مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی
اٌس بس کے ایک کونے میں لگی سیٹ کی پٌشت کے ساتھ نصب پائپ کو اپنے ہاتھوں
میں تھامے کھڑا وہ ننھا سا چار یا پانچ سالہ بچہ جو کہ اسی سیٹ کے آخری
سرے کے ساتھ نصب کھڑکی کے شیشے سے باہر جھانکتے ہوئے نہ جانے کن خیالوں میں
کھویا ہوا تھا، یک بیک چونک اٹھا۔
خیالات کے لامتناہی تار کے ٹوٹتے ہی ایسا محسوس ہوا کہ جیسے دنیا و مافیہا
سے بے خبر کسی ان دیکھی و انجانی دنیاؤں کی سیر کرتے اٌس بچہ کا بس کی
اندرونی فضاء سے منقطع رابطہ پھر سے استوارہوگیا ہو۔
بس کا ہرکونا اور ہر حصہ سیٹوں پر بیٹھے، بس کے فرش اور چھت سے لگے پتلے
پتلے آہنی ستونوں، لیڈیز کمپارٹمینٹ کو جدا کرتی آہنی جالیوں، سیٹوں کی
پشتوں کے ساتھ نصب شدہ اور چھت کے ساتھ جڑے پائیوں کو اپنے ہاتھوں سے
مضبوطی سے تھامے کھڑے لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔
بس کی فضاء میں لوگوں کی آپسی گفتگو کا شور، چلتی ہوئی بس کے انجن کی
غراہٹ کی آمیزش سے کچھ اسطرح سے آپس میں مدغم ہو کر ایک سرے سے دوسرے سرے
تک ایک عجیب سی بھنبھناہٹ کی سی شکل اختیار کر گیا تھا جو قدرے دور کھڑے
سامع کے لیے ایک باقاعدہ گفتگو سے ذیادہ ایک شورِ ِمغلوبہ بنکر رہ گیا تھا۔
ہاں البتہ کبھی کبھار کوئی بھرپور قہقہہ یا کوئی ایک آدھ جملہ ایسا ضرور
کان میں پڑھ جاتا، جسے قابل ِفہم گردانا جاسکتا تھا۔
بچے نے اپنی گردن چہار اطراف میں گھما کر بغور لوگوں کا جائزہ لینا شروع
کیا۔ سیاہ، سانولی، گندمی، درمیانی و گوری رنگت والے، داڑھی مونچھوں سے
مبرا، تو کوئی بڑی بڑی اور گھنی، تو کوئی تلوار مارکہ، تو کوئی ناک کے نیچے
اور ہونٹوں کےعین اوپر ایک باریک سا خط بناتیں ہوئیں مونچھوں سے آراستہ،
تو کوئی سینے تک دراز داڑھی میں اپنی انگلیوں سے خلال کرتے، تو کوئی تیل سے
چپڑے چمکتے سیاہ، تو کوئی انتہائی سلیقے سے سنوارے گئے، تو کوئی جھاڑ
جھنکار کی طرح بیترتیب بالوں، تو کوئی چکنے انڈے کی طرح سے چمکتی چندیا
والے، تو کوئی شلوار قمیض زیب ِتن کیئے، تو کوئی سر پر عمامہ باندھے، تو
کوئی کاندھے پر پٹکا ڈالے، تو کوئی کرتے پاجامے میں ملبوس، تو کوئی لمبی
قمیض کے نیچے دھوتی پہنے اور کوئی قمیض پتلون زیب ِتن کیئے قطعاً اجنبی
چہروں کی بھیڑ کو اپنے ارد گرد دیکھ کر ایک بار پھر اٌس ننھے بچے نے اچھی
طرح سے لوگوں کے چہروں کا کڑی نظر سے جائزہ لینا شروع کیا۔ لیکن باوجود
کوشیش کے بھی ان سارے بھانت بھانت کے چہروں میں سے کوئی ایک چہرہ بھی اسے
ایسا نظر نہ آیا جسے وہ ’’ابو‘‘ کہہ کر پکار سکتا!۔
دھیرے دھیرے بچے کے چہرے سے اصطراب و سراسیمگی کے آثار نمایاں ہونے لگے،
