سمرنجیت سنگھ مان : مان نہ مان میں تیرا مہمان

پنجاب کے صوبائی انتخاب میں اس بار کئی باتیں پہلی بار ہوئیں ۔ سب سے اہم تو یہ کہ وزیر اعظم نے پنجاب کا دورہ ادھورا چھوڑ دیا کیونکہ میدان خالی تھا مگر لوٹتے ہوئے جان بچا کر واپس ہونے پر شکریہ ادا کرکے پورے ملک کو شرمندہ کردیا۔ اس کے نتیجے میں بی جے پی شرمناک شکست سے دوچار ہوکر چوتھے نمبر پر آگئی۔ اس کی دوسری وجہ یہ تھی کہ پینتیس سال سے جس اکالی دل کی بیساکھی پر وہ سوار تھی وہ کسان تحریک کے سبب ٹوٹ گئی۔ بی جے پی سے پیچھا چھڑانے کے باوجود اکالی دل تیسرے نمبر پر رہا لیکن حیرت انگیز طور پر کانگریس کو ہرانے کا سہرا عام آدمی پارٹی کے سربندھا۔ اس نے غیر معمولی کامیابی درج کرا کے پنجاب کی سیاست میں کو الٹ پلٹ دیا۔ عآپ نے جب اپنے رکن پارلیمان بھگونت سنگھ مان کو وزیر اعلیٰ بنا یا تو انہیں استعفیٰ دیناپڑا ۔ اس وجہ سے خالی ہونے والی سنگرور لوک سبھا سیٹ پر عام آدمی پارٹی کے امیدوارکی شاندار جیت کا امکان تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سنگرور سے عآپ کے بجائے کانگریس یا اکالی دل کا امیدوار جیت جاتا تو بھی کوئی حیرت کی بات نہیں ہوتی کیونکہ ضمنی انتخاب میں عآپ کی ناکامی عام سی بات ہے۔ اس سے قبل آٹھ مرتبہ ایسا ہوچکا ہے لیکن نتائج کے اعلان سے پتہ چلا کہ اکالی دل امرتسر کے سمرنجیت سنگھ مان 5822ووٹ کے فرق سے کامیاب ہو گئے۔ ایک طویل عرصہ کے بعد مان کا انتخاب جیت جانا قوم پرست بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔ اب اس کی گونج خطرناک ثابت ہورہی ہے۔

سمرنجیت سنگھ مان نے اپنی کامیابی کو کارکنان اور سنت جرنیل سنگھ بھنڈارن والے کی تعلیمات کی فتح قرار دیا ۔ نومنتخب رکن پارلیمان کی زبان سے سنت بھنڈارن والے کا نام سن کر بہت سے لوگ چونک پڑے اور کچھ ٹیلی ویژن چینلس نے اس پر شورو ہنگامہ بھی کیا مگر وہ وہ صرف ایک ٹریلر تھا ۔ اصلی فلم تو ان کی حلف برداری کے بعد شروع ہوئی۔ دہلی میں ایوان پارلیمان کے باہر جو کچھ سمرنجیت سنگھ مان نے کہا وہ اگر کانگریس راج میں کہتے تو بی جے پی والے ان کی گرفتاری کے لیے آسمان سر پر اٹھالیتے لیکن اب تو ایسا سناٹا چھایا ہوا ہے کہ اے کے ہنگل کا مشہور مکالمہ’اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی‘؟یاد آتا ہے۔ سمرنجیت سنگھ مان نے ایوان زیریں کے صدر نشین اوم برلا کے دفتر میں حلف برداری کے بعد جب درخواست کی کہ انہیں پارلیمنٹ کی خارجہ اور دفاعی امور کی اسٹینڈنگ کمیٹی کا رکن بنایا جائے تو لوگ سوچنے لگےکہ آخر ان کو ان دو شعبوں میں انہیں دلچسپی کیوں ہے؟ لیکن پریس کانفرنس میں ان کے خطاب نے اس سوال کا جواب دے دیا ۔

