علامہ اقبال نے اپنے ایک خطبہ میں کہا تھا :’’ ہمارے اپنے
زمانے میں فلسفیوں نے معاشرے کے مروّجہ سرمایہ دارانہ نظام کا عقلی جواز
پیش کیا ہے‘‘۔ اس کی عریاں مثال برطانیہ میں سامنے آئی۔ دنیا بھر میں
نوآبادیات قائم کرکے اپنا پرچم لہرانے وا لا برطانیہ بہادر اپنی تاریخ کے
بدترین سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ بورس جانسن کو اپنی تمام تر کرتب بازیوں
کے باوجود استعفیٰ دینا پڑا ہے اور اب ان کے بعد اقتدار کے دعویداروں میں
ہندو پاک کے علاوہ عراقی اور نائیجیریائی ارکانِ پارلیمان بھی شامل ہیں ۔
ڈھائی سال قبل برطانوی عوام نے بڑے ارمانوں سے بورس جانسن کو اقتدار کی
کرسی پر فائز کیا تھا لیکن پچھلے دنوں انہیں رائے دہندگان نہیں بلکہ ان کی
کابینہ میں موجود وزرا کے استعفوں اور دقیانوسی سیاسی جماعت کے بہت سارے
قانون سازوں کی کھلی بغاوت کے سبب مستعفی ہو نا پڑا۔ اس طرح ابن الوقتی اور
دغابازی کا جو کھیل پاکستان میں ہوا وہی برطانیہ میں بھی دوہرایا گیا
کیونکہ دونوں ممالک میں رائج یکساں سیاسی نظام کے عوامی نمائندگان کی ابن
الوقتی اور مالی مفادات سیاسی عدم استحکام کا سبب بن گئے ۔ اس سیاسی کھیل
تماشے کو دیکھ کر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
بورس جانسن کے باغی جانشین اب دیانت داری کا راگ الاپ رہے ہیں لیکن سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے اتنی دیر تک ایک نااہل اور بدعنوان وزیر اعظم کی
حمایت کیوں کی؟ وہ اہم ترین عہدوں پر فائز رہ کر نہ صرف غلط فیصلے کرتے رہے
بلکہ ان کے نفاذ میں بھی ہاتھ بنٹایا ۔ بورس جانسن کے بعد اگر ان کا کوئی
مخالف حریف بن کر سامنے آتا تو بات اور تھی مگر فی الحال برطانیہ کے اندر
وزیر اعظم کی دوڑ میں ان کا دست راست ہندوستانی نژاد رشی سوناک سب سے آگے
ہیں ۔ ایسا اس لیے نہیں ہے کہ وہ بڑے دانشور یا نہایت ایماندار ہیں۔ ان پر
بھی لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی کا جرمانہ عائد کیاجا چکا ہے لیکن چونکہ
وہ بہت زیادہ دولتمند ہیں اس لیےانہوں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ ملکہ
الزبیتھ سے بھی زیادہ امیر کبیر بتائے جاتے ہیں۔ اس طرح امریکہ کی مانند
برطانوی جمہوریت میں بھی ووٹ پر نوٹ نے سبقت حاصل کر لی ہے۔ علامہ اقبال نے
اس فرنگی سیاست کے بارے میں کہا تھا؎
تری حریف ہے یا رب سیاستِ افرنگ، مگر ہیں اس کے پُجاری فقط امیر و رئیس
بنایا ایک ہی اِبلیس آگ سے تُو نے، بنائے خاک سے اُس نے دو صد ہزار ابلیس
برطانیہ کے اس بحران نے یوکرین زدہ یوروپ کے اندر ایک سیاسی خلفشار پیدا
کردیا ۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے برطانوی وزیر اعظم کے استعفے
پرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’صرف میں ہی نہیں، بلکہ پورا یوکرین آپ
کے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی رکھتا ہے‘۔ انھوں نے بورس جانسن کی یوکرین کے لیے
حمایت اور ’اہم اقدامات‘ پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔یوکرین کے وزیرخارجہ
دیمیترو کولیبا نے بورس جانسن کے دورے کو یادکرکےکہا کہ ج وہ بے خوف آدمی
ہیں، جس مقصدپر یقین رکھتے ہیں اس کے لیے خطرات مول لینے کے لیے تیار رہتے
ہیں۔اس کے برعکس روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے صحافیوں کو
بتایا کہ بورس جانسن نے’جو بویا وہ کاٹ رہے ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس
(انجام ) کا سبق یہ ہے کہ ’روس کو تباہ کرنے کی بات مت کرو۔‘