اسے اٌس ساری بھیڑ بھاڑ میں کہیں بھی اپنے ابو نظر نہیں آرہے تھے، حالانکہ
وہ اپنے ابو ہی کے ہمراہ اس بس پر سوار ہوا تھا اور اسکے ابو اسکے ساتھ ہی
تو کھڑے تھے۔
دو چار بار اِدھر اٌدھر ابو کو صدائیں دینے کے باوجود بھی جب اسے نہ تو ابو
کی طرف سے کوئی جواب موصول ہوا اور نہ ہی ابو کسی بھی کونے سے اپنی جانب
آتے دکھائی دیئے تو مارے گبھراہٹ اور پریشانی کے اس کی ننھی ننھی آنکھیں
موٹے موٹے آنسوؤں سے بھر آئیں اور پھر ہونٹوں سے نکلتیں سسکیوں نے
باقاعدہ رونے کی صورت اختیار کرلی۔
بچے کے رونے کی آواز سن کر آس پاس کے لوگ متوجہ ہوئے اور حیرت سے اسے
خوبصورت سے ننھے منھے بچے کو دیکھنے لگے۔
گوری رنگت، کانوں کو ٹھانپتے لمبے سیاہ بال، چہرے پر چھائی افسردگی
وسراسیمگی کے باوجود ٹپکتی زہانت اس بات کی غماز تھی کہ وہ بچہ کسی اچھے
گھر کا چشم و چراغ ہے۔
بچے کے اردگر جمع ہوجانے والے مجمعے میں سے ایک مہربان صورت شخص نے آگے
بڑھکر اس بچے کے کاندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور بولا:۔
بیٹے، کیوں رو رہے ہو!؟‘‘۔
روتا ہوا وہ بچہ اپنی ہچکیوں اور بے قابو سانسوں پر قابو پانے کی ناکام
کوشیش کرتے ہوئے بدقت ِتمام وقفوں وقفوں سے بولا:۔
۔’’وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جی وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔وہ نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ میرے ابو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیں نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کھو گئے
ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!‘‘۔
*.*.*.*.*.*.*.*.*.*.*.*.*.*.*.*.*.*.*.*.*
میں نانی اماں کے گھر جا کر ہمیشہ بہت ہی مسرور ہوا کرتا تھا۔ اٌس روز بھی
اپنی امی کے ہمراہ صج سے ہی انٌکے یہاں آکر بہت خوش تھا۔
امی ہمیشہ ہی کی طرح سے آتے ہی نانی اماں کے ساتھ دنیا جہاں کی باتوں میں
مشغول ہوگئیں تھیں اور یہ ان دونوں ماں بیٹی کا سدا کا ہی معمول تھا، جہاں
کہیں ہفتے دو ہفتے کے بعد یہ دونوں خواتین یکجا ہوئیں، تو جیسے باتوں کا تو
ایک پنڈورا بکس سا ہی کھل جاتا اوراب بھلا ایک 9 - 10 برس کے بچے کو ان
باتوں سے کیا سروکارسکتا تھا؟ لہٰذا میں نانی اماں کے اٌس بڑے سے سجے سجائے
اپارٹمینٹ میں جو کہ کراچی شہر کے اٌس دور کے متمول علاقے میں تھا اور جہاں
وہ چھوٹے ماموں جنکی ابھی شادی بھی نہ ہوئی تھی، کے ہمراہ رہا کرتیں تھیں
میں گھوم پھر کر گھر کے ہر اک کونے کھدرے کا معائنہ کرتا پھرتا۔