ایوانِ پارلیمان کےباہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مان نے سب سے پہلے بی جے پی کے ذریعہ پیش کردہ عظیم ترین مجاہد آزادی بھگت سنگھ پر تنقید کردی۔ وزیر اعظم انہیں کی یاد گار پر عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے پنجاب گئے تھے مگر درمیان سے لوٹ آئے۔ مان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ، ‘بھگت سنگھ نے برطانوی بحریہ کے ایک نوجوان افسر کو قتل کیا تھا۔ اس نے ایک امرت دھاری سکھ کانسٹیبل کوہلاک کیا تھا۔ اس کے بعد پوچھا ’پارلیمنٹ پر بم پھینکنے والے کو کیا کہیں گے؟ مجھے بتاؤ، تم انہیں کیا بتاؤ گے؟ یہ تو خیر ایک زور کا جھٹکا تھا جو آہستہ سے لگا لیکن سنت جرنیل سنگھ بھنڈارن والے کے بارے میں جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے ببانگِ دہل اعلان کیا کہ وہ سکھوں کے قومی رہنما تھے ۔ سمرنجیت سنگھ مان سے اگر کوئی کسی اور جواب کی توقع کررہا تھا تو وہ اس کی غلطی تھی ۔انہوں نے بھنڈارن والے کی حمایت میں برسوں پہلے اپنا ایس پی کا عہدہ چھوڑ دیا مگر کوئی مفاہمت نہیں کی تو اب کیوں کرتے ؟ سمرنجیت سنگھ مان جب پچھلی بار ایوان ِ پارلیمان میں منتخب ہوئے تو کرپان کے ساتھ اجلاس میں شرکت پر اڑ گئے ۔ اس بار پھر ان سے اس بابت پوچھا گیا تو وہ بولے ملک کا دستور تو ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے۔ اب یہاں کی ہندو اکثریت یہ فیصلہ کرے کہ وہ انہیں اپنا آئینی حق استعمال کرنے کا موقع دے گی یا نہیں؟ اس کے معنیٰ یہی ہوئے کرپان کے بغیر پارلیمانی اجلاس میں شرکت کو وہ اپنے آئینی حق کی پامالی مانتے ہیں۔

ان فروعی موضوعات کے بعد خالصتان کا سوال آگیا تو شرومنی اکالی دل (امرتسر) کے سربراہ سمرنجیت سنگھ مان نے دو ٹوک انداز میں خالصتان کی حمایت جاری رکھی۔ انہوں نے اس کا نہایت دلچسپ جواز پیش بھی کیا ۔مان کے مطابق اگر خالصتان کا مطالبہ تسلیم کرلیا جائے تو وہ تین جوہری اسلحہ سے لیس ممالک کے درمیان ایک بفر اسٹیٹ بن جائے گا اور نتیجے میں اس خطہ کے اندر ایٹمی جنگ نہیں ہوگی۔ مان نے کہا ایک طرف مسلم پاکستان اور دوسری جانب ہندو ہندوستان ہے۔ اوپر کامریڈ چین ہے اور تینوں ایٹمی اسلحہ کے حاملین کے درمیان خالصتان اس جنگ کو روک دے گا۔ اس لیے سکھوں کے لیے الگ ملک ہونا چاہیے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ ہندوستان کی سالمیت کے تحفظ کا حلف لینے کے بعد وہ سکھوں کے الگ ملک کی بات کیوں کر رہے ہیں، تو وہ بولے ، ’’آپ مجھے اس پر گھیرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر لداخ خطہ میں جوکچھ ہورہا ہے اس پر آپ کیا کہیں گے ؟ چین وہاں کیا کر رہا ہے‘‘ ؟ اس طرح مرکزی حکومت کی ناک نیچے سمرنجیت سنگھ مان نے ببانگ دہل ملک کی سالمیت کو چیلنج کیا لیکن بات بات پر این ایس اے اور بغاوت کی دفعات پر بے قصور لوگوں کو گرفتار کرنے والوں کو سانپ سونگھ گیا اور بی جے پی کی ڈرپوک دیش بھگتی بے نقاب ہوگئی۔

سمرنجیت سنگھ مان اپنے بیباک بیانات کے لیے مشہور ہیں ۔ اس سے قبل انہوں نے بی جے پی کو آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ سکھ کبھی بھی بھارت ماتا کی جے کا نعرہ نہیں لگائیں گے۔اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ سکھ کسی بھی صورت خاتون کی پرستش نہیں کرتے اور اس لیے وہ ’’بھارت ماتا کی جے‘‘اور ’’وندے ماترم‘‘کا نعرہ نہیں لگائیں گے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا تھا کہ اسے جان لینا چاہیے سکھ ’’ واہے گورو جی کا خالصہ اور واہے گورو جی کی فتح کے نعرے ہی لگاتے رہیں گے۔سمرن جیت سنگھ مان کے مطابق، بھارت ماتا کی جے نہ کبھی کسی سکھ نے کہا ہے اور نہ کہے گا اور اس سے ان کی ملک سے وفاداری پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک نعرہ ملک وفاداری کا پیمانہ نہیں ہو سکتا اور بی جے پی کو اپنے خیالات ہم پر تھوپنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ جمہوری ملک ہے اور اس میں سب کو اپنے اپنے طریقے سے ملک سے محبت کرنے کا حق حاصل ہے۔ ماضی میں وزیر اعظم نریندر مودی پر مان آر ایس ایس کے وضع کردہ ہندو ازم کے پوشیدہ ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کا الزام بھی لگا چکے ہیں ۔ سکھوں کا سب سے بڑا ادارہ اکال تخت آر ایس ایس پر پابندی کا مطالبہ بھی کرچکا ہے۔

