ہم لوگ ہوٹل پہنچے تو کراچی سے
فون آیا کہ وہاں فریش ادرک کی مانگ بڑھی ہوئی ہے اگر برما کا ادرک اچھا اور
سستا ملے تو دس کونٹینر لوڈ کرائیں، میں نے سلیم بھائی کی طرف دیکھا جو پاس
کھڑے ہوئے میری کفتگو سُن رہے تھے، انہوں نے بتایا کہ ادرک کی پیداوار
تو”ٹاﺅنجی“ کے علاقے میں ہوتی ہے جو یہاں سے تقریباًپانچ سو میل دور ایک
خوبصور ت پہاڑی علاقہ ہے جہاں اکثر لوگ گرمیوں میں سیرو تفریح کے لیے جاتے
ہیں ، میں نے سلیم بھائی کی بات سن کر کہا ،ارے سلیم بھائی رنگون تو مین
جگہ ہے یہاں پر بھی تو اس کی مارکیٹ ہونی چاہیے، اس پر انہوں نے کمرے کی
طرف جاتے ہوئے کہا ،بھائی میں تو اب واپس گھر جانے کی سوچ رہا ہوں بہت دن
ہو گئے گھر والے جانے کیا سوچ رہے ہوں گے، اس پر میں نے ہنستے ہوئے کہا ،
کیا سوچیں گے یہی کہ کہیں تم نے بھی رزاق بھائی کی طرح شادی تو نہیں کر لی
؟ اس پر سلیم بھائی نے مسکراتے ہوئے کہا، ارے نہیں بھئی ایسی بات نہیں ہاں
اگر میں پاکستان جاﺅں تو وہاں البتہ میری ایک پھو پھی زاد ہے جس نے میرے
انتظار میں ابھی تک شادی نہیں کی اسی لیے میرے گھر والے مجھے پاکستان نہیں
جانے دیتے حالانکہ وہاں پر میرے والد صاحب کی خوشاب کے ایک گاﺅں میں کافی
زرعی زمین ہے وہاں میرے ایک ہی چچا ہیںجن کی اپنی کوئی اولاد نہیں مجھے بہت
دفعہ بول چکے ہیں کہ بھئی آ کر اپنے حصے کی جائداد سنبھالو مگر میراجانا ہی
نہیں ہوتا بہت پہلے ایک دفعہ گیا تھا تو انہوں نے وہیں مستقل رہنے کے لیے
کہا میرا وہاں کا شناختی کارڈ بھی بنوا دیا اور میرے بیوی بچوں کو بھی آنے
کو کہا مگر میرے بال بچوں نے یہ کہہ کر مجھے واپس بلوایا کہ آ کر ہمیں لے
جائیں اور جب میں آیا تو میرا پاسپورٹ غائب کر کے کہا کہ ہم لوگ یہاں اپنے
لوگوں کو چھوڑ کر وہاں کیسے رہ سکیں گے جبکہ ہمارا رہن سہن وہاں سے بہت
مختلف ہے وہاں تو عورتیں برقعہ پہنتی ہیں اور یہاں تو سر پر دوپٹہ بھی کم
ہی نظر آتا ہے۔
سلیم بھائی کی بیوی جس کا تعلق ایک صورتی میمن (انڈیا کی ایک جگہ جس کا نام
صورت ہے) فیملی سے تھا اپنے بہن بھائیوں کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھیں
اور پھر برما میں بھی اُن کے دو ذاتی مکان اور اچھا چلتا ہوا میڈیکل اسٹور
جس پر ہسپتال کے بالکل سامنے ہونے کی وجہ سے ہر وقت خریداروں کی بھیڑلگی
رہتی تھی ، سب سے بڑی جو روکاوٹ میری سمجھ میں آئی کہ ایک تو سلیم بھائی کی
پھوپی کی بیٹی اور دوسرا ان کے تینوں بیٹے جو اردو کا ایک لفظ بھی نہیں
جانتے تھے بس ان کی بیوی ہی تھوڑا بہت بول سکتی تھیں ، جنہوں نے مجھے اپنے
والد صاحب یعنی سلیم کے سسر سے بھی ملوایا ، جو میمن تھے اور اسی انداز کی
اردو بولتے تھے،سلیم بھائی نے بتایا کہ برما میں ایسے خاندان کو ”زہربادی“
کہا جاتا ہے جن میں ایک ذات نہ ہو مثلاً جیسے میں پنجابی ہوں اور بیوی میمن
ہے ، میرے لیے یہ بڑی حیرانی کی بات تھی کہ ہمارے ہاں زہربادی کوئی اچھی
چیز نہیں ایک بیماری کا نام ہے کہ فلاں فلان کو زہرباد ہوگیا ہے ،مگر سلیم
بھائی کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اپنے آپ کو زہر بادی کہہ رہے تھے۔
آخر انہوں نے رات کو بس کے ذریعے ٹانگو جانے کا ٹکٹ کٹوا ہی لیا ، میں نے
بھی اداسی سے کہا کہ ٹھیک ہے میں آپ کو نہیں روک سکتا کیونکہ آپ اپنے گھر