چھوٹے ماموں کی کراچی کی سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹ جوڑیا بازار میں نمک کی
دکان تھی اور اسی نسبت سے ہمارے ننہال کو خاندان بھر اور سب جاننے والوں
میں ’’نمک والے‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ ماموں تو صبح صبح ہی اپنی دکان کو
نکل جاتے تھے اور پھر نانی اماں اور امی ملکر دوپہر میں کوئی لذیذ سا کھانا
پکاتیں جو ہم تینوں مل جل کر آپس میں خوب باتیں کرتے ہوئے مزے لے لے کر
تناول کرتے۔
اٌس روز ہم لوگوں کو وہاں آئے بمشکل کچھ دو تین گھنٹے ہی بیتے ہونگے کہ
گھر کے دروازے پر لگی اطلاعی گھنٹی بج اٹھی۔ امی دروازہ کھولنے کو اٹھیں تو
میں بھی ان کے ساتھ ہی ہولیا۔ دروازہ کھلتے ہی سامنے ابو کھڑے نظر آئے۔
لیکن یہ کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !؟ ان کے تو چہرے پر ہوائیاں سی اڑ رہی تھیں!!!۔
وہ تیزی سے اندر داخل ہوئے اور پریشان اور گھبرائی ہوئی آواز میں امی سے
مخاطب ہوئے:۔
۔’’ارے غضب ہو گیا، سلیم گم ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘۔
۔’’لیکن وہ کیسے گم ہو سکتا ہے، وہ تو آپ کے ساتھ گیا تھا؟‘‘۔
ابو کی بات سن کر امی کے تو جیسے اوسان ہی خطا ہو گئے۔ امی کا سوال سنکر
ابو سٹپٹا سے گئے اور بے حد فکر مندانہ لہجے میں بولے:۔
۔’’ہاں وہ تھا تو میرے ہی ساتھ۔ اپنا کام مکمل کرکے میں گھر کو جانے والی
بس پر سوار ہوا تھا اور صبح کا وقت ہونے کے سبب بس سواریوں سے بھری ہوئی
تھی اور وہ سارے وقت میرے ساتھ ہی کھڑا ہوا تھا، جب بس صدر پر ریگل کے بس
اسٹاپ پر پہنچی تو مجھے ایک کام یاد آیا اور میں اسی خیال میں بس سے اتر
گیا کہ وہ بھی میرے ساتھ ساتھ ہی چلتا ہوا اتر رہا ہے‘‘۔
ابو بولتے ہوئے سانس لینے کے لئے رکے تو ایسا محسوس ہوا کہ وہ چند لمحوں کا
نہیں صدیوں پرمحیط وقفہ ہے لیکن سانس لیتے ہی ابو پھر سے گویا ہوئے:۔
۔’’میں جیسے ہی بس سے اترا مجھے اندازہ ہوگیا کہ سلیم بس کے اندر ہی رہ گیا
ہے لیکن ابھی میں دوبارہ بس پر سوار ہوتا کہ بس فوراً ہی چل پڑی اور میں
اسکے پیچھے دوڑتا اور آوازیں ہی دیتا رہ گیا لیکن بس انتہائی تیز رفتاری
کے ساتھ نکل گئی‘‘۔
ابو کے خاموش ہوتے ہی امی نے تو جیسے سوالوں کی ایک بوچھاڑ ہی کردی:۔
۔’’ارے آپ نے تھانے میں اطلاع کی یا نہیں؟
آپ یہاں کیوں چلے آئے؟
آپ اس بس کے آخری اسٹاپ والے اڈے کیوں نہ گئے؟
آپ تو اخبار میں کام کرتے ہیں، آپ نے اخبار میں خبر چھپوائی کہ نہیں؟‘‘
میرے خدا! اب میں اپنے بچے کو کہاں تلاش کرونگی!!!؟‘‘۔
اتنے سارے سوالات یکمشت سن کر تو ابو کے رہ سہے حواس بھی جاتے رہے اور وہ
گڑبڑا کر بولے:۔
