کیا پاکستان کاایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا باعث فخر بات ہے؟

پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ نے جمعہ 17 جون کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورسFATFکے اعلان کو پاکستان کے لیے ایک "عظیم کامیابی" قرار دیا۔ آرمی چیف نے کہا کہ یہ ایک "یادگار کوشش" تھی جس نے ملک کی "وائٹ لسٹنگ" کی راہ ہموار کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) میں قائم ایک سیل نے سول ملٹری ٹیم کی قومی کوششوں کو آگے بڑھایا جس نے ایکشن پلان پر عمل درآمد میں ہم آہنگی پیدا کی۔

پاکستان کو جون 2018 میں گرے لسٹ میں شامل گیا تھا اور ایف اے ٹی ایف نے اس گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے 34 نکات پر عمل درآمد کا ہدف دیا تھا۔ ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کی فہرست کے کچھ نکات یہ ہیں؛ کالعدم تنظیموں اور کالعدم افراد کے خلاف تحقیقات اور سزاؤں میں بین الاقوامی تعاون کو یقینی بنانا، کالعدم تنظیموں اور ممنوعہ افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی، کالعدم تنظیموں اور ممنوعہ افراد کی عدالت سے سزاؤں کو یقینی بنانے کا عملی مظاہرہ اور اسلامی مدارس کو سکولوں اور مراکز صحت میں تبدیل کرنا۔

یہ نکات واضح طور پر ایف اے ٹی ایف کے ہدف کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان نکات کا ہدف مقبوضہ کشمیر میں جہاد کے لیے جسمانی اور مالی مدد کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی حکمرانی کے حوالے سے بڑھتی ہوئی بیداری کو کچلنا ہے۔ کالعدم تنظیموں اور افراد کی جو فہرستیں پاکستان کو فراہم کی گئیں اُن میں بنیادی طور پر وہ لوگ شامل تھے جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے خلاف جہاد کے حوالے سے متحرک تھے۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کو ان مخصوص تنظیموں اور افراد کے بارے میں اتنی فکر کیوں ہے؟

یہ واضح ہے کہ ایف اے ٹی ایف امریکہ کا ایک استعماری آلہ کار ادارہ ہے جو دوسری اقوام کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ امریکہ کے بین الاقوامی اور علاقائی منصوبوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ ہمارے خطے میں امریکہ کا منصوبہ ہندوستان کو مضبوط کرنا ہے تا کہ وہ چین اور مسلمانوں دونوں کی طاقت اور اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے امریکی منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اسلامی نظام کی بحالی میں رکاوٹ ڈالنا چاہتا ہے۔

پاکستانی قوم کو اچھی طرح یاد ہے کہ حکومت اور اپوزیشن FATF کی ڈکٹیشن پر کس طرح قطار در قطار اُن قوانین کی منظوری کیلئے حاضر ہوتے تھے جس کے ذریعے پاکستان کے معاملات میں FATF کو براہ راست کنٹرول دیا گیا، پاکستان کے اداروں کو مختلف درجوں پر بین الاقوامی اداروں کے سامنے جوابدہ بنایا گیا، جہاد کو دہشت گردی، کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کراس بارڈر ٹیررزم اور افغان وکشمیر جہاد کی مالی مدد کا گلہ گھونٹا گیا۔ اس امریکی ایجنٹ قیادت نے Mutual Legal Assistance (Criminal Matters) Act 2020 منظور کیا جس کے تحت کسی پاکستانی کو دوسرے ملک کے حوالے بھی کیا جا سکتا ہے جبکہ اس کے اثاثہ جات کو منجمد بھی کیا جا سکتا ہے۔ان حکمرانوں نے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں بھی ترمیم کی جس کے تحت استعماری ادارے، اقوام متحدہ کے سیکیوریٹی کونسل کی ہدایات کی خلاف ورزی پر کسی شخص کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح منی لانڈرنگ ایکٹ میں ترامیم کر کے پاکستانی افراد کو دوسرے ممالک کے حوالے کرنے کی راہ ہموار کی گئی۔ اور پاکستانی اداروں کو FATF کے ساتھ تعاون کرنے پر قانونی طور پر پابند کر دیا گیا۔ FATF امریکی غلامی کی دستاویز تھی جس میں حکومت، اپوزیشن دونوں نے فوجی قیادت کی چھتری تلےدستخط کئے۔ یاد رہے کہ FATF کو کرپشن روکنے سے کوئی غرض نہیں، بلکہ یورپ اور امریکہ تو خود کرپشن کا گڑھ ہے، FATF دراصل جہاد کو روکنے اور اس کی مالی معاونت روکنے کا ادارہ ہے۔ یہاں تک کہ سابق امریکی نائب سیکریٹری خارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز نے ایک بیان میں کھل کر کہہ دیا کہ حافظ سعید کو سزا نہ دینا FATF لسٹ سے نہ نکلنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔

لیکن ایف اے ٹی ایف کے ان ناپاک مقاصد کے واضح ہونے کے باوجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حکومت، اپوزیشن اور فوجی قیادت میں یہ کریڈٹ لینے کی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی ڈکٹیشن پر پاکستان کی خودمختاری سرنڈر اور کشمیر کی سودا بازی کس کے ہاتھوں ہوئی ہے ، جس کے نتیجے میںپاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالنے کا عمل شروع ہوا ہے۔ایف اے ٹی ایف کے معاملے نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سمیت عسکری اور سیاسی قیادت دونوں امریکہ کی غلام ہیں، کیونکہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی ذمہ داری کا "تمغہ" اپنے اپنے سینے پر لگایا ۔ یہ واضح ہے کہ جب بات امریکی احکامات کی تعمیل کی ہو توسیاسی اور فوجی قیادت میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ ہم ان کے درمیان جو بھی جھگڑے دیکھتے ہیں وہ صرف اقتدار کی سیاست ہے، جہاں جیتنے والا امریکہ کا کلیدی خادم بن جاتا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کی کہانی نے واضح کر دیا ہے کہ قومی ریاستوں کے موجودہ ورلڈ آرڈر میں قومی خودمختاری محض ایک سراب ہے۔ ایٹمی میزائل اور بیلسٹک میزائلوں سے لیس دنیا کی ساتویں بڑی مسلح افواج ہونے کے باوجود پاکستان کی کوئی آزاد خارجہ یا اقتصادی پالیسی نہیں ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کی تعمیل دراصل پاکستان، مقبوضہ کشمیر اور اس خطے کے مسلمانوں کے ساتھ ،اسلام کے عالمی غلبہ کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سے ،غداری ہے۔

موجودہ سیاسی و فوجی قیادت ،جمہوری نظام اور موجودہ عالمی آرڈر کے تحت پاکستان کی خودمختاری کی بات کرنا ایک دھوکہ ہے۔ جو لوگ واقعی خودمختار بننا اور امریکہ کی غلامی ختم کرنا چاہتے ہیں، انہیں پاکستان کو ریاست خلافت میں تبدیل کرنا ہو گا۔ خلافت موجودہ ورلڈ آرڈر اور اس کے قومی ریاستوں کے تصور کو مسترد کر کے مسلم دنیا کو ایک خلافت کے پرچم تلے یکجا کرے گی۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کو مسترد کردے گی، اور اسلام کے ورلڈ آرڈر کے قیام کے لیے کام کرے گی۔ تو وہ لوگ جو پاکستان میں حقیقی خودمختاری اور امریکی غلامی کے خاتمے کا خواب دیکھتے ہیں انہیں پاکستان میں خلافت کے قیام کی پکار اور جدوجہد کا حصہ بننا چاہیئے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:
اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰكُمۡ عَبَثًا وَّاَنَّكُمۡ اِلَيۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ‏
" تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟"(المؤمنوں، 23:115)



 

Ghazali Farooq
About the Author: Ghazali Farooq Read More Articles by Ghazali Farooq: 41 Articles with 26630 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.