ہستنا پور کے رکن اسمبلی دنیش کھٹک محکمہ آب رسانی کے
وزیر مملکت ہیں ۔ گزشتہ انتخاب سےچند ماہ قبل انہیں دلت رائے دہندگان کو
لبھانے کے لیے وزیر مملکت بنایا گیا تھا ۔ وہ مغربی اترپردیش سے آتے ہیں
جہاں جینت چوٹالہ نے اکھلیش یادو کے ساتھ الحاق کرکے بی جے پی کی خاطر ایک
بڑا چیلنج کھڑا کردیا تھا ۔ ریاست کے اس حصے میں کسان تحریک کے سبب بی جے
پی سے ناراضی تھی ۔ اس لیے لوگ توقع کررہے تھے کہ بی جے پی کو بڑا جھٹکا
لگے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ دنیش کھٹک اور بیبی رانی جیسے دلت رہنماوں نے
جاٹوں کی کمی پوری کردی اور بی جے پی چالیس نشستوں پر کامیاب ہوگئی۔ ایسے
میں دنیش کھٹک کو بجا طور پر امید تھی کہ انہیں ترقی دے کر کابینی وزیر بنا
دیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ وہ وزیر مملکت ہی رہے ۔ مایوسی کےاس ننھے
سےبیج کو ان کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی نے پروان چڑھایا اور بالآخر اس
درخت سے استعفیٰ کا کڑوا پھل ٹوٹ کر گرگیا ۔اب اس پر چاشنی کی پرت چڑھا کر
میٹھا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس سے بظاہر چکھنے پر تو وہ میٹھا لگے
گا مگر اس کے اندر موجود کڑواہٹ جوں کی توں موجود رہے گی ۔
دنیش کھٹک نے اپنے دل کا درد استعفیٰ میں کھل کر بیان کردیا ۔انہوں نے اپنے
شکایت نامہ کو صیغۂ راز میں رکھنے کے بجائے میڈیا کے حوالے کرکے سنگھ
پریوار کی نفسیات کو بے نقاب کردیا ۔ دنیش کھٹک لکھتے ہیں محکمہ آب رسانی
میں میں دلت سماج سے تعلق رکھنے والاریاستی وزیر ہونے کے باوجود ان کے کسی
حکم پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ انہیں کسی نئے کام اور منصوبے کے
بارے میں بھی آگاہ نہیں کیا جاتا۔ یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ کن اسکیموں پر
کیا کارروائی ہو رہی ہے؟ نہ تو میٹنگ میں بلایا جاتا ہے اور نہ ہی وزارت
میں ہونے والے کام کے بارے میں معلومات دی جاتی ہے۔ میں تکلیف میں اپنا
استعفیٰ دے رہا ہوں۔دنیش کھٹک نے اتر پردیش کی یوگی حکومت پر الزام لگایا
کہ افسران دلتوں کی توہین کر رہے ہیں۔ انہوں نے کسی معاملے کی بابت محکمہ
آبپاشی کے پرنسپل سکریٹری انیل گرگ کو فون کیا تو ان کی بات سنے بغیر فون
منقطع کردیاگیا ۔ وہ دلت ذات کے وزیر ہیں، اس لیے محکمہ میں ان کے ساتھ بہت
زیادہ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔
بی جے پی والے فی الحال عوام کو اس فریب میں مبتلا کررہے ہیں کہ پسماندہ
قبائل کی دروپدی مرمر کے صدر بن جانے سے اس سماج کے اچھے دن آجائیں گے مگر
موجودہ صدر رام ناتھ کووند اترپردیش کے دلت ہیں ۔ ان کے رہتے جب انہیں کی
ریاست میں بی جے پی کے وزیر کا یہ حال ہے تو دروپدی مرمر کے صدر بن جانے سے
کیا فرق پڑے گا؟ دنیش کھٹک نے عین انتخابی نتائج کے دن استعفیٰ دے کر بی جے
