برطانیہ کاشمار دنیا کے ان چند
ممالک کی سرفہرست میں ہوتا ہے ۔ جہاں اقوام کو اعلٰی تعلیم یافتہ ،مہذب ،تہذیب
یافتہ اور انصاف پسندی میں یورپ کی دوسری اقوام کی نسبت پہلادرجہ حاصل ہے ۔
برطانیہ میں قانون کا احترام کرنا اور قواعد وضوابط پر عمل کرنا ہر برطانوی
شہری کی زندگی کا لازمی جز ہے ۔ برطانیہ میں وقت کی پابندی اور نظم و ضبط
کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ مقررہ اوقات سے تجاوز کرنے
پر معمولی سا ڈاکٹر برطانوی وزیراعظم کو جھاڑ پلا کر ہسپتال سے باہر نکال
سکتا ہے ۔ اگر ایسا کچھ وطن عزیز میں ہوتا تو نا صرف ڈاکٹر اپنی ملازمت سے
فارغ ہوتا بلکہ دیگر ایماندار افسران کے لیے ایک مثال بنادیا جاتا تاکہ
کوئی دوسرا ایسی غلطی نا کرسکے جس سے کسی اعلٰی شخصیت کا عزت نفس مجروح ہو
سکے۔ پاکستان کے کسی بھی شہر میں جب وی آئی پی مومنٹ ہونی ہوتی ہے تو کئی
گھنٹے قبل شاہراہوں کو عام ٹریفک کے لیے بند کردیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں
شہریوں شدید کوفت ،مریضوں کو سخت اذیت اور ان کے لواحقین کو سخت پریشانی کا
سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اکثر ایسی خبریں اخباروں کی شہ سرخیاں بنی ہیں کہ صدر
اور وزیر اعظم کی نقل و حرکت کے باعث شہر میں ٹریفک جام ہونے کے سبب مریض
ہلاک جبکہ حاملہ خواتین نے ٹیکسی یا رکشہ میں بچے کو جنم دے دیا ۔
خیر بات ہورہی تھی کہ لندن میں ایسا کیا ہوا کہ تہذیب و ترقاقی یافتہ ملک
صرف تین دن میں تیسری دنیا کے ممالک جیسا نقشہ پیش کرنے لگا ۔ کیا واقعی
ایسا حادثاتی طور پر ہوا یا پس پردہ کو سازش تھی ؟
چھ اگست کو شمالی لندن کے علاقے ٹونہٹم میں پولیس کی مبینہ فائرنگ سے ہلاک
ہونے والا ٢٩ سالہ مارک ڈگن چار بچوں کا باپ اور سیاہ فام باشندہ تھا ۔ اہل
لندن کے لیے مارک ڈگن کی ہلاکت ایک ڈراؤنا خواب بن کر رہ گئی۔ لندن میں
ہونے والے فسادات کو نسلی فسادات کا نام دینا حقیت پر پردھ ڈالنے کے مترادف
ہوگا ۔ اگر یہ نسلی فسادات تھے تو سفید فام مہذب قوم کے باشندے کیوں سرکاری
ونجی املاک کو سیاہ فام باشندوں کے ساتھ مل کر نظر آتش کررہے تھے ؟ کیوں
سفید وسیاہ فام بسوں اور گاڑیوں ایک ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگ لگارہے
تھے ؟
مختلف چینلز پر نشر ہونے والی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سیاہ وسفید فام
ایک دوسرے کے شانہ بشانہ لندن میں تباہی پھیلارہے تھے ۔ غیرملکی میڈیا کے
مطابق لندن فسادات میں ملوث ٥٨٠ افراد کو حراست میں لیا گیا جس میں ٢ سو سے
زائد سیاہ فام باقی سب سفید فام تھے ۔
کئی عشروں کے بعد برطانیہ کو ایسی تباہی کا سامنا کرنا پڑا جس میں کروڑوں
پونڈ کی املاکیں نظر آتش ،لاکھوں پونڈ مالیت کا سامان لوٹ لیاگیا تین دن تک
لندن جلتا رہا اگر پہلے دن سخت ایکشن لیا جاتا تو ایسی صورتحال کا سامنا نا
ہوتا ۔ فسادات میں لوٹ مار زیادہ تر ان شاپنگ مال اور دکانوں میں کی گئی جو
مسلم افراد کی ملکیت تھی ۔ پولیس و انتظامیہ کی کھلی چھوٹ کی وجہ سے تین
برطانوی نژاد مسلم پاکستانیوں کوقتل کردیا گیا ۔ جن میں دو حقیقی بھائی بھی
شامل تھے جو فسادات کے دوران مسجد کے حفاظتی امور کی ذمہ داری سنبھالنے
جارہے تھے ۔ عینی شاہد کے مطابق دونوں بھائیوں کو ایک تیز رفتار کار نے ہٹ
جسے کوئی سیاہ فام باشندہ چلارہاتھا حادثے کے چند لحموں بعد ایک تیز رفتار
ٹرالر ان زخمی بھائیوں کو روندتا ہوا چلا گیا جسے کوئی سفید فام ڈرائیو
کررہا تھا ۔ اگر یہ سیاہ و سفید فام کے درمیان لڑائی تھی تو مسلمانوں کو
کیوں نشانہ بنا گیا ان کی املاک اور دکانوں کو کیوں لوٹا گیا ؟
اس کی اصل وجہ سے ہر ذی شعور انسان بخوبی با خبر ہے کہ نا صرف برطانیہ بلکہ
پورے یورپ میں اسلام تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے یورپ میں اسلام کے خلاف جتنا
منفی پروپرگنڈہ کیا جارہا اسلام اورتیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ یورپ میں
مسلمانوں کی آئے روز تنگ کرنے اور ان کی دل آزاری کرنے کے لیے کبھی
گستاخانہ خاکوں کا آجراء تو کبھی مسلم خواتین کے اسکارف پر پابندی عائد
کردی جاتی ہے ۔
راقم کی رائے میں فسادات کی اصل وجہ نارویجین شہری آندرے برنگ بریوک کے
ساتھ اظہار یکجہتی کرنا اور یورپ کے حوالے سے اس کے خدشات کو درست قرار
دینا ہے ۔ جو اس نے اپنے بلاگ میں تحریر کیے تھے کہ کثیر ثقافتی و معاشرتی
نظام سے یورپ کی شناخت ختم ہو جائے گی اور برطانیہ میں مقیم ١٥ سے ٢٥ سال
تک ١٣ فیصد مسلمان القاعدہ کے نظریات کے حامی ہیں اور خطہ میں مسلمانوں کی
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی یورپی ثقافت کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی
ہے ۔ آندرے یورک اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے ٩٨ افراد کو تعصب کی
بھینٹ چڑھا دیا ۔ مذہب و لسانیت کی آگ برطانیہ میں بھڑ ک چکی ہے جو عنقریب
پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لیں لے گی ۔ |