شہید ناموس رسالت ﷺ"غازی علم الدین شہید “
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
شہید ناموس رسالت ﷺ"غازی علم الدین شہید ؒ" از:۔خولہ مدثر
|
|
|
غازی علم الدین شہید |
|
شہید ناموس رسالت ﷺ"غازی علم الدین شہید ؒ" از:۔خولہ مدثر تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کبھی کسی ناعاقبت اندیش نے ناموس رسالت پر طعنہ زنی کی ہے عشاقان مصطفیٰﷺ نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے سربلندی ملت میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔عشق مصطفیٰﷺ ایسا خذینہ ہے جس کی نہ تو قیمت کا تعین ممکن ہے اور نا ہی تمام کائنات میں مثل ڈھونڈنا ممکن ہے...تاریخ میں ایسے چند ایک ہی کردار موجود ہوں گے جن کے غیر فطری و غیر ارادی افعال نے تاریخ انسانی پر اپنے اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ غازی علم الدین شہید کا تاریخی کردار بھی اُنہی میں سے ایک ہے۔ علم الدین 4 دسمبر 1908ء کو لاہور پنجاب پاکستان کے کوچہ چابک سوارں میں طالع مند نامی بڑھئی (ترکھان) کے گھر میں پیدا ہوئے۔ علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے ایک مدرسے میں حاصل کی اورتعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے آبائی پِیشہ کو اختیارکیا۔ اس خاندان کی شرافت و کاریگری کی دھوم دور دور تک تھی۔جب "راجپال" نامی لاہور کے ایک ناشر نے نبی آخرالزماں ﷺ کے خلاف ایک گستاخانہ کتاب "رنگیلا رسول" شائع کی۔ اس دل آزارعمل نے اہل ایمان کے جذبات کو مجروح کیا اورمسلمانوں میں سخت غم و غصہ پیدا ہوا۔مسلمان رہنماؤں نے اس کتاب کو ضبط کرنے اور ناشر کے خلاف تادیبی کاروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کیا تو انگریز حکومت کے مجسٹریٹ نے "راجپال" کو صرف چھ ماہ قید کی سزا سنائی مگر کتاب ضبط کرنے کے مطالبے کو رد کر دیا گیا۔ مزیدظلم یہ ہوا کہ "راجپال" نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اُس کو رہا کردیا۔ اب مسلمانوں کا غم و غصہ گم آسمان کو چھونے لگا اور گلی گلی احتجاج شروع ہو گیا۔حکومت نے بجا ئے راجپال کو سرزنش کے، دو سپاہی اور ایک حوالدار اُس کی حفاظت پر مامور کر دیے گئے اور ساتھ ہی ساتھ روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگریز حکومت نے دفعہ 144 نافذ کرکے مسلمان رہنماؤں کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ درحقیقت حکومت وقت ملعون راجپال کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا تھی۔ اِس دوران24 ستمبر 1928 کو لاہور کے ایک شخص خدابخش نے اِس شاتم رسول "راجپال" کو اُس کی دکان پر نشانہ بنایا، تاہم اُس نے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔ خدابخش گرفتار ہو گیا اور اُسے 7 سال قید کی سزاسنائی گئی۔اُدھرافغانستان کا ایک مرد مجاہد عبدالعزیز کفن باندھ کر گھر سے نکلا۔ اُس نے لاہور آکر راجپال کی دکان کا رخ کیا مگر اُس کے دکان میں موجود نہ ہونے پر غلط فہمی میں راجپال کے دوست سوامی ستیانند کواُس کی جگہ راجپال سمجھ کر قتل دیا۔ عبدالعزیز کو انگریز حکومت نے گرفتار کیا اور 14 سال کی سزا سنائی۔ مختلف روایات اور علماء کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ علم الدین ایک روز دلی دروازے پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رک گئے۔ وہاں راجپال کے خلاف تقریریں ہورہی تھیں۔ جس بات نے علم الدین کو سب سے زیادہ آگ بگولہ کیا وہ راجپال کی نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی تھی۔ علم الدین اِس بات کو برداشت نہیں کر سکا کہ کوئی اُس کی محبوب ترین ہستی کی شان میں گستاخی کرے۔ اُس نے اپنے والد سے تائید حاصل کی۔اوراپنے دوست ''شیدے'' اور اُس کے ایک دوست کی مدد سے راجپال کا حلیہ، ہسپتال روڈ پر واقع کتابوں کی دکان کا پتہ اور دیگر معلومات اکٹھی کیں۔یہاں یہ روایت بھی نقل کی جاتی ہے کہ بعد از یقین ایک رات اُس کا دل بہت بے قرار تھا ۔اُسے خواب میں ایک بزرگ ملے، اُنہوں نے کہا:" پیارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی ہو رہی ہے اور تم ابھی تک سورہے ہو! اُٹھو جلدی کرو۔ علم الدین ہڑبڑا کر اُٹھے اور سیدھے شیدے کے گھر پہنچے۔ پتہ چلا کہ شیدے کو بھی ویسا ہی خواب نظرآیا تھا۔ دونوں کو بزرگ نے "راجپال" کو قتل کرنے کو کہا۔ دونوں میں یہ بحث چلتی رہی کہ کون یہ کام کرے گا،دونوں ہی یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے فیصلہ طے ہوا۔ تین مرتبہ علم الدین کے نام کی پرچی نکلی تو شیدے کو ہار ماننی پڑی۔اور علم الدین ہی شاتمِ رسول کا فیصلہ کرنے پر مامور ہوئے۔ 6 اپریل 1929ء کو ایک بجے دوپہر غازی علم الدین نے کھوکھے والے کی نشاندہی پر راجپال کو اُس کی دوکان واقع ہسپتال روڈ انار کلی نزد مزار قطب الدین ایبک لاہور میں داخل ہوتے ہوئے پہچانا اور جیسے ہی راجپال اپنی نشست پر بیٹھا آپ نے راجپال کو للکارا ، چھری نکالی، اور راجپال کے جگر میں پیوست کر دی۔ عاشق کے ایک ہی وار نے راجپال کا کام تمام کر دیا۔ تھانے انارکلی پولیس کو دکان کے ایک ملازم نے اطلاع دی اور غازی علم الدین نے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے گرفتاری پیش کر دی اُس نے فرار ہونے کی کوشش نہیں کی۔ غازی کامقدمہ لوئس نامی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا جس نے غازی علم الدین پر فرد جرم عائد کرکے صفائی کا موقع دیئے بغیر مقدمہ سیشن کورٹ میں منتقل کردیا گیا۔مورخہ 22 مئی1929 کو غازی علم الدین کو سیشن کورٹ کے نیپ نامی انگریز جج نے سزائے موت کا حکم سنایا۔ غازی علم الدین کی جانب سے سلیم بارایٹ لاء پیش ہوئے اور آپ کے حق میں دلائل دیئے مگر تمام دلائل بے سود ثابت ہوئے۔ہائی کورٹ میں اپیل کے لیے اُس وقت کے سب سے بڑے اور مشہور وکیل محمد علی جناحؒ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ آپ بمبئی سے لاہور تشریف لائے۔اِس کیس میں آپ کی معاونت بیرسٹر فرخ حسین نے کی۔ 7 جولائی 1929ء کو ہائی کورٹ نے غازی علم الدین کو سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ 15 جولائی 1929ء کو ہائی کورٹ کے لارجربنچ نے بھی سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا اور غازی علم الدین کی اپیل خارج کردی۔اپیل خارج ہونے کی اطلاع جب غازی علم دین کو دی گئی تو آپ نے فرمایا "شکر الحمداللہ! میں یہی چاہتا تھا۔ بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کے بجائے تختہ دار پر چڑھ کر ناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا میرے لئے ہزار ابدی سکون وراحت ہے"۔یوں31 اکتوبر 1929 بروز جمعرات کو میانوالی جیل میں آپ کو شہید کر دیا گیا۔4نومبر 1929 کو جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ لے کر مسلمان ذمہ داران کے ایک وفد نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی ،جس میں علامہ ڈاکٹر محمداقبال، مولانا عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خان، سر محمد شفیع، خلیفہ شجاع، میاں امیرالدین، سر فضل حسین، مولانا غلام محی الدین قصوری اور دیگر شامل تھے اور یقین دلایا کہ تدفین پرامن ہونے کی ذمہ داری ہے۔