پی کے دعووں کا پول کھولتے ہوئے کہ دلت ہونے کی وجہ سے افسران ان کے ساتھ
امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ بی جے پی کی حکومت قابل
احترام وزیر اعظم نریندر مودی جی اور قومی صدر نڈا جی اور جناب امیت شاہ جی
کی انتھک محنت اور کارگر قیادت کی وجہ سے دلتوں اور پسماندہ طبقات کو ساتھ
لے کر قائم ہوئی ہے۔ اسی سلسلے میں، دلت سماج سے وابستہ ہونے کی وجہ سے،
مجھے ایک ایماندار اور صاف ستھری شبیہ کے ساتھ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ
جی کی قیادت میں وزیر مملکت بھی بنایا گیا ہے، تاکہ پورا دلت سماج جوش
وخروش کے ساتھ بی جے پی حکومت کے لیے وقف ہولیکن محکمہ میں دلت طبقہ کا
وزیر ہونے کے سبب ان کے کسی حکم پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ سرکار میں
اگر وزیر کی ان سنی کردی جاتی ہو تو عام دلتوں کی درگت کا کیا کہنا؟
مذکورہ بیان کو غور سے دیکھا جائے تو اس میں دلتوں اور پسماندہ لوگوں کو
ساتھ لے کر حکومت قائم کرنے کا سہرا وزیر اعظم نریندر مودی اور قومی صدر
نڈا اور امیت شاہ کی انتھک محنت اور موثر قیادت کے سر باندھا گیا ہے۔ اس
میں فہرست میں یوگی ادیتیہ ناتھ کی عدم موجودگی کو نظر انداز نہیں کیا
جاسکتا۔ سیدھی بات یہ ہے کہ اگر کسی وزیر مملکت کو کوئی شکایت ہو تو اسے
اپنے محکمہ کے کابینی وزیر سے بیان کرنا چاہیے ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ محکمہ
آب رسانی کے کابینی وزیر بی جے پی کے صوبائی صدر سوتنتر دیو سنگھ ہیں۔ اس
لیے بی جے پی کے رکن کی حیثیت سے بھی انہیں سوتنتر دیو سنگھ سے رجوع کرنا
چاہیے ۔ وہ اگر شکایت پر کان نہیں دھرتے تو وزیر اعلیٰ موجود ہیں جن کی زیر
قیادت حکومت میں انہیں شامل کرنے اعتراف خود دنیش کھٹک نے کیا ۔ دنیش کھٹک
کی تربیت سنگھ کی شاکھا میں ہوئی ہے اس لیے انہیں نظم و ضبط کا پتہ ہونا
چاہیے لیکن انہوں نے یوگی اور سوتنتر دیو کو نظر انداز کرکے اپنا استعفیٰ
سیدھے گورنر اور امیت شاہ کو بھیج دیا ۔ یہ استعفیٰ اگر پارٹی کے صدر جے پی
نڈا کو بھیجا جاتا تب بھی ٹھیک تھا لیکن امیت شاہ کو بھیجنے کی کوتُک نہیں
ہے اس لیے کہ وزیر داخلہ کا کام بی جے پی کے داخلی امور میں دخل اندازی
نہیں ہے۔ یہ یوگی اور شاہ کی چپقلش کا فائدہ اٹھانے والی چال ہے۔
سیاست میں رہتے رہتے یوگی جی کا دم خم بھی کم ہوگیا ہے ورنہ اس کھلی توہین
کے بعد دنیش کھٹک کو گھر بلا کر سمجھانے منانے کے بجائے استعفیٰ قبول کرکے
پارٹی مخالف سرگرمی کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے تھی ۔ ٹھاکر ہونے کا
تقاضہ تو یہ بھی تھا کہ دنیش کھٹک کے گھر پر بلڈوزر چلا کر باغی کا سر
کچلنے کی کوشش کی جاتی لیکن انہیں پتہ ہے کہ حال فی الحال جس بلڈوزر کے
سامنے امیت شاہ تو دور ان کی تصویر بھی آجائےتو وہ ابراہیم لودھی کے
