سقراط روزانہ چہل قدمی کے لئے جایا کرتا تھا۔ اس راستے پر
ایک کمہار کا گھر تھا، جو مٹی کے برتن بنایا کرتا تھا۔ وہ کمہار کے پاس جا
کر بیٹھ جاتا اور اسے غور سے تکتا رہتا ۔ اسے برتن بننے کا عمل دیکھنا بہت
اچھا لگتا تھا ۔
ایک دن کمہار نے اس کی محویت دیکھ کر اپنے پاس بلایا اور پوچھا، "بیٹا ! تم
یہاں سے روز گزرتے ہو اور میرے پاس بیٹھ کر دیکھتے رہتے ہو ، تم کیا دیکھتے
ہو؟"
سقراط : میں آپ کو برتن بناتے دیکھتا ہوں اور یہ عمل دیکھنا مجھے بہت اچھا
لگتا ہے ۔ اس سے میرے ذہن میں چند سوال پیدا ہوئے ہیں ۔ میں آپ سے پوچھنا
چاہتا ہوں۔
کمہار : یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔ تم پوچھو ، جو پوچھنا چاہتے ہو ۔
سقراط : آپ جو برتن بناتے ہیں ، اس کا خاکہ کہاں بنتا ہے؟
کمہار : اس کا خاکہ سب سے پہلے میرے ذہن میں بنتا ہے۔
یہ سن کر سقراط جوش سے بولا، میں سمجھ گیا ۔
کمہار نے حیرت سے پوچھا، کیا سمجھے؟
سقراط : یہی کہ ہر چیز تخلیق سے پہلے خیال میں بنتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے
کہ خالق کے خیال میں ہم پہلے بن چکے تھے ، تخلیق بعد میں ہوئی ۔ اب میرا
اگلا سوال یہ ہے کہ جب آپ برتن بنا رہے ہیں، تو ایسا کیا کرتے ہیں کہ یہ
اتنا خوب صورت بنتا ہے؟
کمہار : میں اسے محبت سے بناتا ہوں۔ میں جو بھی چیز بناتا ہوں، اسے خلوص سے
بناتا ہوں اور اسے بناتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتا ہوں
تاکہ کوئی کمی کوتاہی نہ رہ جائے ۔
سقراط نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا، اس کی بھی سمجھ آ گئی، کیوں کہ
بنانے والا ہم سے محبت کرتا ہے، کیوں کہ اس نے ہمیں بنایا جو ہوتا ہے ۔
اگلا سوال یہ ہے کہ آپ اتنے عرصے سے برتن بنا رہے ہیں ، کوئی ایسی خواہش ہے
، جو آپ چاہتے ہیں کہ پوری ہو ۔
کمہار : ہاں ! ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسا برتن بناؤں کہ دنیا عش عش کر
اٹھے اور پھر ویسا برتن میں کبھی نہ بنا سکوں۔ کمہار نے حسرت سے کہا۔
یہ سنتے ہی سقراط اچھل پڑا۔ واہ ! خالق ہر بار ایسی تخلیق کرتا ہے کہ دنیا
بے اختیار عش عش کر اٹھے ، کیوں کہ خالق کو پتا ہے کہ میں جو یہ انسان اس
دنیا میں بھیج رہا ہوں ، اس جیسا کوئی اور دوبارہ نہیں آئے گا ۔
آپ یونیک ہیں ، اپنے ربّ کی بہترین تخلیق ۔ آپ کے خالق نے آپ کو بہترین
بلکہ احسنِ تقویم سے خلق کیا ہے۔ اپنے آپ کو فضول دھندوں میں برباد نہ کریں
۔ لوٹ آئیں اپنے ربّ کی طرف، وہ آ پ کی راہ تک رہا ہے۔
|