یوکرین کے لیے ایک بری خبر یہ بھی ہے کہ اس سے علیحدگی اختیار کرنے والے
دونیستک اور لوہانسک علاقوں کو شام کے بعد شمالی کوریا نے بھی الگ ملک کے
طور پر تسلیم کرلیا ہے۔ اس لیے بورس کی وداعی پر یوکرین کا ردعمل حسبِ توقع
لیکن جس یوروپی یونین میں وہ شامل ہونا چاہتا ہے اسے جانسن کے جانے پر خوشی
ہے۔ برطانیہ کو یورپی یونین سے باہر نکالنے کے عمل کو منطقی انجام تک
پہنچانے والے بورس جانسن کی رخصتی پر یورپی پارلیمان کے سابق کوآرڈینیٹر
گائے ورہوفسدت نے کہا کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے سے یورپی یونین
اور برطانیہ کے تعلقات کو بہت زیادہ نقصان پہنچااور ان کے دوست ڈونلڈ ٹر مپ
کی طرح ان کا دور بھی ’بے توقیری‘ یعنی رسوائی پر ختم ہوا۔ یورپی یونین کے
سابق چیف مذاکرات کار مائیکل بارنیئر نے بورس جانسن کے بعد برطانیہ کے ساتھ
تعلقات میں ایک نئے باب اورزیادہ تعمیری دور کی امید جتائی اور برطانیہ سے
اپنے وعدوں کی پاسداری کی توقع کی ۔
اٹلی سے کورونا جر ثومہ برطانیہ پہنچا تھا مگر وہ سیاسی عدم استحکام کا نیا
ویرینٹ بن کر برطانیہ سے اٹلی لوٹ آیا۔ وہاں پر ایک ملی جلی سرکار پچھلے
چار سال سے چل رہی تھی مگر اچانک تین اتحادیوں کی نیت بدل گئی اور انہوں
نےاعتماد کے ووٹ میں وزیر اعظم ماریو دراگی کو مسترد کردیا ۔ اس سیاسی
بحران اور مالیاتی منڈیوں میں ہونے والے نقصان اس سے پریشان ہوکر وزیر اعظم
نے صدر سرجیو ماتاریلا کو اپنا استعفیٰ سونپ دیا۔ سیاسی ذرائع کے مطابق بہت
جلد ایوانِ پرلیمان کو تحلیل کردیا جائے گا اور اکتوبر میں نئے انتخابات
منعقد ہوں گے ۔برطانیہ کی مانند اٹلی کے وزیر اعظم بھی یوکرین پر روسی حملے
کے خلاف یورپ کی جانب سے سخت ردعمل کے قائل تھے ۔ ان کا اقتدار سے محروم
ہوجانا یوکرین کے لیے بری اور روس کی خاطر اچھی خبر ہے۔ اس سیاسی عدم
استحکام نے مالیاتی منڈیوں میں اٹلی کے روز افزوں اثر و رسوخ پر روک لگا
دی۔
2011 کے بعد سے یورپی مرکزی بینک کی جانب سے پہلی بار شرح سود میں اضافہ کے
سبب اطالوی بانڈ اور اسٹاک تیزی سے فروخت ہو گئے نیز اطالوی اسٹاک 1.8 فیصد
نیچے آ گیا۔اس کے بعد اطالوی وزارت خزانہ کے ایک سابق سینئر عہدیدار
لورینزو کوڈوگنو نے اعتراف کیا کہ یہ پالیسی اور اصلاحات کے حوالے سے اٹلی
کی صلاحیت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے ۔ اس کی وجہ سے قبل از وقت انتخابات میں
تاخیر اور رکاوٹیں ہوں گی اور غالباً سال کے آخر تک کوئی بجٹ نہیں ہوگا
یعنی ملک دیوالیہ کا شکار ہوجائےگا۔ ان مشکلات سے بچنے کی خاطراطالوی وزیر
اعظم نے اپنے اتحادی پاپولسٹ 5-اسٹار موومنٹ کو مہنگائی سے نمٹنے کے
اقدامات پر اعتماد میں لینے کی بھرپور کوشش کی مگر فی زمانہ ہندوستان ہو یا
اٹلی ہر جگہ سیاسی جماعتوں کو عوام کی مشکلات سے زیادہ اپنے مفاد کی فکر لا
حق ہوتی ہے۔ اسی لیے پاپولسٹ 5-اسٹار موومنٹ نے انکار کرکے قومی معیشت
ابتری کی کھائی میں جھونک دیا۔
انتخابات کو ٹالنے کی اپنی آخری کوشش میں پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے وزیر
اعظم کی اتحاد قائم رکھنے کی گزارش کی مگر وہ صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ وزیر
اعظم کی جانب سے یوکرین کی جنگ کے سبب پیدا ہونے والے مسائل اور مشکلات نیز
سماجی تفریق اور بڑھتی قیمتوں جیسے مسائل کی دہائی بھی اتحادی فائیو اسٹار
موومنٹ پر اثر انداز نہیں ہوسکی ۔ اس نے یہ کہہ کر وزیر اعظم کی حمایت سے
انکار کردیا کہ وہ ان کے اہم خدشات دور نہیں کرپائے۔ یہ سراسر ہٹ دھرمی اور