13 نومبر 1929 کو مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن اور سید مراتب علی شاہ کی سربراہی میں ایک وفد میانوالی روانہ ہوا اور 14 نومبر 1929 کو جسد خاکی وصول کیا۔ 15نومبر 1929 کو محکمہ ریلوے نے غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا جسد خاکی لاہور چھاؤنی میں علامہ اقبال اور سر محمد شفیع کے حوالے کیا۔اُس وقت غازی علم الدین شہید کا نماز جنازہ ادا کرنے والوں کی تعداد چھ لاکھ سے زائد ریکارڈ کی گئی اور نماز جنازہ ساڑھے پانچ میل پر پھیلا ہوا تھا۔ نماز جنازہ خطیب مسجد وزیر خان قاری شمس الدین نے پڑھائی۔ سیدمحمد دیدارعلی شاہ محدث لاہوری اور علامہ اقبال نے غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔آپ کی آخری آرام گاہ میانی صاحب قبرستان بہاولپور روڈ میں ایک نمایاں مقام پر موجود ہے۔ یہ اُس شہید ِ ناموس رسالتﷺ کی زندگی کا وہ مختصر خاکہ ہے جس نے حضور نبی کریم ﷺ کی عزت وناموس پر قربان ہوکر اُمت کو غیرت و حمیت کا ایک نیا ولولہ دیا۔ "غازی علم الدین شہید ؒ" اِسی غازی ملت کے ذکر خیر پر مبنی وہ کتاب ہے جسے محترمہ خولہ مدثر نےتصنیف کیا ہے۔اللہ کریم نے ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے کے لیے جن خوش نصیبوں کو چُنا ،اُن میں ایک نمایاں نام محمد متین خالد صاحب کا بھی ہے۔جناب محمد متین خالد عصر حاضر کے"پروفیسر محمد الیاس برنی "ہیں۔آپ کی سو کے قریب تصانیف و تالیفات ردِ قادیانیت و تقابل ادیان پر مستند حوالہ مانی جاتی ہیں۔محترمہ خولہ مدثر ،جناب محمد متین خالد کی صاحبزادی ہیں۔اور وہ سعادت مند بیٹی ہیں جو اپنے والد کے نقش قدم پر گامزن اور اُنہی کا عکس تحریر ہیں۔'ہونہار بِروے کے چِکنے چِکنے پات 'کی مصداق ،خاتون خانہ ہوکر اپنی خانگی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اُنہوں قرطاس و قلم سے اپنا تعلق برقرار رکھا ہے جو کسی اعزاز اورسعادت سے کم نہیں۔ "غازی علم الدین شہید ؒ" خولہ مدثر کی پہلی تصنیف ہے۔ جو غازی علم الدین شہید سے متعلق ہے۔اِس کتاب کو اُنہوں نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔پہلےحصہ "اسلامی غیرت وحمیت کا استعارہ "کے عنوان سے غازی صاحب کے حالات زندگی پر محیط ہے۔دوسرا حصہ "خراج عقیدت"کے عنوان سے ہے جس میں غازی صاحب کی شان میں خراج عقیدت پر مبنی مختلف شعراء کا کلام یکجا کیا گیا ہے۔جبکہ تیسرا ،آخری اور سب سے اہم حصہ"عدالتی فیصلے"کے عنوان سےغازی صاحب کے سیشن کورٹ،ہائی کورٹ،پریوی کونسل(بکھنگم پیلس) کی کاروائی کےساتھ عدالتی فیصلوں کی عکسی نقول اور غازی صاحب پر شائع ہونی والی اہم کتب ، کتابچے،اور رسائل کے خاص نمبر کی تفصیلات پر مبنی ہے۔ کتاب کا انتساب محترمہ خولہ مدثر نے اپنےرفیق سفر"مدثر حسین چودھری" کے نام کیا ہے۔جبکہ کتاب کا ابتدائیہ"آبروئے ما زِمام مصطفیٰ ﷺ است" جناب طالب ہاشمی اور"تصویر وفا" جناب محمد متین خالد صاحب کی خوبصورت تحریروں سے مزین ہے۔"دل کی بات" میں محترمہ لکھتی ہیں کہ: "ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہم توہین رسالت کے دور میں رہ رہے ہیں۔آزادی اظہار کے نام پر یورپی ممالک کی حکومتوں کی سرپرستی میں مغربی ذرائع ابلاغ میں حضور نبی کریم ﷺ کی توہین کرنا معمول بن گیا ہے۔کبھی اخبارات ورسائل میں گستاخانہ خاکے شائع کیے جاتے ہیں اور کبھی انٹر نیٹ پر اُن کے مقابلوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔کبھی وہ قرآن کی تحریف کرتے ہیں اور کبھی شعائر اسلامی کی تضحیک کرتے ہیں۔