جا رہے ہیں مگر مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا کہ اگر مجھے ادرک کے لیے ٹاﺅنجی
جانا پڑا تو میں آپ کو ساتھ لے کر جاﺅں گا ، انہوں نے بھی بڑی خوشدلی سے
کہا ہاں بھئی کیوں نہیں میرا گھر تو راستے میں ہے آپ آجائیے گا پھر وہاں سے
دونوں آگے ٹاﺅنجی روانہ ہو جائیں گے وہاں میرے ایک بہت اچھے دوست سید
انتظار حسن رہتے ہیں آپ سے مل کر بہت خوش ہوں گے کہ آپ ایک پاکستانی ہیں
اور اُن کا تعلق بھی وہیں سے ہے۔
شام کو ہم لوگ ہوٹل کی کینٹین میں بیٹھے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے کہ رزاق
بھائی کا فون آیا جس میں انہوں نے بتایا کہ اگر آپ کا کہیں باہر جانے کا
پروگرام نہ ہو تو میں آپ سے ملنے ہوٹل آ جاﺅں ؟ میں نے ازراہ مذاق کہا کیوں
بھئی پھر بھابی سے جھگڑا ہو گیا کیا ؟انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا نہیں
بھئی وہ بھی میرے ساتھ آ رہی ہیں آپ کو سلام دینے، میں نے کچھ حیرانگی سے
کہا ، کیوں بھئی مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے کیا ؟ رزاق بھائی نے یہ کہہ کر
فون بند کر دیا کہ یہ سب آ کر بتاﺅں گا،میں نے سلیم بھائی کو جب یہ بات
بتائی تو وہ بھی اُلجھ گئے کہ ایسی کیا بات ہے جو وہ بیوی کو بھی ساتھ لے
کر آ رہا ہے ،ہم دونوں اپنے اپنے انداز میں سوچ رہے تھے میرے ذہن میں تو
یہی بات آ رہی تھی کہ شاید دونوں میں پھر کسی مسئلے پر بحث ہوگئی ہوگی اور
اس کا حل نکالنے آ رہے ہیں ، بہر حال جو بھی ہو فون پر بات کرتے وقت رزاق
بھئی کا لہجہ تو بڑا خوشگوار لگ رہا تھا ، ہم لوگوں کے سوچتے سوچتے رزاق
بھائی اپنی بیوی کے ساتھ جس نے بڑے اہتمام سے دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا ہوٹل کے
مین گیٹ سے داخل ہوئے، میں ان کے آنے کے انداز سے تو یہی سمجھا کہ یہ لوگ
خوش ہیں کوئی خطرے والی بات نہیں ہے ، اس کی بیوی نے دوپٹے کو دونوں ہاتھوں
سے ایسے جکڑا ہوا تھا کہ جیسے کوئی تیز ہوا سے اڑنے کا خوف ہو یا پھر یہ
خطرہ ہو کہ سر سے ڈھلک جائے گا تو کوئی اُسے سزا دے گا، رزاق بھائی نے میری
طرف اشارہ کیا تواُس کی بیوی نے ہاتھ ماتھے تک لے جا کر اسلام علیکم کہا
میں نے بھی اسی کے انداز میں واعلیکم سلام کہا ،دونوں خاموشی سے میرے سامنے
والے صوفے پر بیٹھ گئے ، اُس کی بیوی تو ایسے سمٹی ہوئی تھی جیسے کوئی
مشرقی دلہن پہلی دفعہ اپنے سسرال میں جاتی ہے تو پلنگ پر سُکڑ کر بیٹھتی
ہے، میں بڑا حیران تھا کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے ، رزاق بھائی نے تو
بتایا تھا کہ یہ دوپٹہ نہیں اوڑھتی مگر آج تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سب
الزام تھا اس پر، آخر میں نے سکوت توڑتے ہوئے رزاق بھائی کی طرف دیکھتے
ہوئے کہا، کیوں بھئی آپ تو کہتے تھے کہ ہماری بھابی بڑی آزاد ہے مگر آج تو
مجھے ایسا ہر گز نہیں لگا ، اس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ، ارے بھائی
یہ آپ کے احترام میں ایسا کر رہی ہے ، میں نے اسے یہاں آنے سے پہلے بتادیا
تھا کہ جس سے ملنے جا رہی ہو وہ حاجی صاحب ہیں اور بے پردگی کو بالکل پسند
نہیں کرتے، اس لیے اس نے ہوٹل میں داخل ہونے سے پہلے سر ڈھانپ لیا ابھی
باہر نکلے گی تو کھول دے گی، میں نے ذرا انہیں ڈراتے ہوئے کہا یار تم اس کے