’’میں تو کچھ بھی نہ کرپایا، سلیم کے گم ہونے سے میرے تو ہاتھوں کے طوطے ہی
اڑگئے، مجھے اور تو کچھ نہ سوجی، میں سیدھا یہاں ہی چلا آیا‘‘۔
امی نے مزید کچھ اور کہے سنے بغیر نانی اماں کو نہ معلوم کیا کہتے ہوئے
اپنا ڈوپٹہ سبھالا اور بولیں:۔
۔’’ہمیں فوراً گھر پہنچنا چاہیے، ممکن ہے کہ کوئی خدا ترس انسان اسے گھر
پہنچانے آئے اور ہم لوگوں کو نہ پا کر واپس لوٹ جائے‘‘۔
گھر واپسی کے سارے راستے مجھے نانی اماں کی ہزاروں بار کی سنائی ہوئی وہ
کہانی شدت سے یاد آتی رہی جسمیں ایک درخت پر بنے کسی چڑیا کے گھونسلے سے
اسکا ایک ننھا سا بچہ نیچے کہیں گر کر گم ہوجاتا ہے اور وہ چڑیا دیوانہ وار
اِدھر اٌدھر اپنے گم شدہ ننھے سے بچے کو تلاش کرتی ہے لیکن جب اسے وہ کہیں
نہیں ملتا تو اسکے ننھے سے دل میں کئی طرح کے وسوسے اور اندیشے جنم لینے
لگتے ہیں کہ کہیں اسے کوئی چیل کوا ہی نہ اٹھا لے گیا ہو یا پھر وہ کسی
جانور کے منہ کا نوالہ ہی نہ بن گیا ہو۔
میں دل ہی دل میں دعائیں مانگتا جارہا تھا کہ جیسے اٌس کہانی میں ایک رحم
دل انسان کی نظر اس چڑیا کے ننھے سے بچے پر پڑتی ہے اور وہ اسے اٹھا کر اس
گھونسلے میں واپس رکھ دیتا ہے، جہاں ایک چڑیا انتہائی مٌصطرب و بیچین حال
میں زور روز سے چٌوں چٌوں کرتی دکھائی دیتی ہے ہی کی طرح سے کوئی نیک دل
انسان میرے چھوٹے بھائی کو بھی گھر پہنچا دے۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ کہانیوں کے کتابوں میں پڑھے بردہ فروشوں اور بچوں کو پکڑ
کر بھکاری بنا دینے والے درندہ صفت سنگدل انسانوں کے قصے بھی میری نگاہوں
کے سامنے گھوم رہے تھے۔
نانی اماں کے گھر سے ہمارے گھر کا گھنٹہ بھر طویل وہ راستہ اس روز تو جیسے
کٹ کے ہی نہ دیتا تھا اور اندیشے اور وسوسے تھے کہ دل و دماغ میں یلغار کئے
جاتے تھے۔
جیسے تیسے کر کے وہ راستہ کٹا اور ہم لوگ اپنے گھر کے بند دروازے پر کسی کو
اپنا منتظر نہ پاکر شدید مایوسی کا شکار ہوئے۔
ابو ابھی اپنے جیب سے دروازے پر لگے قفل کو کھولنے کے لیئے کنجی نکل کر
دروازے پر جھکے ہی تھے کہ پڑوس کا دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک خاتون
سلیم کا ہاتھ پکڑے برآمد ہوئیں۔
سلیم کو انکے ساتھ دیکھ کر تو مجھ سمیت امی اور ابو کے چہرے یوں کھل پڑے کہ
جانوں جیسے سوکھے دھانوں میں پانی پڑگیا ہو۔
امی نے بڑھکر سلیم کو گلے سے لگا لیا۔ سلیم کے ننھے سے چہرے پر ابتک آنسوں
کی نمی کو محسوس کیا جاسکتا تھا۔ وہ تو بس چپ چاپ اور گم سم سا کھڑا یوں لگ
رہا تھا کہ جیسے اسٌپر اور سچ تو یہ ہے کہ خود ہم سب پر بھی شادی ِمرگ کی
سی کیفیت طاری ہو۔