ابن الوقتی تھی جس کے سبب وہ حکومت گرانے پر اڑ گئی حالانکہ دائیں بازو کی
فورزا اٹالیہ اور لیگ پارٹیوں نے ٹالنے کی خاطر وزیر اعظم کو 5-اسٹار کے
بغیر اور نئی پالیسی ترجیحات کے ساتھ نیا انتظامیہ تشکیل دینے کے لیے کہا
مگر وہ اس کی ہمت نہیں جٹا پائے۔ جمہوری سیاستدانوں کی موقع پرستی دنیا بھر
کے عوام کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ وہ کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرکے عیش کرنے کی
ہوس میں پاگل ہو چکے ہیں ۔ اس کی مثالیں برطانیہ سے لے کر اٹلی اور اسرائیل
تک ہر جگہ نظر آرہی ہیں لیکن دنیا نہ ان کو بغور دیکھتی ہے اور نہ عبرت
پکڑتی ہے اس لیے علامہ اقبال کا یہ دعائیہ شعر زبان پر آتاہے ؎
محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بِینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اَوروں کو بھی دِکھلا دے
جمہوری سیاست کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم استحکام کی بدترین مثال مشرق
وسطیٰ کی واحد اور دنیا کی ذہین ترین جمہوریت اسرائیل ہے۔ 2019کے بعد
دوسالوں میں اسرائیل کے اندر چار بار انتخابات ہوئے ۔ اس عدم استحکام کی
کیفیت پر قابو پانے کے لیے یائر لیپڈ اور بینیٹ نیفتالی نے دیگر جماعتوں کے
ساتھ مل کر جون 2021 میں ایک مخلوط حکومت تشکیل دی کیونکہ اس سے قبل بینجمن
نیتن یاہو کئی بار حکومت سازی کی سعی میں ناکام ہو چکے تھے۔موقع پرستی کی
بنیاد پر قائم ہونے والے سیاسی اتحاد میں شدید نظریاتی اختلافات کی حامل
دائیں بازو، لبرل اور عرب مسلم جماعتیں اقتدار کےلیے یکجا ہوگئی تھیں۔ بھان
متی کا یہ کنبہ کسی طرح دس ماہ تک ساتھ رہا مگر پھر ان کی پھٹول چوراہے پر
آگئی ۔ اس کے بعد جب اتحاد کو مستحکم کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں
تو وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ اور یائر لاپیڈ نے پارلیمنٹ تحلیل کروادی۔
اسرائیل میں اب گزشتہ تین برسوں کے اندر پانچویں انتخابات کی الٹی گنتی
شروع ہو چکی ہے اور اکتوبر یا نومبر میں اس کا انعقاد ہوگا ۔ اسرائیل کے
قیام سے اب تک وہاں کبھی بھی کسی جماعت کو واضح اکثریت نہیں مل سکی ۔ یہ اس
بات کا ثبوت ہے کہ صہیونیت جیسا فسطائی نظریہ بھی یہودیوں کے اندر سیاسی
اتحاد قائم کرنے میں ناکام ہے جبکہ وہ ایک دین اور ایک کتاب کے ماننے والے
ہیں ۔ اس کے برعکس ہندوستان میں نہ دین مشترک ہے اور نہ کتاب موجود ہے۔ اس
پر ذات پات کی تفریق اپنی جگہ ہے ۔ایسے میں جمہوریت کے لیے ساری کو جوڑ کر
سیاسی استحکام پیدا کرنا ممکن نہیں ہے۔ سنگھ پریوار کو یہی خوف ستاتارہتا
ہے، اس لیے وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بنیادپرکے ایک مصنوعی اتحاد قائم
کرنے کی کوشش میں مصروف ہے لیکن یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی ۔ دنیا بھر میں
سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ناکامی پر علامہ اقبال کے یہ اشعار عالمِ انسانیت
کو دعوت فکر دیتے ہیں؎
ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہریاری ہے، قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا
شکاری ہے
نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی، یہ صنّاعی مگر جھُوٹے نگوں کی
ریزہ کاری ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خردمندانِ مغرب کو،ہوَس کے پنجۂ خُونیں میں تیغِ
کارزاری ہے
تدبّر کی فسُوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا، جہاں میں جس تمدّن کی بِنا
سرمایہ داری ہے
|