سامنے ہی اس کی برائی کر رہے ہو وہ برا منا گئی تو ؟ اس پر رزاق بھائی نے
ہاتھ نچا کر کہا ارے آپ اس کی فکر نہ کریں، یہ اردو کا ایک لفظ بھی نہیں
سمجھتی اور نہ بول سکتی ہے اسی لیے چپ بیٹھی ہے ، میں نے دیکھا واقعی وہ
بیچاری ہونقوں کی طرح ہماری باتیں سن رہی تھی، کبھی میری اور کبھی اپنے
میاں کی طرف دیکھ رہی تھی، میں نے کہا تو بھائی تم اس کو لائے کس لیے ہو جب
یہ میری بات ہی نہیں سمجھتی تو میں اس سے کیا بات کروں گا، اس پر انہوں نے
بے ساختہ کہا، میں کہاں لایا ہوں یہ مجھے لائی ہے کہ میرے رویے میں جو
اچانک تبدیلی آئی تو اس نے پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوا، میں نے اس سے آپ کا
ذکر کیا تو یہ ضد کرنے لگی کہ مجھے اُس شریف آدمی سے ملنا ہے جس نے ہمارے
ٹوٹتے ہوئے گھر کو بچایا ،اس لیے میں اسے آپ کو دکھانے لے آیا ، ویسے ابھی
اللہ کا شکر ہے کہ میری بھی کچھ کچھ مانتی ہے جس کا ثبوت ابھی دوپٹہ اوڑھے
آپ کے سامنے بیٹھی ہے جو اس کی مرحومہ ماں کا ہے اسے تو عادت ہی نہیں اسی
لیے اتنے زور سے پکڑ رکھا ہے، بہر حال ہم دونوں آپ کو کھانے کی دعوت دینے
آئے ہیں کہ آپ اور سلیم بھائی کل رات کا کھانا ہمارے گھر پر کھائیں تو ہم
کو دلی خوشی ہو گی۔میری جگہ سلیم بھائی نے پہل کرتے ہوئے کہا ،بھائی میں تو
آج رات کو واپس جا رہا ہوں اس لیے آپ مجھے تو چھوڑ کر ہی بات کریں، میں نے
بھی معذرت کرتے ہوئے سلیم بھائی کا ساتھ دیا ، بھائی میرا بھی کل صبح
نتائجوں جانے کا پروگرام ہے اس لیے میری بھی معذرت قبول فرمائیں،ہاں
انشااللہ موقع ملا تو پھر کبھی ضرور کھائیں گے ، مجھے تو دعوت سے زیادہ اس
بات کی خوشی ہو رہی ہے کہ آپ لوگ خوش ہیں ، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی آپ
کو ایسے ہی ہنستی مسکراتی زندگی نصیب کرے ، اس پر سلیم بھائی اور رزاق
بھائی نے آمین کہا تو ہماری بھابی حیرانی سے ہمارے چہرے دیکھ کر اندازہ لگا
رہی تھی کہ ضرور کوئی اچھی بات ہے اور برمی مسلمان بھی دعا پر آمین ہی کہتے
ہیں اس لیے اُس نے بھی آہستہ سے آمین کہہ دیا،کچھ دیر بیٹھ کر چائے وغیرہ
پی کر وہ لوگ رخصت ہوگئے تو ہم لوگ بھی کمرے آ کر انہی کی باتیں کرنے لگے ،
سلیم بھائی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، اچھا ہے اگر سب میاں بیوی اسی طرح ایک
دوسرے کے جذبات کو سمجھتے ہوئے آہستہ آہستہ کنٹرول کریں تو جھگڑے ہی ختم ہو
جائیں،اس پر میں نے کہا ارے سلیم بھائی ابتدائے اسلام میں جب شراب ابھی
حرام نہیں ہو ئی تھی تو لوگ اسی حالت میں نماز پڑھنے آجاتے تھے جب اُن کو
خود احساس بھی ہوگیا کہ یہ اچھی چیز نہیں ہے تو اللہ تعالٰی کی طرف سے بھی
اس کے حرام ہونے کا حکم آ گیا،یہاں جو ماحول ہے اس کے مطابق مسلمان اپنی
شناخت بھولتے جا رہے ہیں ، اسی لیے تو کہتے ہیں کہ اسلامی ریاست میں اسلامی
قانون ہو تو مسلمان بھی صحیح معنوں میں اسلام کے راستے پر چل پڑیں، مگر کیا
کریں ہمارے ہاں تو حکومت کے لالچ میں غیروں کے اشاروں پر ناچنے والے لوگ
زیادہ ہیں جو یہ بھی جانتے ہیں کہ موت کے ہاتھوں سے تو اقتدار بھی نہیں بچا
سکے گا پھر بھی نہ جانے کیوں اُسی کے پیچھے بھاگتے ہیں،جیسے ایک ہیروئین
پینے والا جانتا ہے کہ وہ موت کو دعوت دے رہا ہے پھر بھی اسے خریدنے کے لیے
اپنا خون تک بیچ دیتا ہے ۔ (جاری ہے) |