہ
سمیت دنیا پھر کے ممالک اپنی پالیسوں پر نظر ثانی کر رہے ہیں اور کسی طرح
اس بحران سے عہدہ برآمد ہونے کے لیے نئی پالیسیاں ترتیب دے رہے ہیں۔ غیر
ملکی مصنوعات پر انحصار کم سے کم کیا جا رہا ہے۔ وطن عزیز کی عوام کا بھی
فرض ہے مشکل فیصلوں میں حکومت کا ساتھ دیں اور ایسی مصنوعات کا استعمال کم
سے کم کرے جو بیرون ملک سے درآمد ہوتی ہیں۔اس سے نہ صرف زرمبادلہ بچے گا
بلکہ کرنسی بھی مضبوط ہو گی۔
بیالیس ممالک فتح کرنے والا امیر تیمور جو دنیا کے نادر لوگوں میں شامل ہے
جو ایک وقت میں اپنے دونوں ہاتھوں سے کام لے سکتا تھا وہ اپنے ایک ہاتھ سے
تلوار اور دوسرے ہاتھ سے کلہاڑا چلانے کا فن رکھتا تھااور دشمنوں کو ناکوں
چنے چبواتا۔تزک تیموری میں کہتا ہے کہ اچھے حکمران کو ہمیشہ مشاورت اور
دوراندیشی سے کام لینا چاہے دوستوں اور دشمنوں دونوں کے ساتھ اچھا سلوک
کرنا چاہیے نرمی، درگزر اور صبر وتحمل کو شعار بنانا چاہیے۔ میں نے عوام کو
عدل و انصاف دیا۔ نہ تو عوام کے ساتھ زیادہ سختی کی کہ وہ مجھ سے ناراض ہو
ں نہ انہیں اتنی آزادی دے کہ وہ بے قابو ہو جائیں۔میں نے ہمیشہ علماء اور
مشائخ کو اپنے قریب رکھا ۔ میں شریر اور بدنفس لوگوں سے دور رہنے کی کوشش
کرتا تھا۔اپنی رعایا کے حالات سے باخبر رہنے کی کوشش کرتا تھا۔تیمور نے
لکھا کہ ایک اچھے حکمران کا قول اس کے فعل کے مطابق ہونا چاہے وہ جو قانون
دوسروں پر نافذ کرے اس کا خود پر بھی احترام کرے۔اچھے حکمران کو مستقل مزاج
ہونا چاہیے وہ اپنے وزیروں کی کہی ہوئی باتوں کو آنکھیں بند کر کے تسلیم نہ
کرے بلکہ ان کی تفتیش کرے۔ اچھے حکمران کو کانوں کا کچا نہیں ہونا
چاہیے۔تزک تیموری میں امیر تیمور کہتا ہے کہ اچھے حکمران کو ایسے وفاراد کا
انتخاب کرنا چاہیے جو امور حکومت نیکی اور حسن سلوک سے چلائیں۔نفاق کی
باتیں نے کریں اور نہ ہی کسی کو برا کہیں نہ کسی کی برائی سنیں۔ہماری سابقہ
حکومتوں کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے اکثر حکمران اہل علم کی بجائے اہل ستم
میں گھرے رہے۔
راقم حکومت وقت کو متعدد بار گزارش عرض کر چکا ہے کہ اس بحران سے نکلنے کے
لیے گریڈ 17سے 22 تک تمام ملازمین سے شاہی مراعات واپس لی جائیں اور تمام
غیر ضروری ممالک کے دوروں پر بھی پابندی عائد کی جائے۔ معاشی ایمرجنسی نافذ
کی جائے نہ کہ مہنگائی کا بوجھ ایسے لوگوں پر ڈالا جائے جن کے ہاتھ روزمحشر
ہمارے گریبان پر ہوں۔پاکستان زندہ باد
|