ہاتھیوں کی مانند اپنی ہی فوج کو کچلنے کے لیے الٹا چل پڑتا ہے۔ یوگی سرکار
کی اس رسوائی پر سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے چٹکی لیتے ہوئے
نہایت دلچسپ انداز میں بلڈوزر کا ذکر کیا ۔ انہوں نے وزیر اعلی یوگی آدتیہ
ناتھ پر حملہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کبھی کبھی بلڈوزر الٹا بھی چلتا ہے۔
تفریق و امتیازکرنے والی بی جے پی حکومت سے استعفیٰ ہی ہمارے سماجی ا قدار
کو برقرار رکھنے کا واحد راستہ ہے۔ بعض اوقات بلڈوزر بھی الٹ جاتا ہے۔ ایک
اور ٹویٹ میں اکھلیش یادو نے یوپی میں بی جے پی حکومت کے اندر بدعنوانی اور
غلط حکمرانی کی کرونولوجی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا محکمہ تعمیرات عامہ کی
وزارت میں پہلی بغاوت۔ پھر وزارت صحت اور اب وزارت آب رسانی میں بغاوت۔
یوپی سرکار کو ایمانداری سے بتانا چاہیے اگلی باری کس کی ہے؟
مذکورہ بالا الزامات کو محض حزب اختلاف کے شور شرابے کا نام دے کر جھٹلایا
نہیں جاسکتا ہے۔ دنیش کھٹک نے اپنے استعفیٰ میں بھید بھاو کے علاوہ نمامی
گنگا اور ہر گھر جل یوجنا میں اصول و ضوابط کو نظر انداز کرنےکا الزام
لگایا ۔ انہوں نے ٹرانسفر پوسٹنگ میں بھی بدعنوانی کا کھلے عام ذکر کیا ۔
ایک بی جے پی وزیر کا مذکورہ بالہ اعتراف تو گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کی
مثال ہے۔ دنیش ٹھاکر کو رکن اسمبلی بنے ساڑھے پانچ سال بھی نہیں ہوئے اور
وزیر بننے کے بعد تو صرف دس ماہ ہوئے ہیں اس لیے وہ سیاسی عیاری و مکاری سے
ابھی تک پوری طرح واقف نہیں ہیں اس لیے اپنے من کی بات ببانگ دہل بیان کردی
اور ہستناپور کے اس رکن اسمبلی نے پہلے تو استعفیٰ دیا اور پھر اس کو واپس
لے لیا لیکن اس معاملے کو مہابھارت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
ہستناپور کی اپنی تاریخی روایت ہے ۔ مہابھارت کی لڑائی ہستناپور کی وراثت
کے لیے ہوئی تھی۔ یہ ایک خاندان سے وابستہ افراد کی باہمی جنگ تھی جس میں
سب ہار گئے کوئی فتح مند نہیں ہوا ۔ اس میں عبرت کا یہ پہلو ہے کہ اگر
سلطنت کی خاطر ایک خاندان کے لوگ آپس میں دست و گریباں ہوجائیں اس کا
نتیجہ تباہی وبربادی ہی ہوتا ہے۔ افسوس کہ سنگھ پریوار یہ سبق نہیں سیکھ
سکا ورنہ اترپردیش میں یہ تنازع پیدا نہ ہوتا ۔ اس میں شک نہیں کہ وزیر
اعظم نریندر مودی بھیشم پتامہ کی مانند اترپردیش سمیت پورے ملک کے بےتاج
بادشاہ ہیں لیکن ان کی وراثت کے کورو اور پانڈو کی مانند دو دعویدار ہیں ۔
ایک لکھنو میں اور دوسرا دہلی میں براجمان ہے۔ کل یگ کی یہ جنگ کوروکشیتر
کے میدان میں دوبدو نہیں ہوگی بلکہ میڈیا کی مدد سے وہ دونوں ایک دوسرے کو
ہرانے کی کوشش کریں گے ۔ اس داخلی محاذ آرائی میں کون کامیاب ہوگا اور کون
ناکام یا مہابھارت کی مانند سبھی شکست فاش سے دوچار ہوجائیں گے یہ تو وقت
ہی بتائے گا ۔
|