پنجاب میں صوبائی انتخاب سے قبل کمار وشواس نے اروند کیجریوال پریہ الزام لگا کر ذرائع ابلاغ میں ہنگامہ کھڑا کردیا تھا وہ پنجاب کا وزیر اعظم بننے کے خواہشمند ہیں ۔ بی جے پی نے جب اس کا فائدہ اٹھا کر کیجریوال کو گھیرنے کی کوشش کی تو نتیجتاًعام آدمی پارٹی نے غیر معمولی کامیابی درج کرائی۔ اس کے بعد جب بھگونت سنگھ مان کے سامنے خالصتان کا سب سے بڑا حامی سمرنجیت سنگھ مان میدان میں آیا تو سنگرور کے لوگوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا۔پنجاب میں فی الحال خالصتان کی باتیں کھلے عام ہورہی اور مرکزی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ امرتسر میں ہر سال ۶؍ جون کو ہزاروں سکھ عقیدتمند گولڈن ٹیمپل میں جمع ہوکر1984کے آپریشن بلیو اسٹار میں جان گنوانے والوں کو یاد کرتے ہیں۔ اس موقع پر امسال اکال تخت کے جتھیدار گیانی ہر پریت سنگھ نے سکھ اداروں کو کھلے عام اسلحہ کی تربیت کا اہتمام کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے لائسنس ہتھیار رکھنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا دوسرے اپنے لوگوں کو چھپ کر ہتھیاروں کی ٹریننگ دے رہے ہیں ہم سرِ عام یہ تربیت دیں گے۔ ان کے مطابق اگر ہم مذہبی طور پر مضبوط نہیں ہوتے تو معاشی مضبوطی بھی نہیں آئے گی اور سیاسی سطح پر کمزور ہوجائیں گے۔ گیانی ہرپریت نے آگاہ کیا کہ آگے کا راستہ مشکل ہے مگر اختلافات کو بھلا کر متحد ہوجاناا سے آسان کرسکتاہے ۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت سنگھ مان نے بڑے ادب اور احترام سے جتھیدار کے موقف سے اختلاف تو کیا مگر کوئی اقدام کرنے کی جرأت نہیں کرسکے۔ اس کے بعد گولڈن ٹیمپل کے میوزیم میں شرومنی گرودوارا پربندھک کمیٹی نے سابق وزیر اعلیٰ بے انت سنگھ کو انسانی بم بن کر گاڑی سمیت اڑا دینے والے پولیس اہلکار کی تصویر نصب کردی ۔ 2012 میں اکال تخت نے دلاور سنگھ ببر کو شہید کر درجہ دیا گیااور2017میں اکالی دل اور بی جے پی کی سرکار کے دوران اس کی تصویر لگانے کا فیصلہ ہوا۔ آگے چل کر چونکہ کانگریس اقتدار میں آگئی اس لیےمعاملہ پانچ سالوں تک کے لیے ٹل گیا۔عام آدمی پارٹی کے سنبھالتے ہی اب وہ تصویر عجائب گھر کی زینت بن چکی ہے۔ پنجاب کی ہندوتنظیموں نے اس کی مخالفت کی۔ اینٹی ٹیررسٹ فرنٹ کے صدر ویریش شانڈلیا نے کہا کہ ببر خالصہ کے دہشت گرد پھر سے پنجاب کے امن و امان کو تباہ کرنے کی سازش رچ رہے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ کو اس کی جانب توجہ دینی چاہیے لیکن امیت شاہ کو انتخابی مہمات اور مخالفین کی سرکار گرانے سے فرصت ملے تو کسی قومی مسئلہ پر دھیان دیں ۔ پنجاب کی ہندو تنظیمیں تو تصویر ہٹانے کی خاطر عدالت جانے کی تیاری کررہی ہیں مگر ان واقعات سے بے نیازدیش بھگت مرکزی حکومت کمبھ کرن کی نیند سو رہی ہے ۔

 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448994 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.