اِن عقل کے اندھوں کو معلوم ہونا چاہیےکہ حضور رحمت عالم ﷺ کی شان پہلے بھی بلند تھی اور ہمیشہ بلند رہے گی۔کسی کے منہ کی پھونکوں سے اِس چراغ کی لو کم نہ ہوگی جس کو روشن کرنے والا خود مالک کائنات ہے۔بہرحال یہ امتحان اور ابتلا کا دور ہے۔مسلمان کمزور اور بے بس ہیں۔۔۔کفار کے حوصلے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف جو اُن کے جی میں آتا ہے ،کر گزرتے ہیں۔ کوئی اُنہیں روکنے ،ٹوکنے اور للکارنے والا نہیں۔اب ہماری صفوں میں کوئی صلاح الدین ایوبی،کوئی طارق بن زیاد،کوئی نورالدین زنگی اور کوئی غازی علم الدین شہید نہیں۔۔۔کون ہے جو دنیا بھر میں توہین رسالت کے واقعات کا سدباب کرنے کے لیے اِن ملعونوں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔۔۔کون ہے جو ایسی مذموم حرکات کرنے والوں پر صاعقہ بن کرگرے۔۔۔کون ہے جو اِن کی ناپاک جسارتوں کا منہ توڑ جواب دے۔۔۔شاید ہمارے دلوں میں محبت رسول ﷺ کا جذبہ ماند پڑگیا ہے۔اب جبین نیاز میں نہ سجدے تڑپتے ہیں اور نہ سرود محسوس ہوتا ہے۔نہ عشق میں وہ گرمیاں ہیں،نہ حسن میں وہ شوخیاں ہیں۔نہ غزنوی میں وہ تڑپ ہے اور نہ زلف ایاز میں وہ خم ہے۔ سنا تھا ہم نے لوگوں سے، محبت چیز ایسی ہے چھپائے چھپ نہیں سکتی،دبائے دب نہیں سکتی یہ چہرے سے جھلکتی ہے،یہ لہجے میں مہکتی ہے یہ آنکھوں میں چمکتی ہے،یہ راتوں کو جگاتی ہے یہ آنکھوں کو رُلاتی ہے،مگر یہ سب اگر سچ ہے تو اے لوگو!محمدﷺ سے تمہیں کیسی محبت ہے؟ نہ چہروں سے جھلکتی ہے نہ لہجوں میں مہکتی ہے نہ آنکھوں کو رُلاتی ہے ،نہ راتوں کو جگاتی ہے بتاؤ! یہ تمہیں آقائے مدنیﷺ سے بھلا کیسی محبت ہے ، بھلا کیسی محبت ہے؟" "اسلامی غیرت وحمیت" کے عنوان سے محترمہ حولہ مدثر صاحبہ نے قریباً سو صفحات پر مشتمل وہ تمام معلومات بھی کتاب میں شامل کی ہیں جو تحفظ ناموس رسالتﷺ کی اہمیت وافادیت اور عصر حاضر میں اِس کی ضرورت کے ساتھ غازی علم الدین شہیدکےخاندان ،راج پال کی گستاخانہ کتاب کی اشاعت ، غازی صاحب کے راج پال کو جہنم واصل کرنے اور اِس کیس سے جڑے اہم واقعات کی تفصیل پر مبنی ہے۔ حصہ دوم "خراج عقیدت" جو کہ غازی علم الدین شہید کی شان میں شعراء کے شعری انتخاب پر مبنی ہے،میں محمد افضل ہاشمی،محمد الیاس،سیف الحق ضیائی،پیرزادہ عطا محی الدین شاہد،ذوالفقار علی خان بقاء،عنایت اللہ رشیدی،امداد صدیقی،سید پھل آگروی،حزیں کاشمیری،،محمداکرم رضا،عبداللہ مصور،خان اصغر نظیر لدھیانوی،منشی عزیز الدین،محمد موسیٰ رضا اثیم انوی،استاد عشق لہر،اور محمدامان اللہ مغل کا کلام شامل ہے۔جبکہ کتاب کا آخری حصہ جو عدالتی فیصلے پر مبنی ہے ۔اس لحاظ سے بہت اہم اور خصوصیت کا حامل ہے کہ اِس حصے میں غازی صاحب کے مقدمے کی سیشن کورٹ اورہائی کورٹ سے لے کر فیصلہ پریوی کونسل(بکنگھم پیلس)تک کی تمام کاروائی کی تفصیل بمعہ اصل دستاویزات کے عکس کے ساتھ ہماری دانست میں پہلی مرتبہ شامل کتاب کیا گیا ہے۔ اِس خوبصورت اور علمی کوشش و کاوش پر ہم محترمہ خولہ مدثر صاحبہ کو دل سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے دعا گو ہیں کہ ربّ کریم اپنے محبوب ﷺ کی عزت وناموس کے دفاع کے مشن میں شہید ہونے والے مجاہد"غازی علم الدین شہید"کی زندگی سے جڑے تمام واقعات کو یکجا کرنے اور اُسے کتابی شکل دینے میں محترمہ خولہ مدثر صاحبہ کو دین ودنیا کا بہترین اجر عطا فرمائے اور اسی طرح اُنہیں اپنے والدمحترم جناب محمد متین خالد صاحب کے مشن پر گامزن رکھے۔آمین محمداحمد ترازی مورخہ 23 جولائی 2022ء کراچی
|