اس پڑوسی خاتون نے امی کو بتایا کہ کچھ ہی دیر قبل ایک مہربان صورت و فرشتہ
سیرت انسان اِس سے پتہ راستہ پوچھ کر اسے یہاں لے کر آیا تھا اور آپکے
گھر پر لگے قفل کو دیکھ کر اسے ہمارے حوالے کر کے چلا گیا۔
یہ آج سے کوئی 32 - 35 سال پرانا سچا واقعہ ہے۔
کل (مورخہ 20 اگست) کو فیس بک پر قائم اردو لڑیری فورم، ’’الف‘‘ کے ہفتہ
وار فی البدیہ طرحی مشاعرے میں جناب عقیل عباس جعفری صاحب کے ایک فی البدیہ
شعر کو پڑھکر تو ہمیں فوراً ہی سے کراچی کی موحودہ صورتحال یاد آگئی اور
پھر اسی حوالے سے شہرِ کراچی کی بے شمار ماؤں کے لختِ جگروں اور نورِ
ِنظروں کے اغوا اور پھر بے گناہ لرزہ خیزاموات کی کہانیاں نگاہوں میں پھر
سی گئیں:۔
کیا سنائیں شہر دل کا ماجرا
کونسا گھر ہے جہاں ماتم نہیں
(عقیل عباس جعفری)
ایک لحظہ دل نے سوال کیا کہ کیا یہ وہ وہی کراچی ہے جہاں ایک گمشدہ بچے کو
کسی نہ معلوم اجنبی نے بناء کسی صلے و ستائش کی تمنا کے خاموشی سے گھر
پہنچا کر اپنی راہ لی تھی؟ اور ایک آج کا کراچی ہے کہ بچہ ہو یا جوان پا
پھر کوئی پیر ِ ِصد سالہ، کسی کی بھی جان کا کوئی احترام و تقدس باقی نہیں
رہ گیا۔
سونے پہ سہاگہ یہ کہ لوگ کیڑے مکوڑوں کی مانند مارے جارے ہیں اور اِسی شہر
میں بستے دوسرے انسان تو اس سے یوں لاتعلق و بے پرواہ ہیں جیسے انسان نہ مر
رہے ہوں سچ مچ وہ کوئی حشرت الارض جیسی ہی کوئی بے وقعت مخلوق ہوں۔
لگتا ہے کہ ہم توان کوؤں سے بھی گئے گزرے ہوگئے ہیں کہ جو اپنے ایک ساتھی
کی موت پر کائیں کائیں کرکے سارے شہر کے کوے جمع کرلیتے ہیں اور وہ سب ملکر
شور مچا مچا کر سارا شہر سر پر اٹھا لیتے ہیں۔
یہاں شہر ِکراچی ہی ایک دختر پروین شاکرمرحومہ کی ایک حسب ِ حال غزل پیش
ِخدمت ہے:۔
میرے چھوٹے سے گھر کو یہ کس کی نظر، اے خُدا! لگ گئی
کیسی کیسی دُعاؤں کے ہوتے ہُوئے بد دُعا لگ گئی
ایک بازو بریدہ شکستہ بدن قوم کے باب میں
زندگی کا یقیں کس کو تھا ، بس یہ کہیے ، دوا لگ گئی
جُھوٹ کے شہر میں آئینہ کیا لگا ، سنگ اُٹھائے ہُوئے
آئینہ ساز کی کھوج میں جیسے خلقِ خُدا لگ گئی
جنگلوں کے سفر میں توآسیب سے بچ گئی تھی ، مگر
شہر والوں میں آتے ہی پیچھے یہ کیسی بلا لگ گئی
نیم تاریک تنہائی میں سُرخ پُھولوں کا بن کِھل اُٹھا
ہجر کی زرد دیوار پر تیری تصویر کیا لگ گئی
وہ جو پہلے گئے تھے ، ہمیں اُن کی فرقت ہی کچھ کم نہ تھی
جان ! کیا تجھ کو بھی شہرِ نا مہرباں کی ہوا لگ گئی
دو قدم چل کے ہی چھاؤں کی آرزو سر اُٹھانے لگی
میرے دل کو بھی شاید ترے حوصلوں کی ادا لگ گئی
میز سے جانے والوں کی تصویر کب ہٹ سکی تھی مگر ،
درد بھی جب تھما ، آنکھ بھی جب ذرا لگ گئی
شاعرہ: پروین شاکر |